مسئلہ اقرباپروری کا ہے

08 دسمبر 2014
ہر حکومت نے اداروں کو اپنے پسندیدہ لوگوں کو نوازنے کے لیے استعمال کیا ہے تاکہ وقت پڑنے پر سیاسی فوائد حاصل کیے جاسکیں۔
ہر حکومت نے اداروں کو اپنے پسندیدہ لوگوں کو نوازنے کے لیے استعمال کیا ہے تاکہ وقت پڑنے پر سیاسی فوائد حاصل کیے جاسکیں۔

پی پی پی اور پی ٹی آئی کو ایسے بہت سارے لوگ مل سکتے ہیں، جو ان ہی کی طرح یہ خدشہ رکھتے ہوں کہ اعلیٰ عہدوں پر تعیناتیوں کے متعلق سپریم کورٹ کا تازہ فیصلہ انتظامیہ کے لیے اقرباپروری کے نئے دروازے کھول سکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اقربا پروری ایسی لعنت ہے جس نے آزادی سے لے کر اب تک پبلک ایڈمنسٹریشن کو کمزور کیے رکھا ہوا ہے۔

تازہ ترین فیصلہ اسی مسئلے پر ایک پچھلے بینچ کی جانب سے 17 ماہ قبل دیے گئے فیصلے کو ریورس کرتا ہے، اور جلد یا بدیر ایسا ہونا ہی تھا۔ 2013 کا سپریم کورٹ بینچ جس کی سربراہی اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کر رہے تھے، کے سامنے جو مسئلہ موجود تھا، وہ انتظامی امور میں نگران حکومت کے اختیارات کے بارے میں تھا، جسے شفاف انتخابات کرانے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔

کورٹ نے نگران حکومت کی جانب سے کی گئی تمام تعیناتیوں اور تبادلوں کو غیرقانونی قرار دیا۔ اور یہی نہیں، بلکہ اس نے نئی حکومت کو ایک ایسا کمیشن قائم کرنے کے لیے احکامات جاری کیے، جو کہ تمام خودمختار، نیم مختار اداروں، ریگولیٹری باڈیز، اور پبلک سیکٹر کارپوریشنز کے اعلیٰ عہدوں پر تعیناتیوں کو سنبھالے۔

مجوزہ کمیشن کے اختیارات وسیع ہونے تھے۔ اس نے اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ کوئی بھی پبلک تقرری اس کی سفارش کے بغیر نہ ہو۔ اس کی ذمہ داریوں میں 'پیشہ ورانہ ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کو یقینی بنانا، اپنے دائرہ کار میں تعیناتی کے عمل کا معمول کے طور پر آڈٹ کرانا، تقرری کے مرحلے کے بارے میں سالانہ تفصیلی رپورٹ جاری کرنا، ہینڈل کی گئی شکایات، اور سال بھر میں سامنے آنے والے اہم مسائل کو ہائی لائٹ کرنا' شامل تھے۔ یہ رپورٹ پارلیمنٹ کے سامنے ہر سال 31 مارچ تک پیش کی جانی تھی۔

لیکن سپریم کورٹ کے تازہ حکم کے مطابق تعیناتیوں کے معاملے میں انتظامیہ کے اختیارات پر لگائی جانے والی پابندی آئین کے آرٹیکل 90 سے متصادم ہے۔

ایسا نہیں ہوسکتا، کہ 2013 میں فیصلہ کرتے ہوئے معاملے کا یہ رخ سپریم کورٹ کی نظروں سے اوجھل رہا ہو۔ لیکن لگتا ہے کہ ان جوش و جذبے سے بھرپور دنوں میں افتخار چوہدری نے اسے نظرانداز کردیا ہو، جس کی وجہ سے کورٹ نے سروس ریفارمز کمیشن کا کام سنبھال لیا۔ کورٹ نے اس حقیقت کو بھی نظرانداز کردیا کہ ایک ایسا ملک جہاں انتظامیہ نے پبلک سروس کمیشن کو بائی پاس کرنے کی عادت ڈال لی ہے، وہاں خودمختار اداروں کے لیے ایک اور کمیشن کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔ نئی حکومت نے 2013 میں لگائی جانے والی اس پابندی سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی کوشش کرنے میں ذرا بھی وقت ضائع نہیں کیا۔

حکومت کے پاس بھرتیوں، تقرریوں، تبادلوں، اور معطلیوں کے لیے ایک بہتر طور پر تیار کردہ ضابطہ اخلاق موجود ہے۔ اس کے علاوہ برطانیہ سے ورثے میں حاصل کردہ پبلک سروس کمیشن کے اداروں کو بھی ختم نہیں کیا گیا ہے، بھلے ہی وہ ریٹائرڈ بیوروکریٹس کے لیے بحالی مرکز کی طرح لگتے ہیں۔ یہ کنفیوژن خودمختار کارپوریشنز اور ریگولیٹری اتھارٹیز میں زیادہ ہے۔

کہنے کو تو خودمختار اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر بھرتیاں انہی ضوابط کے تحت کی جاتی ہیں، جو ان قوانین میں موجود ہیں جس کے تحت یہ ادارے قائم کیے گئے، لیکن خودمختار پبلک اداروں کے تصور کا اس ملک میں بہت بری طرح استحصال کیا گیا ہے۔ اس طرح کے ادارے بنانے کا مقصد یہ تھا کہ منتخب فیلڈز کے ماہرین کو بیوروکریٹک اثرورسوخ سے آزاد کر کے ترقی کو یقینی بنایا جاسکے۔

لیکن ہر نئی حکومت نے ان اداروں کو اپنے پسندیدہ لوگوں کو نوازنے کے لیے استعمال کیا ہے تاکہ وقت پڑنے پر سیاسی فوائد حاصل کیے جاسکیں۔ کئی کیسز میں خودمختار اداروں کے سربراہان اپنے کام سے زیادہ اپنی ذاتی ترقی میں ہی دلچسپی رکھے نظر آئے۔ اور ان میں سے کئی 'قابل' افسران نے تو اپنے اداروں کو سلطنتوں میں ہی تبدیل کرڈالا۔

حکومت کے رویے میں اس حوالے سے تبدیلی نظر نہیں آتی اس لیے یہ خوف موجود ہے کہ اقرباپروری کا کلچر چلتا رہے گا، اور یہ خوف رکھنے والے لوگ حق بجانب بھی ہیں۔ نئے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی پر ہونے والی کھینچاتانی اسی بات کا ثبوت ہے۔

ایک مسئلہ یہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کو پارلیمانی اتفاقِ رائے پر چھوڑ دینے سے معاملہ ان گروپوں اور افراد کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے، جو سیاسی پختگی سے محروم ہیں، اور بے لوث ہو کر کام کرنے کی خوبی نہیں رکھتے۔ ایسا ممکن ہے کہ ایک قابل امیدوار کو صرف ذاتی بدلے یا خواہشات کی وجہ سے قبول نہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ شارٹ لسٹ کیے گئے ممکنہ ناموں پر اس قدر گھناؤنے الزامات لگائے گئے ہیں، کہ ایک سے زیادہ معززین نے اس عہدے کے لیے نامزدگی منظور کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

معاملہ اصل میں یہ ہے کہ اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کو ایسے شخص کی تلاش ہے، جو یا تو ان کی جماعت کے لیے اچھا ہو، یا کم از کم دشمنی نہ رکھتا ہو۔

یہ وہ بات ہے جو خودمختار اداروں کے سربراہان، اور سینیئر بیوروکریٹس کے عہدوں، خاص طور پر پولیس فورس کے عہدوں پر تقرری کرتے وقت انتظامیہ کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اگر ڈھیروں عہدے مہینوں سے خالی پڑے ہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عہدے کے لیے قابل اور اہل شخص موجود نہیں، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ منتخب کرنے والوں کی پسند کے وہ اشخاص موجود نہیں، جن کو میرٹ پر پورا اترنے والوں پر ترجیح دی جاسکے۔

قائد اعظم نے اگست 1947 میں اپنے اعلان میں منظورنظری ختم کرنے پر زور دیا تھا، اس اعلان کو نظرانداز کرنے کی پاکستان نے کیا قیمت چکائی ہے، اس کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے؟ موروثی سیاست، بیوروکریسی کے اندرونی اتحاد، اور اقرباپروری اسی شجر کے پھل ہیں۔ ایسی انتظامیہ جو اقرباپروری پر زور دیتی ہے اور میرٹ کا گلا دباتی ہے، وہ موثر کارکردگی، انصاف، اور احتساب کے کم سے کم مطلوبہ معیارات بھی قائم نہیں رکھ سکتی۔ اور وہ تمام افراد جن کو میرٹ پر ہونے کے باجود حق نہیں دیا جاتا، ان کی فرسٹریشن بھی اس وجہ سے بڑھتی ہے۔

جواب سسٹم کو مضبوط کرنے، خصوصی اختیارات کو ختم کرنے، ایڈ ہاک ازم کو ختم کرنے، محکموں کے اندر چیک اور بیلنس کا نظام بنانے، اور احتساب کے آزادانہ نظام بنانے میں پوشیدہ ہے۔ یہی وہ جگہیں ہیں جہاں پر تخلیقی آئیڈیاز کو اگر اخلاص کے ساتھ نافذ کیا جائے، تو بہترین نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔

اس کیس نے سیاستدانوں کو ایک اچھا سبق دیا ہے، اور وہ یہ کہ اپنے مخالفین کے لیے گڑھا نہ کھودیں ورنہ کہیں آپ خود اس میں نہ گر جائیں۔ مسلم لیگ ن کے ایک وفادار نے ہی نگران حکومت کو حاصل فری ہینڈ کو چیلنج کیا تھا، اور وہی پارٹی اب وہ آزادی چاہتی ہے، جسے اس نے دوسرے کے ہاتھ میں دیکھ کر چیلنج کیا تھا۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 20 نومبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں