وی آئی پی کلچر: اوورٹیک کی سزا موت

27 اکتوبر 2014
پاکستانیوں کو شاید یہ بات بھول گئی ہے کہ اس طرح کے واقعات ملک میں پرانی روایت ہیں، اور یہ سلسلے کی بس ایک اور کڑی ہے — فوٹو بشکریہ ملک طاہر فیس بک پیج
پاکستانیوں کو شاید یہ بات بھول گئی ہے کہ اس طرح کے واقعات ملک میں پرانی روایت ہیں، اور یہ سلسلے کی بس ایک اور کڑی ہے — فوٹو بشکریہ ملک طاہر فیس بک پیج

1965 میں عابدہ ریاض، جنہیں ان کے اسٹیج نام "نیلو" سے جانا جاتا تھا، نے ایک وی آئی پی کے احکامات ماننے سے انکار کیا۔

مغربی پاکستان کے گورنر، نواب آف کالاباغ، اور ہزاروں دوسرے القابات رکھنے والے ملک عامر محمد خان اعوان نے انہیں شاہ ایران، لائٹ آف دی آرینز، اور ہزاروں دوسرے القابات رکھنے والے محمد رضا شاہ پہلوی کے اعزاز میں دی گئی ایک پرائیویٹ پارٹی میں ڈانس کرنے کے لیے بلایا۔

نیلو نے حکم ماننے سے انکار کر دیا۔

گورنر نے اپنے پرائیویٹ گارڈز بھیجے، تاکہ نیلو کو ان کے گھر سے اٹھوایا جائے، اور ایک مجبور و بے کس کی طرح دنیا کے حکمرانوں کے سامنے نچایا جائے۔

ایسے موقعے پر مجبوروں کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے، خودکشی۔ سو عابدہ نے خودکشی کی کوشش کی۔ ان کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کی جان بچ گئی، اور "مجرے" جیسی تذلیل سے بھی بچت ہوگئی، لیکن انہیں لمبے عرصے کے لیے بستر پر رہنا پڑا۔

انہیں ان کی ڈیوٹی اور ان کی حیثیت یاد دلاتے ہوئے حبیب جالب نے کہا تھا کہ

تو کہ ناواقفِ آدابِ غلامی ہے ابھی رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے

شاید کسی نے سوچا ہو کہ 49 سال بعد سبق سیکھ لیا گیا ہوگا، لیکن اس قوم میں تبدیلی ہے کہ آنے کا نام ہی نہیں لیتی۔

یہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کچھ ریلیاں نکالیں گے، بااثر شخصیات کے خلاف کچھ نعرے بازی کریں گے، ایک دو منسٹروں کو جہاز سے اتار پھینکیں گے، اور لو، وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہوگیا۔

جناب، یہ اتنا آسان نہیں ہے۔

قانون وغیرہ کے جھنجھٹ میں نہ پڑنے والے ممالک میں صرف طاقت ہی قانون کہلاتی ہے۔ غریبوں کو ان جرائم میں سزا دینا کوئی منافقت نہیں، جن جرائم کے لیے امیر کبھی سزا نہیں پاتے۔ ہماری تمام خواہشوں کے باوجود یہ سب اسی طرح جاری ہے، اور بااثر لوگ اسی طرح آسانی سے بچ کر نکل جاتے ہیں۔

یاد دلانا پڑے گا

۔ بیکری تشدد کیس میں کیا ہوا جس میں شہباز شریف کے داماد علی عمران یوسف نامزد ہیں۔ ۔ شاہزیب قتل کیس میں کیا ہوا؟

یہ لوگ اس لیے بچ نکلتے ہیں کہ قانون میں کافی گنجائشیں نکل آتی ہیں۔ یہ اس لیے بری ہوجاتے ہیں، کہ بری ہوجانا ان کے بس میں ہے۔

یہ اس لیے چھوٹ جاتے ہیں، کیونکہ غریب لوگ دیت پر صبر کرجاتے ہیں، یا فی سبیل اللہ جیسے خوشنما خیالات میں گم ہوجاتے ہیں۔ زیادہ تر دیت کی آفر اتنی پرکشش ہوتی ہے، کہ یہ غریب اسے ٹھکرانا افورڈ نہیں کرسکتے۔

امیر اور طاقتور تمام الزامات سے اس لیے بری ہوجاتے ہیں، کیونکہ ثبوت ہمیشہ دھندلائے ہوئے ہی ہوتے ہیں، اور گواہ یا تو پارٹی بدل لیتے ہیں، یا گواہی دینے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ اور اس بات کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ ایسا کیوں ہے۔

کمتر لوگ لائن کراس کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور انہیں واپس ان کی اوقات یاد دلا دی جاتی ہے۔ اس لیے عبدالقادر گیلانی آپ کا بہت بہت شکریہ، جس نے طاہر ملک اور اس جیسے دوسرے عام لوگوں کو یاد دلا دیا کہ وی آئی پیز کی گاڑیوں کو اوورٹیک کرنا جرم ہے۔

فیض احمد فیض بھی ہنستے ہوئے کہتے

یہ گلیوں کے آوارہ بیکار کتے

کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی

زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا

جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی

گیلانی صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ، جس نے ان کمتر طبقوں کو ان کے اصل مقام سے آگاہ کردیا، اور بالکل ویسے ہی کیا جیسے کرنا چاہیے تھا۔

اس کے بعد بااثر طبقے کو جنرل ڈائر کے رینگنے کے حکم جیسا قانون پاس کرانا چاہیے۔ جنرل ڈائر کے احکامات تو پھر بھی ایک گلی تک ہی محدود تھے، لیکن اس قانون کے تحت تمام غریبوں کو حکم ہونا چاہیے کہ وی آئی پیز کو دیکھتے ہی رینگنا شروع کر دیں۔

یہ اس قوم کو یاد دلانے کے لیے بہت ہے جو کبھی آزاد ہوئی ہی نہیں تھی۔

اپنے بھائی کے اغوا کے بعد عبدالقادر گیلانی شاید کچھ زیادہ ہی خوفزدہ ہوگئے ہیں، اور اپنے دفاع پر مجبور ہوئے۔

لیکن طاہر یہ ضرور بھول گیا کہ پاکستان میں معقول رویوں کی بحث وی آئی پیز کے سامنے آتے ہی پیچھے رہ جاتی ہے۔

لیکن منفی رویے رکھنے والے لوگ طرح طرح کے سوالات ضرور اٹھائیں گے۔

۔ کیا گیلانی گاڑی میں موجود تھے؟

۔ کیا صرف گارڈ کی غلطی نہیں؟ اس کے اعتراف کے بعد گیلانی کو سزا کیوں دی جائے؟

۔ پروٹوکول تو یہی ہوتا ہے، موٹرسائیکل سوار نے کیوں بار بار اوورٹیک کر کے گارڈز کو پریشان کیا؟

لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ سوالات کافی غیر اہم ہیں۔

صرف ایک شخص کی ہی تو جان گئی ہے۔ پاکستانی تاریخ میں جن ہزاروں لوگوں کی اموات ہوئی ہیں، ان میں صرف ایک اور اضافہ، اس سے کیوں سبق سیکھنے میں جلدی کی جائے؟ انصاف کے مغرب میں رائج اور اسلامی اقدار کو اپنے دماغوں کو آلودہ نہ کرنے دیں۔

جی ہاں، وہی اقدار، جس کی وجہ سے برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو ایک سرجن نے صرف اس لیے ہسپتال کے وارڈ سے باہر نکال دیا تھا، کیونکہ وہ ہائیجین کے تقاضوں کو پورا نہیں کر رہے تھے۔

ہم بھی اپنے وزیر اعظم کے ساتھ ایسا کریں؟ کیا بکواس ہے۔

اگر کوئی یہ سوچتا ہے، کہ صرف میڈیا پر تھوڑی سی ڈسکشن ہونے سے اس کو حقوق بھی مل گئے ہیں، تو یہ بھی بکواس ہے۔

اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ ملک میں خالص امریکی طرز کی جمہوریت ہے، جس کے محافظ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی اسمبلیوں میں چیخ چلا رہے تھے، تو یہ بھی بکواس ہی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں