ہوبارا بسٹرڈز: قومی فخر کا غیرمعمولی قتل عام

اپ ڈیٹ 29 نومبر 2014
جنگلی حیات کے قوانین کے تحت پاکستان کے اندر ہوبارا بسٹرڈ کے شکار پر پابندی عائد ہے— فائل فوٹو
جنگلی حیات کے قوانین کے تحت پاکستان کے اندر ہوبارا بسٹرڈ کے شکار پر پابندی عائد ہے— فائل فوٹو

حال ہی میں یہ خبریں سامنے آئی ہیں کہ پاکستان نے ایک پھر محفوظ قرار دیے گئے ہوبارا بسٹرڈ کے موسم سرما کے سیزن میں شکار کے اجازت نامے جاری کردیے ہیں، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت پاکستانی عوام کے مطالبات پر کوئی توجہ نہیں دیتی۔

دہائیوں سے یہ مظلوم پرندہ پاکستان میں عرب مہمانوں کے ہاتھوں بے رحمی سے شکار ہورہا ہے۔ اس کے لذیذ گوشت کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ شہوت بڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

حال ہی میں سعودی عرب، ابوظہبی، دبئی، قطر اور بحرین کے حکومتی عہدیداروں اور شاہی شخصیات کو ان پرندوں کے شکار کی پیشکش کی گئی جو پاکستان کے راستے ہجرت کرتے ہوئے دیگر ممالک کا رخ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اس دفعہ تو حکومت نے پچھلی بار عربوں کی جانب سے کیے گئے شکار کے بعد عائد کردہ سو پرندوں کے شکار کا کوٹہ بھی ختم کردیا ہے۔

شکار کے کم از کم 29 نئے خصوصی پرمٹس جاری کرنا اس حقیقت سے متصادم ہے کہ پاکستان وقتاً فوقتاً ان پرندوں کے تحفظ پر اتفاق کرچکا ہے۔

آخری بار شکار کے سیزن میں سو پرندوں کے شکار کے کوٹے کے باوجود سعودی شہزادے فہد بن سلطان بن عبدالعزیز السعود اور ان کے ساتھیوں نے بلوچستان کے علاقے چاغی میں 21 روزہ شکاری مہم کے دوران 2100 پرندوں کو ہلاک کردیا تھا، اور اس مقصد کے لیے وہ اپنے عقابوں کو بھی لے کر آئے تھے۔


پڑھیے: سعودی شہزادہ اور 2100 تلور کا شکار


شکاری پارٹی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے شکار کے لیے مختص کیے گئے علاقوں سے باہر نکل کر بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھی تھیں۔

اگرچہ ہوبارا بسٹرڈ کی دنیا بھر میں تعداد کے حوالے سے اختلاف ہے، مگر آفیشل اعداد و شمار کے مطابق ان کی آبادی پچاس ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان ہے۔

اگرچہ ہمارے دوست سعودی شہزادے کو قانون کی اپنی شدید خلاف ورزیوں پر کسی سزا کا سامنا نہیں ہوسکتا، مگر میں ان سے یہ پوچھنا ضرور پسند کروں گا کہ وہ دنیا بھر میں اس پرندے، جسے قدرت کے تحفظ کے عالمی ادارے آئی یو سی این نے غیرمحفوظ پرندوں میں شامل کررکھا ہے، کی باقی بچ گئی آبادی کا تین فیصد مار کر کیسا محسوس کر رہے ہیں؟

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جس پرندے کو ہم پاکستان میں ہوبارا بسٹرڈ کے نام سے جانتے ہیں، اسے اب بین الاقوامی طور پر اس نام سے نہیں جانا جاتا۔ پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ یہ شمالی افریقہ میں پائے جانے حقیقی ہوبارا بسٹرڈ (Chlamydotis undulate) کی ذیلی شاخ ہے، تاہم پاکستان میں جو نسل خاتمے کے قریب پہنچ چکی ہے وہ میک کوئن بسٹرڈ (Chlamydotis macqueenii) ہے۔

ایک برطانوی کلکٹر اور فوجی افسر کے نام سے منسوب یہ ہمہ خور (omnivore) پرندہ بلوچستان کا صوبائی پرندہ ہے۔ بلوچستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ مضحکہ خیز لگتا ہے۔

عرب بے وقوف نہیں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان پرندوں کی نسل کو خطرہ لاحق ہے اور وہ انہیں اپنے ممالک میں بچانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ ان محفوظ قرار دیے گئے علاقوں میں شکار پر مکمل پابندی عائد ہوتی ہے۔


مزید پڑھیے: شکار کا موسم


لیکن اسی وقت ان ممالک کی شاہی شخصیات کو ہر سال پاکستان آ کر ان پرندوں کا بے حساب شکار کرنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں۔

اس نسل کے بار بار ہونے والے قتلِ عام کے بارے میں ایک چیز جو اور بھی زیادہ اشتعال انگیز ہے، وہ اپنے آئیڈیلز کو بیچنا ہے۔

تحفظ کی تمام تر مقامی اور بین الاقوامی کوششوں کے باوجود عرب افراد کو پیشکش کی جاتی ہے کہ وہ بلوچستان کے صوبائی پرندے پر اپنے شکار کا شوق پورا کرلیں۔ ایک ایسا ملک جسے اپنے ثقافتی ورثے پر فخر ہے، وہاں اب ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اپنی ان خوبیوں سے دستبردار ہوگیا ہے۔

دنیا کی چند قدیم ترین تہذیبوں میں کچھ ایک کوپاکستان میں موجود ہیں، مگر انہیں جدت اور 'ترقی' کے نام پر نظرانداز اور فراموش کردیا جاتا ہے۔

یا مثال کے طور پر "سندھ فیسٹیول" جو رواں سال کے شروع میں ہوا، میں ایک ایونٹ نہ صرف تیکینیکی طور پر اینٹی کیوٹیز ایکٹ 1975 کے تحت غیرقانونی تھا بلکہ کہا جاتا ہے کہ اس نے ممکنہ طور پر اس تاریخی مقام کو بھی خطرے میں ڈالا، جہاں اس کا انعقاد کیا گیا تھا۔

متعدد پاکستانی پہلا موقع ملتے ہی اپنے آبائی وطن سے فرار کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ اس ملک سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں جسے ان کے خیالات اور تصورات کی ضرورت ہے، تاکہ ان اندھیری گہرائیوں میں سے باہر آسکے جہاں یہ ابھی موجود ہے۔

متعدد ممالک اپنے ورثے اور جنگلی حیات کا پوری شدت سے دفاع کرتے ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اپنے ورثے اور جنگلی حیات اونچی بولی دینے والوں کو دے کر خوشی محسوس کرتا ہے۔

عرب ریاستیں طویل عرصے سے پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھ رہی ہیں جو قابل فروخت لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔

ہم عرب شیخوں کے پرتعیش طرز زندگی کے ساتھ ساتھ ان کے ممالک میں جنوبی ایشیائی تارکین وطن ورکرز بشمول پاکستانیوں کو درپیش خوفناک زندگی اور کام کرنے کے حالات کا تضاد بھی دیکھ سکتے ہیں۔


مزید پڑھیے: غلامی آج بھی جاری ہے


یہ ہمارے ملک کے غریب افراد کو اپنے گھروں اور خاندانوں کو چھوڑنے اور غلاموں کی طرح ان لوگوں کے پاس کام کرنے پر اکساتے ہیں، جنہیں ان کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ یہ پاکستانی روشن مستقبل اور پیسہ کما کر اپنے گھروالوں کو بھیجنے کے لیے وہاں جاتے ہیں مگر وہاں انہیں برے سلوک اور ٹوٹے ہوئے وعدوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔

خلیجی ریاستوں نے یہ واضح کردیا ہے کہ انہیں پاکستانیوں کی کتنی قدر ہے۔ اور پھر بھی ہم ان کے سامنے جھک کر خوشی محسوس کرتے ہیں؟

پاکستانی حکومت ان شہزادوں اور عرب عہدیداروں کی خوشی کے لیے انہیں اپنے ملکی فخر کو تباہ کرنے کی اجازت دے دیتی ہے۔

آخر حکومت کب ان وی آئی پیز کو پاکستان کے غریب افراد کے شکار کا لائسنس جاری کرے گی؟ وہ بھی ایک سختی سے نافذ کردہ کوٹے کے ساتھ۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

adrish ayaz Nov 30, 2014 09:39pm
اگر آپ کو نہیں معلوم کہ ہوبارہ بسٹرڈ کو اردو میں کیا کہتے ہیں تو میں بتا دیتا ہوں۔ اسے تلور کہتے ہیں۔ ڈان آپ نے ہیڈنگ میں یہ لفظ استعمال کیوں نہیں کیا۔