پاکستان میں 'غیرت' کے نام پر سات سال میں تین ہزار قتل

اپ ڈیٹ 17 نومبر 2014
رضیہ شیخ کاروکاری کی شکار ایک لڑکی کی والدہ— اے ایف پی فوٹو
رضیہ شیخ کاروکاری کی شکار ایک لڑکی کی والدہ— اے ایف پی فوٹو
رضیہ اپنی لڑکی کی تصویر دکھاتے ہوئے— اے ایف پی فوٹو
رضیہ اپنی لڑکی کی تصویر دکھاتے ہوئے— اے ایف پی فوٹو
رضیہ اپنی لڑکی کی تصویر دکھاتے ہوئے— اے ایف پی فوٹو
رضیہ اپنی لڑکی کی تصویر دکھاتے ہوئے— اے ایف پی فوٹو

سکھر : رضیہ شیخ آسمان کو تک رہی ہے، اس کی آنکھوں میں آنسوﺅں کی چمک نمایاں ہے اور قرآن مجید کا ایک نسخہ اس کی گود میں رکھا ہوا ہے، وہ اپنی ایک گمشدہ اور دوسری بیٹی کے رشتے داروں کے ہاتھوں "غیرت" کے نام پر قتل پر اللہ سے انصاف کی اپیل کررہی ہے۔

چالیس سال سے زائد عمر کی یہ بیوہ خاتون اپنی بیٹی کی دو تصاویر دکھاتے ہوئے ماتم کررہی ہے، ایک تصویر میں وہ لڑکی جگمگاتی آنکھوں کے ساتھ زندہ دل شخصیت کی مالک نظر آرہی ہے، جبکہ دوسری میں وہ بے جان ہوکر پلنگ پر پڑی ہے اور اس کے اوپر کفن لپٹا ہوا ہے۔

رضیہ ان لاتعداد ماﺅں میں سے ایک ہے جو "کاروکاری" کے باعث اس تکلیف سے گزرتی ہیں، اس رسم کے تحت خاندان کی غیرت یا کئی بار تو صرف انتقامی جذبے میں گرفتار ہوکر خواتین کو زندگیوں سے محروم کردیا جاتا ہے۔

پاکستان میں خواتین کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنے والے گروپ عورت فاﺅنڈیشن کا کہنا ہے کہ 2008 سے اب تک "غیرت" کے نام پر تین ہزار سے زائد قتل ہوچکے ہیں۔

شادی اور قتل

صوبہ سندھ میں دریائے سندھ کے کنارے پر واقع سچل شاہ میانی نامی گاﺅں میں اپنے ایک کمرے کے گھر کے باہر چارپائی پر بیٹھی اپنی المناک کہانی بیان کررہی ہے۔

اس کا آغاز اس وقت ہوا جب اس کی بڑی بیٹی خالدہ 2010 میں کراچی میں اپنے سسرال کے گھر سے غائب ہوگئی۔

خالدہ کے ساتھ کیا ہوا وہ ابھی تک واضح نہیں مگر سسرالی رشتے داروں نے اس کا الزام رضہ کے سر پر ہی عائد کردیا، جو ایک ایسی بیوہ ہے جو شدید غربت کے باوجود اپنا وقار برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔

اس وقت جب رضیہ اپنی بیٹی کی گمشدگی پر رنجیدہ تھی، خالدہ کی سسرال نے مطالبہ کرنا شروع کردیا کہ وہ اپنی چھوٹی بیٹی شاہدہ کی شادی ان کے کسی بیٹے سے کردے۔

رضیہ نے یہ مطالبہ مسترد کردیا اور پھر تین افراد اس کے گھر کا دروازہ توڑ کر اندر آگئے اور اس کی چھوٹی بیٹی کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا، اس قتل کو جائز قرار دلانے کے لیے اس پر بدکاری کا الزام عائد کردیا گیا اور سزا سے بچ گئے۔

رضیہ نے روتے ہوئے بتایا"اللہ کے نام پر میں وزرائ، ججز اور پولیس سے درخواست کرتی ہوں کہ مجھے انصاف دلایا جائے"۔

حکومت کی جانب سے ان حملوں کے خلاف کریک ڈاﺅن اب تک زیادہ کامیاب نہیں ہوسکا اور غریب و دیہی علاقوں میں اس طرح کی ہلاکتیں کافی سنگین مسئلہ ہیں۔

غریب خاندان، غیرت کا تصور اور خاندان کی نیک نامی کا تحفظ اس طرح کے قتل کی مرکزی وجوہات ہیں، جبکہ پاکستانی قوانین میں متاثرہ خاندان کو قاتل کو خون بہا کے عوض معاف کرنے کی بھی اجازت ہے جس وہ رشتے دار جو خود اس طرح کی ہلاکتوں میں ملوث ہوتے ہیں، سزا سے بچ نکلتے ہیں۔

ایک خاتون پولیس افسر ارم اعوان سندھ میں ایک خصوصی فورس کی سربراہ ہیں جو 2008 سے اس سماجی برائی کے خلاف جدوجہد کررہی ہے" بیشتر مقدمات میں 'غیرت' محض بہانہ ہوتا ہے جبکہ اصل مقصد اپنی بہن یا بیٹی کو جائیداد میں حصہ نہ دینا ہوتا ہے"۔

جاگیردارانہ تعلق

صرف خواتین یا محبت کی شادی کرنے والے جوڑے ہی اس ظلم کا نشانہ نہیں بنتے بلکہ کچھ علاقے جیسے سندھ جہاں اب تک وڈیروں کا راج برقرار ہے، وہاں یہ رجھان بہت زیادہ عام ہے۔

ان مقامات میں 'غیرت' کے نام پر دیگر غیرمتعلقہ تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

سکھر شہر کے مغرب میں واقع ایک چھوٹے سے گاﺅں کے رہائشی محمد حسن مقامی وڈیرے کی جانب سے 'کارا' قرار دینے کے بعد سے چھپ کر گزار رہے ہیں۔

حسن نے اپنے چھوٹے سے گھر میں اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتایا"مجھے میری ملکیت میں موجود زمین پر ایک تنازع کے بعد کارا قرار دیا گیا، وہ لوگ میری زمین پر قبضہ کرنا چاہتے تھے"۔

وڈیرے نے اپنے آدمی حسن کو ڈرانے کے لیے بھیجے اور اسے کہا کہ وہ اپنی زمین اس کے حوالے کردے، یا آٹھ لاکھ روپے ادا کرکے تنازع کو حل کرے یا نتائج کا سامنا کرنے" میری زندگی خطرے میں ہے اور اب تک مجھ پر تین بار حملہ ہوچکا ہے"۔

حسن کا مزید کہنا تھا"میں ایک غریب شخص ہوں اور میں یہاں وہاں چھپ کر اپنی زندگی بچانے کی کوشش کررہا ہوں، وہ وڈیرا ایک بااثر شخص ہے جو میرے ساتھ کچھ بھی کرسکتا ہے"۔

خواتین اور غریب مردوں کو "غیرت" کے نام پر قتل کرنا جنوبی ایشیاءبھر میں صدیوں پرانا رواج ہے مگر برطانوی دور میں اس مشق پر قابو پالیا گیا تھا۔

سکھر ریجن کے پولیس سربراہ جاوید عالم اوڈھو کے مطابق"برطانوی عہد ذمہ داروں کو دھر لیا جاتا تھا اور کاروکاری والے پورے علاقے میں انہیں گھمایا جاتا تھا اور اس زمانے میں اس برائی پر قابو پالیا گیا تھا"۔

مگر اب قانون کی کمزور عملداری اور ناقص پراسیکیوشن کی بدولت اکثر بااثر افراد قاتلوں کو بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

ارم اعوام تسلیم کرتی ہیں کہ مشتبہ افراد سسٹم میں موجود خامیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سزا سے بچ نکلتے ہیں"کچھ روز قبل ہم نے ایک آپریشن کے دوران اپنی بیوی کو قتل کرنے والے شخص کو پکڑنے کے لیے دس سے زیادہ چھاپے مارے مگر جب ہم نے اسے معزز جج کے سامنے پیش کیا تو اسے ضمانت پر رہا کردیا گیا"۔

سالانہ ایک اندازے کے مطابق سندھ بھر میں غیر کے نام پر ساڑھے تین سو سے زائد افراد قتل کردیئے جاتے ہیں ایک سندھی اخبار عبرت کے بیورو چیف خالد بمبھن کے مطابق"اگر آپ سندھی اخبارات کا جائزہ لیں تو روزانہ اس طرح کے دو سے تین واقعات رپورٹ ہوتے ہیں اور یہ عام معمول بن چکا ہے"۔

انہوں نے کہا"بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ کسی روز اخبارات میں کاروکاری کا کوئی واقعہ رپورٹ نہ ہو"۔

دیہی علاقوں میں ان واقعات کی رپورٹنگ مقامی صحافیوں کے چیلنج ثابت ہوتا ہے کیونکہ انہیں مقامی وڈیرے اور ان کے حامیوں کی مخالفت کا سامنا ہوتا ہے جو انہیں قتل بھی کراسکتے ہیں۔

خالد بمبھن نے ایک واقعے کا حوالہ بھی دیا جس میں ایک صحافی کو اس طرح کے واقعے کی رپورٹنگ پر دھمکیاں ملیں جس میں ایک وڈیرے نے دو خواتین کو "کاری" قرار دے کر قتل کرادیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں