سراج الحق، جماعتِ اسلامی، اور دورِ جدید کے تقاضے

اپ ڈیٹ 06 دسمبر 2014
جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق 21 نومبر 2014 کو لاہور میں پارٹی کنونشن کے دوران خطاب کر رہے ہیں — اے ایف پی
جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق 21 نومبر 2014 کو لاہور میں پارٹی کنونشن کے دوران خطاب کر رہے ہیں — اے ایف پی

سراج الحق مختلف ہیں۔ یا کم از کم ایسا لگتا تو ضرور ہے۔

انہوں نے سابقہ امیرِ جماعتِ اسلامی منور حسن کے برعکس واقعی اپنے پتے ہوشیاری سے کھیلے ہیں۔ منور حسن اب بھی اشتعال انگیز، بے تکے، اور ناقابلِ فہم بیانات دے کر، اور پھر ان پر قائم رہ کر جماعت کے لیے مشکلات کھڑی کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں جماعت اسلامی کے تین روزہ سالانہ اجتماع میں جہاں منور حسن ایک بار پھر لائن کراس کرتے نظر آئے، تو وہیں سراج الحق نے اپنے الفاظ احتیاط سے چنے۔

دھرنوں کے ہلچل بھرے وقت میں سراج الحق نے جو کردار ادا کیا ہے، اس کی بنا پر ان سے اچھی امیدیں رکھنا قابلِ فہم ہے۔ لیکن جہاں مثبت کردار کی وجہ سے پارٹی تعریف کی مستحق ہے، وہیں جماعت کے فیصلہ سازوں کو اب سر جوڑ کر ان جگہوں پر کام کرنا چاہیے، جہاں پارٹی بری طرح ناکام ہورہی ہے۔

منصورہ میں موجود پالیسی سازوں کے لیے میرا مشورہ ہے کہ

کھیل میں جیتنا چاہتے ہیں تو اپنا امیج بہتر بنائیں

بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی شخصیات و جماعتیں اپنا عوامی امیج تبدیل کرنا پسند کرتی ہیں، اور اس کی ایک صاف وجہ یہ ہے کہ جو چیز 1970 میں مشہور اور ہردلعزیز تھی، شاید وہ آج کی ضرورت نہ ہو۔

ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں پیپلز پارٹی نے جو اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا تھا، وہ اس لیے نہیں تھا کہ پارٹی اسے نافذ کرنا چاہتی تھی۔ بلکہ پارٹی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ آخر اسلامی سوشلزم ہے کیا۔ لیکن یہ اس لیے کیا گیا کیونکہ یہ سننے میں اچھا لگتا تھا، اور اس نے عوام میں تحرک پیدا کیا۔ لیکن اگر یہی نعرہ آج لگایا جائے، تو سیاسی فوائد حاصل کرنے میں کامیابی نہیں ہوگی، کیونکہ دنیا اب آگے بڑھ چکی ہے۔


دیکھیے: ' جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نظریاتی طور پر زیادہ قریب ہیں'


کسی بھی سیاسی جماعت کا عوامی امیج کا وقت کی کسی فوری ضرورت، کسی عوامی مطالبے کے ساتھ ہم آہنگ ہونا نہایت ضروری ہے۔

اور اگر جماعتِ اسلامی کی بات کی جائے، تو دماغ میں پہلا امیج کیا آتا ہے؟ میرے دماغ میں تو عمررسیدہ اور انتہائی قدامت پرست اشخاص کا تصور ابھرتا ہے، جو اپنی ہی دنیا میں رہتے ہیں، اور بار بار ایک ہی بات دہرانا پسند کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک تمام مقامی اور عالمی، انفرادی اور اجتماعی، سماجی اور سیاسی مسائل کا حل صرف اور صرف ان کی مذہبی تشریح سے کیا جاسکتا ہے۔

ہاں جماعتِ اسلامی پر یہ لیبل موجود ہے، اور اس کی ذمہ داری خود جماعتِ اسلامی پر ہی ہے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ یہ نظریہ کارگر تھا یا نہیں، لیکن اگر حال کی بات کی جائے، تو ایک وسیع پاکستانی معاشرے میں اس امیج کی جگہ بہت ہی کم ہے۔

جماعت کی مقبولیت کے گرنے کا سبب یہ نہیں کہ انہیں انتہاپسند سمجھا جاتا ہے، بلکہ اس کی وجہ پارٹی کی عوام اور ان کے بنیادی مسائل سے لاتعلقی ہے۔

مثال کے طور پر ترکی کی حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کو دیکھیے۔ وہ اس لیے ووٹ جیتنے میں کامیاب رہتے ہیں، کیونکہ وہ ترکی میں عوامی سیاست کر رہے ہیں۔ انہوں نے سیاست کو سب کے لیے کھول دیا ہے۔ واضح الفاظ میں کہا جائے تو ان کی سیاست عوام سے تعلق بنائے رکھتی ہے۔

جماعت کو بھی اس بات کو سمجھنا، اور خود کو جدید خطوط پر استوار کرنا چاہیے۔ ایسا سخت گیر نظام جس میں نوجوانوں کے فیصلہ ساز عہدوں پر پہنچنے کے مواقع کم ہیں، اس کو تبدیل ہو کر نوجوانوں پر مشتمل سسٹم بننا چاہیے۔

پرکشش نکات کی کمی

تمام مرکزی جماعتوں کے پاس کوئی نہ کوئی ایسا پرکشش نکتہ، یا یونیک سیلنگ پوائنٹ ہونا ضروری ہے، جس کی بنا پر وہ دوسری جماعتوں سے مختلف اور بہتر نظر آئیں۔

آئیں تمام جماعتوں پر نظر ڈالتے ہیں۔

سب سے پہلے پاکستان مسلم لیگ ن، جو موٹروے، میٹروبس، اور لیپ ٹاپس کے ساتھ موجود ہے۔ اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی ہے، جو ترقیاتی کاموں کے بجائے صرف بھٹو کے کاموں پر کھڑی ہے۔ صحیح ہو یا غلط، لیکن بھٹو کا نام اب بھی بِکتا ہے۔ اس کے بعد ہمارے پاس عمران خان کی پاکستان تحریکِ انصاف ہے، جو خود کو 'نیا پاکستان'، یوتھ، شوکت خانم، 1992 کے ورلڈ کپ، اور ان دوسری باتوں کی وجہ سے نمایاں رکھے ہوئے ہے، جو پچھلے کچھ مہینوں سے سن سن کر ہمیں یاد ہوگئی ہیں۔


مزید پڑھیے: جماعتِ اسلامی نے منور حسن کا عہدہ کیوں ختم کیا؟


جماعتِ اسلامی کا یونیک سیلنگ پوائنٹ کیا ہے؟

مجھے تو کوئی نظر نہیں آتا۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے وزیرِ اعظم کے تحت ایک اسلامی انقلاب آئے گا، تو یہ ان کا سیاسی مقصد تو ہوسکتا ہے، لیکن یونیک سیلنگ پوائنٹ نہیں ہے۔ جس انتخابی جیت کی وہ توقع کیے بیٹھے ہیں، وہ تب تک حاصل نہیں کی جاسکتی، جب تک ان کے پاس عوام کو دینے کے لیے ایک مضبوط اور پرکشش پیشکش نہ ہو۔

نظریات کا دور جاچکا ہے، اس بات کو قبول کریں

ایک وقت تھا جب پاکستان کے سیاسی میدان میں نظریات کی جنگیں لڑی جاتی تھیں۔ یہاں پر سوویت یونین اور چین سے متاثر بایاں بازو تھا، جس کے مقابلے میں مذہبی دایاں بازو تھا۔ سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوچکا ہے۔

آج ہر جگہ جدید لبرل ازم کا دور ہے، اور جیسے ہی نظریات سے متاثر سیاست سیاسی میدان میں آتی ہے، تو یہ زمینی حقائق سے پرے ہٹ جاتی ہے۔ موجودہ چیلنجز اور مسائل کو جماعت کے پسندیدہ نظریات کے بجائے مقامی اور عوامی چینل کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔

آپ قدامت پسند ہیں، ٹھیک ہے۔ آپ اسلام پسند ہیں، اچھی بات ہے۔ لیکن اگر آپ نے اسے اپنی سیاست کی بنیاد بنایا، تو آپ کی سیاست یہیں رہ جائے گی۔ یہ نظریہ سیاسی ترقی کے لیے مددگار ثابت نہیں سکتا۔

دنیا اب آگے بڑھ چکی ہے، اور لگتا ہے کہ جماعتِ اسلامی اب تک ماضی میں ہے، اور آگے نہیں بڑھنا چاہتی۔

پاکستانی سیاست اب مکمل طور پر عوامیت پسندی کے گرد گھومتی ہے، اور سراج الحق یہ بات واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔

اور حالیہ اجتماع میں انہوں نے تمام صحیح الفاظ کا انتخاب کیا: وی آئی پی کلچر، لڑکیوں کی تعلیم، اقلیتوں کے حقوق، احتساب، وغیرہ وغیرہ۔ ہر وہ قدم جو روایتی نظریات سے عوامیت پسندی کی جانب بڑھایا جائے گا، جماعت کو ایک انتخابی طور پر کامیاب جماعت بنانے میں مدد کرے گا۔

سراج الحق تو مختلف ہیں۔ لیکن کیا وہ جماعتِ اسلامی کو بھی مختلف کرسکتے ہیں؟ یہی اصل سوال ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں