ایج ویئر روڈ: آزادی کے ساتھ چہل قدمی

اپ ڈیٹ 07 جنوری 2015
ایسا روڈ کہیں نہیں ملے گا— کریٹیو کامنز فوٹو
ایسا روڈ کہیں نہیں ملے گا— کریٹیو کامنز فوٹو

جب میں پہلی بار لندن آئی تو اس وقت میں جس امریکن لاء فرم میں کام کررہی تھی وہاں پر ایک اطالوی ساتھی نے مجھ سے کہا "وسطی لندن میں امریکی چیلسی میں رہتے ہیں، اطالوی نائٹس برج، فرنچ ساﺅتھ کنسنگٹن، آسٹریلین ارلز کورٹ اور عرب مے فیئر میں رہتے ہیں۔"

میں نے پوچھا" تو پھر انگلش کہاں رہتے ہیں؟

میرے ساتھی نے جواب دیا"زون تھری اور اس سے آگے"، اس کا اشارہ لندن کے زیرزمین ٹیوب کے نقشے کی جانب تھا جہاں زون ون میں موجود اسٹاپس لندن کے وسط کے مقامات ہیں، جس کے بعد زون ٹو اور اسی طرح یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہے۔

یقیناً وسطی لندن کے حوالے سے اس کا بیان کچھ مبالغہ آمیز تھا مگر اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ لندن کے شہری مرکز کی آبادی میں سب سے بڑی تعداد نئے آنے والے تارکین وطن کی ہے۔

رنگا رنگ ثقافتوں کی اس کثرت میں ایک سڑک ایسی بھی ہے، جو دوسری تمام سے بہت مختلف نظر آتی ہے۔

ایج ویئر روڈ لاتعداد لبنانی ریسٹورنٹس کا گھر ہے جہاں ڈونر کباب کے آﺅٹ لیٹس، شوارما اسٹال اور حلال قصائیوں کی دکانیں ہر کونے میں نظر آتی ہیں۔ یہ وسطی لندن میں مسلم آبادی کا اہم مرکز ہے جو 2011 کی مردم شماری کے مطابق مسلم 12.4 فیصد ہے۔

ایج ویئر روڈ ویسٹ منسٹر کے قصبے میں واقع ہے جو لندن کے 33 قصبوں میں سے واحد ہے جہاں عربی انگریزی سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ اس گلی کے ایک سے دوسرے کونے تک چہل قدمی کے دوران آپ کرد، فارسی، اردو، پشتو اور پنجابی بھی سن سکتے ہیں۔

تارکینِ وطن کا آج کے گلوبل شہروں کے مخصوص علاقوں کو اپنا مسکن بنانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں۔ تارکین وطن برادریاں خاص علاقوں میں زیادہ نظر آتی ہیں اور وہاں اپنی ثقافت اور مختلف پکوانوں کا اضافہ کردیتی ہیں، مگر ایج ویئر روڈ کے حوالے سے جو چیز منفرد ہے وہ اس کا لندن کے دل کے بہت قریب، یا تقریباً وہیں ہونا ہے۔ یہ لندن کے مشہور ماربل آرک اور آکسفورڈ اسٹریٹ کو ایک دوسرے سے الگ رکھتی ہے اور بکنگھم پیلس سے کچھ فاصلے پر ہی واقع ہے۔

فوٹو بشکریہ 5pillarz.com
فوٹو بشکریہ 5pillarz.com

اگر اس کا کسی سے موازنہ کیا جاسکتا ہے تو وہ سان فرانسسکو کا چائنا ٹاﺅن ہوسکتا ہے جو اسی طرح کا نمایاں مقام ہے، مگر مغرب میں ایسے کثیرالثقافتی علاقے اکثر اوقات شہروں کے وسطی یا صدر علاقے سے دور ہوتے ہیں۔

یقیناً یہ مقامی آبادی کے تحمل کی مثال ہے جنھوں نے باہر سے آنے والوں کو اپنی ثقافت، اور مہنگی پراپرٹی پر غلبے کی اجازت دی، کیونکہ ایج ویئر روڈ برطانیہ کو صرف طرح طرح کے کھانوں سے آشنا نہیں کروا رہا، بلکہ کچھ اسٹورز میں قرآن کی تلاوت بھی چل رہی ہوتی ہے، جبکہ یومِ عاشور پر نکلنے والے جلوسوں کی وجہ سے ٹریفک کا رخ تبدیل کردیا جاتا ہے۔

مگر یہ لبرل جمہوریت کے ساتھ ساتھ آزاد مارکیٹ کی معیشت کا بھی کمال ہے۔

ایج ویئر روڈ کی بناوٹ اور وسطی لندن پر اس کے اثرات بین الاقوامی افراد کے بغیر ممکن نہیں تھے جنھوں نے اس اہم مقام پر متعدد جائیدادیں خریدیں اور اسے اپنی مرضی کے ثقافتی رنگ میں رنگ دیا۔ اسی طرح یہ ان تارکین وطن ورکرز کے بغیر ممکن نہیں تھا جو سودا سلف اور گوشت کی دکانوں، اور ریسٹورنٹس میں پوری جان سے محنت کرکے اس بین الاقوامی تجربے کو ممکن بنا رہے ہیں۔

مگر ایسا بھی نہیں کہا جاسکتا کہ مقامی افراد کو اس بات سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

ایک بار مجھے بتایا گیا تھا کہ "ڈاﺅن ٹاﺅن دبئی" (ایج ویئر روڈ کو کبھی کبھار اس نام سے بھی پکارا جاتا ہے) سے ملحق جائیدادیں خاص قسم کے خریداروں کو ہی متوجہ کرسکتی ہیں، مثلاً اونچے طبقے کے گوروں یا ان جیسا بننے کی خواہش رکھنے والے دیسیوں کو، جو کبھی اس علاقے میں رہنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔

کئی بار یہاں سیاسی رنگ کی مذہبی سرگرمیوں کی وجہ سے ردِ عمل بھی سامنے آتا ہے۔ رمضان کے دوران پاکستانی ریسٹورنٹس کی جانب سے افطار شربت کی بہت زیادہ مہم چلائی جاتی ہے جبکہ کچھ عرب "غزہ آزاد کرو" کے پلے کارڈز لے کر کھڑے نظر آئے، تو مقامی افراد کا ایک گروپ عربی زبان میں مفت بائبل تقسیم کرنے لگا۔ تاہم اظہار رائے کی یہ آزادی اب تک کسی بڑے تنازع کا سبب نہیں بنی ہے۔

ایج ویئر روڈ اپنے تمام رنگوں کے ساتھ سیاحوں اور مقامی افراد کے لیے دلچسپی کا باعث بنتا ہے خاص طور پر گرمیوں کی راتوں میں جب یہ گلی حقیقی معنوں میں زندہ نظر آتی ہے۔

پیرس، روم، میڈرڈ، نیویارک یا لاس اینجلس کے برعکس لندن اپنے مصروف کلبوں اور لیسسٹر اسکوائر کے بدمست مہ نوشوں کے باوجود رات کو کافی جلد بند ہوجاتا ہے، ماسوائے ایج ویئر روڈ کے، جہاں فارمیسیاں بھی رات گئے تک کھلی رہتی ہیں۔

فوٹو بشکریہ lowcashtravel.com
فوٹو بشکریہ lowcashtravel.com

لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ایج ویئر روڈ کی اکثریتی مسلم آبادی پارٹی کرنے کو بھی اتنا ہی پسند کرتی ہے جتنا نماز پڑھنے کو۔

اور اسی لیے لوگ رات کے کھانے کے بعد چہل قدمی کے لیے ایج ویئر روڈ پر نکلنا ان لوگوں کے لیے اچھی تفریح کا باعث ہوتا ہے جو گرم علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں، اور سورج غروب ہونے کے بعد زیادہ توانائی محسوس کرتے ہیں۔

کسی سائیکل رکشا سے گونجنے والی عربی موسیقی، مکمل باحجاب مسافر جو ڈسکو کی دھنوں پر ناچتی نظر آتی ہیں، سڑک کے کنارے موجود کیفے، لوگوں سے بھرے شیشہ بار، اور اس سب میں دیر رات تک فیملیز کا شامل ہونا اس بات کی خوشگوار نشاندہی ہے کہ یہاں پر سب ہی خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔

لیکن مصر، نائیجریا، پاکستان، سعودی عرب یا الجیریا کے سیاحوں کو ایج ویئر روڈ کی جو چیزیں پسند آتی ہیں، ان میں ثقافتی سکون اور اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ ساتھ وہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی شامل ہیں، جو مختلف وجوہات کی بنا پر ان کے اپنے ممالک میں ناممکن بن چکی ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں