ایک چھوٹی سی لڑکی اپنے گھر کے ٹیریس کے کونے میں کھڑی، پڑوس کی آنٹی سے بے خبر بڑے مزے سے گاجر کا حلوہ کھا رہی تھی- میں گاجر یا دال کے حلوے کی شوقین ایک گول مٹول سی بچی تھی-

وہ کراچی کی سردیوں کے دن تھے میں اس وقت کا انتظار کیا کرتی جب میری والدہ دوپہر کے آرام کی تیاری کرتیں اور ہمارا چغل خور خانساماں کچن بند کردیتا، یہی وقت ہوتا میرے میٹھے ایڈونچر کا میں کسی بلّی کی طرح دبے پاؤں فریزر تک جاتی، اپنے لئے گاجر کا تھوڑا سا حلوہ نکال کر مناسب حد تک گرم کرتی-

ہر دوپہر کو گاجر کے حلوے کے ساتھ میری یہ دوستی فقط ایک موسم تک ہی چل سکی اور اس کی وجہ شمشاد آنٹی کی میری امی کے کانوں میں کھسر پھسر تھی-

انتہائی لذیذ اور مرغوب، گاجر کے حلوے کی یہی تعریف ہے، آخر کس نے گاجروں میں شکر، دودھ اور گھی شامل کر کے اسے دودھ خشک ہو جانے تک دھیمی آنچ پر پکایا اور ایک مرغوب میٹھے کی شکل دی؟

کہتے ہیں کہ وہ سکھ تھے جنہوں نے گاجر کا حلوہ مغل محلات میں متعارف کرایا، شہنشاہوں کو اس کا رنگ، خوشبو اور ذائقہ اتنا بھایا کہ اس پکوان کی مٹھاس پوری سلطنت میں دور دور تک پھیل گئی-

حلوہ عربی زبان کا لفظ ہے اور ثقیل میٹھے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا، اصلیت میں حلوہ، آٹے یا مختلف میوہ جات کو شکر مکھن اور دودھ کے ساتھ پکا کر میٹھے گاڑھے آمیزے یا سخت سوندھے پکوان کو کہتے تھے- عام طور پر یہ ماننا ہے کہ حلوے کی یہ قسم، مغل سلطنت کے پھیلاؤ کے دوران مشرق وسطیٰ اور ایشیاۓ کوچک سے تجارت کے نتیجے میں ہندوستان میں متعارف ہوئی-

مغل سلطنت تیزی کے ساتھ پھیل رہی تھی اور غیر ملکی تاجر انوکھی چیزیں تجارت کے لئے لے کر آتے، نارنجی گاجر بھی ایک ایسی ہی چیز تھی- گاجر کا رنگ اصل میں جامنی ہوتا تھا اور یہ افغانستان میں پچھلے پانچ ہزار سالوں سے موجود تھا- اس کے علاوہ گاجریں سفید، لال، پیلے اور کالے رنگ میں بھی پائی جاتی تھیں-

لیکن نارنجی رنگ کی گاجریں سترہویں صدی میں نیدر لینڈ کے لوگوں نے ہاؤس آف اورینج کے ولیم آف اورینج کے اعزاز میں نارنجی گاجر اگانے کا فیصلہ کیا- بہرحال بہت سوں کا خیال ہے کہ یہ محض اتفاق تھا کہ لال اور پیلی گاجر کے جنیاتی مرکب سے نارنجی گاجر پیدا ہوئی اور اس کا اورینج کے شاہی گھرانے سے کچھ تعلق نہیں- نارنجی گاجر دیکھنے میں خوش رنگ، زیادہ میٹھی اور بالکل چپچپی نہیں تھی چناچہ باورچیوں میں جلد ہی پسند کی جانے لگی-

مغل سلطنت اپنے عروج پر تھی، ایک ایسی سلطنت شاندار تھی، جدید تھی اور پوری دنیا سے تجارت کرنا چاہتی تھی- نارنجی گاجریں، یورپ اور مشرق وسطیٰ تک پہنچ چکی تھیں اور سترہویں صدی میں ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعہ جنوبی ایشیاء بھی پہنچ گئیں-

برصغیر کے خانساماؤں کو یہ نئی درآمد شدہ گاجریں اور ان کی مٹھاس پسند آئی اور چونکہ یہ دور انواع اقسام کے پکوانوں کا دور تھا تو ماہر باورچیوں اور خانساماؤں نے آٹے اور میوہ جات کی جگہ گاجر کا حلوہ بنانے کا فیصلہ کیا-

صوبہ پنجاب میں اسے زیادہ پسند کیا گیا اور میٹھا اور نمکین دونوں ذائقوں میں نت نئے پکوان ایجاد کیے گئے- یہ سردیوں کی سبزی تھی، اس موسم میں گاجر کی بہتات پر باورچیوں کو ایک ایسا گرما گرم اور لذیذ میٹھا بنانے کا خیال آیا جسے دن کے کسی بھی حصّے میں کھایا جاسکتا تھا، چاہے کھانے سے پہلے یا بعد میں یا پھر چاۓ اور دودھ پتی کے ساتھ- دیکھتے ہی دیکھتے گاجر کا حلوہ برصغیر کے ہر خاص و عام کی پسند بن گیا-

کھانے کے حوالے سے پاکستان اور ہندوستان کا ورثہ ایک ہی ہے، سرحد کے دونوں پار ایک ہی طرح کے کھانے پسند کے جاتے ہیں- یہ ناصرف کھانے کے دوران دوستوں کے درمیان دلچسپ گفتگو کا سامان ہے بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ پکوان کہانیاں اور ان کی ترکیب بھی بانٹی جاسکتی ہیں-

میری ایک قریبی دوست، سمبلہ طفیل انتہائی لذیذ گاجر کا حلوہ بناتی ہیں- میں پچھلی تیرہ سردیوں سے اس کے ہاتھ کے بناۓ گاجر کے حلوے سے بنا کسی مداخلت کے لطف اندوز ہوتی رہی ہوں- سمبلہ نے بڑی محبّت کے ساتھ اپنی والدہ کی ریسیپی مجھے دی اور جب میں یہ حلوہ تیار کر رہی تھی تو مجھے اپنا بچپن یاد آگیا-

اپنا بچپن یاد کرنے سے بہتر اور کوئی لمحہ ہو ہی نہیں سکتا جب آپ خوشی کے مارے کہیں، 'ماں یہ دنیا کا بہترین گاجر کا حلوہ ہے !!'-

تو پیش ہے میرے کچن سے آپکی خدمت میں-


گاجر کا حلوہ - بارہ افراد کے لئے


اجزاء:

گاجر - سوا دو کلو

دودھ - ڈیڑھ سے پونے دو لیٹر کے درمیان

ہاف اینڈ ہاف دودھ - سات سو پچاس گرام

پھینٹی ہوئی ہیوی کریم - تین سو تیس گرام

شکر - ¾ 1 کپ

پھیکا مکھن - دو سے تین کھانے کے چمچ

تیل - ایک چوتھائی کپ

الائچی - آٹھ تا دس

کشمش - ایک کھانے کا چمچ

چھلے ہوۓ بادام - دو کھانے کے چمچ


ترکیب


گاجروں کو چھیل کر کدوکش کرلیں، دودھ ابال کر اس میں گاجریں شامل کردیں- گاجر اور دودھ کا مرکب ابل جانے کے بعد اس میں شکر اور ہاف اینڈ ہاف دودھ بھی شامل کردیں، ساتھ ہی مسلسل چمچ چلاتی رہیں-

چمچ چلاتے رہیں اور جب مرکب میں ابال آجاۓ تو آنچ درمیانی کردیں- دودھ خشک ہوجانے پر ہیوی کریم ڈال دیں اور برابر چمچ چلائیں- کریم خشک ہوجانے پر مکھن، تیل اور الائچی شامل کردیں اور آنچ تیز کرلیں- اس وقت تک چمچ چلاتے رہیں جب تک تیل الگ نہ ہوجاۓ-

اب اس پر کشمش اور بادام سے گارنش کر کے پیش کریں-

ترجمہ: ناہید اسرار

انگلش میں پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Oct 12, 2014 02:59am
ناہید آپ نے ترجمہ کرنے کی ایک کوشش ضرور کی ہے. اگلا قدم ہونا چاہیے اس سے بہتر کا. اب انگریزی کا سیزن اردو کا موسم بھی ہے اور ایک دفع یا ایک بار کے لیے ٹھیک ہے. ایک ترجمہ ہم نے پڑھا؛ انگریزی کا جملہ تھا 'سائن ایٹ دا باٹم آف دا چیک'. اس کا ترجمہ کیا گیا تھا 'چیک کے پیندے پر دستخط کریں.' واللہ یہ سچ ہے اور میری ایجاد نہیں.
Kamran Oct 12, 2014 07:48am
ھاف اینڈ ہاف دودھ سے کیا مراد ھے؟
یمین الاسلام زبیری Oct 13, 2014 01:15am
@Kamran:جناب لگتا ہے کہ یہ مضمون صرف ان لوگوں کے لیے لکھا گیا ہے جو کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں. ہاف انڈ ہاف کا ترجمہ دودھ و مکھن آدھوں آدھ ہوگا، گھر پر بھی بنایا جا سکتا ہے، ویسے امریکہ میں ملتا ہے. دوسرے ملکوں میں آدھوں آدھ کے معنی کچھ اور بھی ہوسکتے ہیں. وکی پڑیا رجوع کریں. گاجر کا حلوہ ایک بہت ہی عام سی پاکستانی شیرینی ہے. ہر کوچہ و گلی میں ملتی ہے. لیکن جب محلات میں بیٹھی بیگمات بسمہ ترمزی کا نسخہ سامنے رکھ کر اسے پکائیں گی تو مزا جو ہو سو ہو، بات کچھ اور ہی ہوگی. آگے کیا لکھیں، البتہ اگر آپ اس ترکیب میں کھویا اور ملالیں تو مزا ہی کچھ اور آوے گا.