سعودی عرب میں ذلّت اور موت

اپ ڈیٹ 20 دسمبر 2014
میرے انکل کی ایک دہائی پرانی کہانی کا عکس میرے برادر نسبتی پر گزرنے والے واقعے میں نظر آتا ہے— اے ایف پی فوٹو
میرے انکل کی ایک دہائی پرانی کہانی کا عکس میرے برادر نسبتی پر گزرنے والے واقعے میں نظر آتا ہے— اے ایف پی فوٹو

کئی برس پہلے سعودی دارالحکومت ریاض کی بلدیہ میں ملازم میرے ایک انکل، جو اب دنیا میں نہیں رہے، سالانہ تعطیلات پر وطن واپس آئے تو انہوں نے اس پاک سرزمین کے بارے میں متعدد قصے سنائے جن میں سے ایک کہانی ایک دہائی بعد بھی میرے ذہن میں تازہ ہے۔

میرے انکل نے مجھے بتایا کہ جب وہ ریاض میں فرائض سرانجام دے رہے تھے تو ان کی دوستی دفتر میں کام کرنے والے ایک سعودی شخص سے ہوگئی، جس نے میرے انکل کو کئی بار اپنے گھر مدعو بھی کیا مگر وہ کبھی بھی وہاں جا نہیں سکے۔

ایک دن وہ سعودی شخص دفتر نہیں آیا جس پر میرے انکل نے دیگر افراد سے اس کی وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ ان کے دوست کی والدہ کا گزشتہ شب انتقال ہوگیا تھا اور اسی وجہ سے اس نے ایک دن کی چھٹی لی ہے۔

ہماری ثقافت میں کسی فرد کی والدہ کا انتقال ایک سانحہ سمجھا جاتا ہے جس میں تعزیت کو ضروری سمجھا جاتا ہے تو یہی وجہ ہے کہ میرے انکل نے اپنے سعودی دوست کے گھر جاکر اس سے تعزیت کا فیصلہ کیا۔

جب وہ وہاں پہنچے تو گھر کے حالات دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ وہاں کسی کا انتقال ہوگیا ہے، جب انہوں نے داخلی دروازے کی گھنٹی بجائی تو ایک بچہ باہر آیا ان کا نام پوچھا اور پھر اپنے والد (میرے انکل کے دوست) کو بلا کر لے آیا، جو اپنے دفتر کے دوست کو دیکھ کر خوش آمدید کے نعرے "اہلاً وسہلاً مرحبا" لگانے لگا اور انہیں نشست گاہ میں لے گیا۔

نشست گاہ میں میرے انکل کو اس وقت مزید حیرت ہوئی جب وہاں انہوں نے ٹیلیویژن کو چلتے دیکھا جس پر ایک ہندوستانی فلم ڈی وی ڈی پر لگی ہوئی تھی، گھر میں سوگ کا کوئی ماحول نہیں جیسا میرے انکل توقع کر رہے تھے اور انہیں لگ رہا تھا کہ شاید کسی نے ان کے ساتھ مذاق کیا ہے۔

میرے انکل کی روایتی عرب طریقے سے تواضع کے بعد ان کے دوست نے آمد کی وجہ پوچھی، جس پر انہیں سمجھ نہیں آیا کہ جواب میں کیا کہیں مگر آخرکار میرے انکل نے کہا کہ انہیں پتا چلا کہ اس سعودی شخص کی والدہ کا گزشتہ شب انتقال ہوگیا تھا اور وہ یہاں ہمدردی کے اظہار کے لیے آئے تھے۔

سعودی شخص کے جواب نے انہیں مزید حیران کردیا "ہاں میری والدہ کا گزشتہ شب انتقال ہوگیا تھا اور میں نے فوری طور پر بلدیہ کے لوگوں کو فون بھی کیا تھا مگر وہ صبح میت کو دیر سے لینے آئے جس کی وجہ سے مجھے آج دفتر سے چھٹی لینے پر مجبور ہونا پڑا، اب انہیں اس کی تدفین کرنا ہوگی"۔


مجھے یہ کہانی اس لیے ابھی یاد آئی کیونکہ حال ہی میں میرے خاندان کو ایک سانحے کا سامنا ہوا۔

میری اہلیہ کے بھائی کئی برسوں سے الخوبر (سعودی عرب) میں ایک غیرملکی کمپنی کے لیے کام کررہے ہیں، رواں برس عیدالاضحیٰ کے دن جب وہ اپنی رہائش گاہ پر نماز مغرب ادا کر رہے تھے انہیں کارڈک اسٹروک نے نشانہ بنایا اور جائے نماز پر گر گئے، ان کی اہلیہ نے فوری طور پر اسی اپارٹمنٹ بلاک میں رہائش پذیر اپنے شوہر کے ساتھی کو فون کیا۔

مریض کی بحالی کی کوشش میں ناکامی کے بعد اس دفتری ساتھی نے کمپنی کے پے رول میں موجود وہاں سے قریب ہی رہنے والے ایک سعودی ڈاکٹر کو گھر بلایا۔

ڈاکٹر نے وہاں آکر مریض کا معائنہ کیا (جو تاحال سانس لے رہا تھا)، عربی میں کچھ بڑبڑایا اور چلا گیا، میرے برادر نسبتی کے ساتھی نے اسی اثناء میں ایمرجنسی نمبر پر فون کرکے ایک ایمبولینس بھیجنے کی درخواست کی، جب انہوں نے ایک سائرن کی آواز سنی تو انہیں لگا کہ ایمبولینس پہنچ گئی ہے مگر وہ ایک پولیس گشتی گاڑی نکلی۔

درحقیقت پہلے آنے والے ڈاکٹر نے پولیس کو فون کرکے یہ اطلاع دی تھی جس نے ایک گشتی گاڑی اپارٹمنٹ کی عمارت کے سامنے پہنچا دی تھی۔

پولیس نے جو کام سب سے پہلے کیا وہ یہ تھا کہ میرے برادر نسبتی کے ساتھی کو اپارٹمنٹ سے نکال باہر کیا کیونکہ وہ ایک 'نامحرم' تھا اور اسے میرے برادر نسبتی کی بیوی کے ساتھ ایک اپارٹمنٹ میں رہنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی تھی۔

ایک گھنٹہ گزر گیا اور ایمبولینس نہیں پہنچی جس کے بعد دفتری ساتھی نے میرے برادر نسبتی کو اپنی گاڑی میں ہسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا مگر پولیس نے اس کی بھی اجازت نہیں دی اور کہا کہ اسے ایمبولینس کا انتظار کرنا ہوگا۔

ایک کے بعد ایک کال کے جواب میں ہسپتال کی جانب سے یہی جواب ملتا رہا کہ ڈرائیور اور طبی معاون کو طلب کیا گیا ہے، جو لگتا تھا کہ اپنے گھروں میں آرام کررہے ہیں اور کہا جارہا تھا کہ جیسے ہی یہ دونوں واپس ڈیوٹی پر پہنچیں گے ایمبولینس پہنچ جائے گی۔

کراچی میں ہم سب منتظر بیٹھے تھے اور خاندان کے سب افراد میری ساس کے گھر جمع ہوگئے تھے اور وہ جگہ دعاﺅں اور التجاﺅں کے ساتھ ماں، بہنوں اور بھانجیوں کے ماتم سے گونج رہی تھی جو مریض کی صحت یابی کے لیے دعائیں کر رہی تھی، لگ بھگ ہر گزرتے منٹ کے ساتھ ہم کسی پیشرفت کے بارے میں معلوم کرنے کی کوشش کررہے تھے۔

کچھ وقت مزید انتظار کرنے کے بعد میرا برادر نسبتی کا ساتھی گاڑی پر ہسپتال پہنچا اور جاننا چاہا کہ اب تک ایمبولینس کیوں نہیں بھیجی گئی جس پر وہاں موجود فرد نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا کہ ڈرائیور اور طبی معاون اب تک نہیں پہنچے ہیں۔

اس موقع پر میرے برادر نسبتی کے ساتھی نے کچھ ریال اس شخص کے ہاتھ پر رکھے اور آخرکار وہ حرکت میں آگیا۔

اس نے فون اٹھایا، ڈرائیور اور طبی معاون کو جھاڑ پلائی اور انہیں جلد از جلد پہنچنے کی ہدایت کی، چند منٹ بعد وہ دونوں وہاں کھڑے تھے اور ان کی ہتھیلیاں گریس سے لتھڑی ہوئی تھیں اور بالآخر ایمبولینس نکل گئی۔

اس وقت تک میرے برادر نسبتی کو فالج کا شکار ہوئے لگ بھگ تین گھنٹے ہوچکے تھے، جس وقت انہیں ایمبولینس میں منتقل کیا گیا وہ بمشکل سانس لے پا رہے تھے حالانکہ طبی معاون نے ہسپتال کے راستے میں ہنگامی طبی امداد بھی فراہم کی تاہم میرے برادر نسبتی جانبر نہ ہوسکے۔

ہمیں کراچی میں یہ خبر ملی تو کہرام مچ گیا۔

اگر فالج کے فوری بعد میرے برادر نسبتی کو طبی امداد مل جاتی تو وہ آج زندہ ہوتے اور اپنی بیٹی کے ساتھ کھیل رہے ہوتے جس سے وہ بہت محبت کرتے تھے اور وہ بھی اپنے والد کی دیوانی تھی اسی لیے جب بھی وہ دفتر جاتے تھے تو وہ رونے لگتی تھی۔

یہ ننھی پری سمجھ ہی نہیں سکی کہ اس کے پاپا کے ساتھ کیا ہوا اور دن رات ان کے لیے روتی رہتی ہے۔

اس کی بزرگ دادی بھی اپنے بیٹے کے لیے روتی رہی ہیں جو یقیناً سعودی انتظامیہ کے سنگ دل رویے کے ہاتھوں "قتل" ہوا۔

مگر ہماری آزمائش اسی روز ختم نہیں ہوگئی۔

جب میرے برادر نسبتی کا جدہ میں مقیم ایک کزن اگلے روز میت لینے کے لیے پہنچا تو انتظامیہ نے کہا کہ لاش کو اس وقت تک حوالے نہیں کیا جاسکتا جب تک ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر دستخط نہیں ہوجاتے اور اس سرٹیفکیٹ پر دستخط اس لیے نہیں ہوسکتے کیونکہ مجاز شخص چھٹیوں پر گیا ہوا ہے۔

کسی اور کے پاس دستخط کا اختیار نہیں اور میت کی حوالگی اس شخص کی تعطیلات ختم ہونے کے بعد ہی دی جاسکے گی۔

پورے دس روز تک ہم کراچی میں میت کی آمد کا انتظار کرتے رہے، مرحوم کی والدہ، اہلیہ اور بچوں کے نالوں نے ہمارے دل کے ٹکڑے کردیئے مگر ہم بے بسی کے عالم میں کچھ بھی نہ کرسکے۔

میرے برادر نسبتی کی میت سولہ اکتوبر کو کراچی پہنچی اور آخرکار ہم اسے آخری آرام گاہ تک پہنچانے میں کامیاب ہوسکے۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں