نیک ارادہ؟

ماضی کے بیشتر نوبل امن انعام ایوارڈ جیتنے والے افراد کے مقابلے میں ملالہ یوسفزئی اس اعزاز کی زیادہ حقدار ہیں۔
ماضی کے بیشتر نوبل امن انعام ایوارڈ جیتنے والے افراد کے مقابلے میں ملالہ یوسفزئی اس اعزاز کی زیادہ حقدار ہیں۔

جب ملالہ یوسفزئی گیارہ دسمبر کو اپنا ایوارڈ وصول کریں گی تو اس عالمی خراج تحسین کے خلاف شاید اپنے گھر میں ہی آوازیں اٹھیں، کہ یہ لڑکی پاکستان اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مغربی سازش کا حصہ ہے۔

درحقیقت حالیہ برسوں میں مسلمانوں نے نوبل امن انعام مقابلے میں سب پر سبقت حاصل کی ہے اور گزشتہ بارہ برسوں کے دوران پانچ مسلمانوں نے یہ ایوارڈ اپنے نام کیا ہے۔ مسلمانوں اور دہشتگردی کے تعلق کے بارے میں بلند آوازوں کے مقابلے میں یہ چھوٹی ہی سہی مگر خوش آئند پیش رفت ہے۔ ان پانچ ایوارڈ جیتنے والوں میں سے تین خواتین ہیں جو حقوق نسواں کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ درحقیقت جو لوگ خواتین کو اپنی غیرت سمجھتے ہیں، ان کے لیے نوبیل پرائز مسلم معاشروں کو تباہ کرنے کے لیے مغربی سازش ہے، جس کے ذریعے مسلم خواتین کو آزادی کے نام پر خراب کیا جارہا ہے۔

نوبیل کمیٹی نے بھی درحقیقت اپنی نیت کے حوالے سے الجھن بڑھائی ہے، کیونکہ امن انعام کے لیے انتخاب کے معیار کی تفصیل موجود نہیں ہے، اور متعدد غیرمستحق افراد جیسے امریکی، مشرق وسطیٰ اور اسرائیلی سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ یورپی یونین تک کے سیاستدانوں کو اس ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ وہ ممالک جہاں انسانی حقوق کا ریکارڈ بہت اچھا نہیں، مثلاً امریکا، پاکستان اور ہندوستان وغیرہ، وہاں کے سیاستدانوں کو اس ایوارڈ کے لیے منتخب کرنے سے گریز کیا جائے۔

اس کے علاوہ، اگرچہ میں کافی مطالعہ کرنے کا عادی ہوں مگر 1901 میں اس ایوارڈ کے آغاز کے بعد سے اس کے حقدار قرار پانے والے 103 افراد میں سے بیشتر کو میں شناخت نہیں کرسکتا۔ تاہم چار انعام یافتہ افراد شہرت اور اپنی کامیابیوں کے لحاظ سے سب سے زیادہ نمایاں ہیں جن میں مارٹن لوتھر کنگ، نیلسن منڈیلا، مدر ٹریسا اور محمد یونس شامل ہیں۔

یہ وہ افراد ہیں جو حقیقی معنوں میں نوبیل امن انعام کے مستحق تھے۔ ان چاروں شخصیات کی خوبیوں کو اس انعام کے انتخاب کے لیے قابل قدر معیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ ایسے لوگ نسل بھر میں ایک ہی دفعہ پیدا ہوتے ہیں۔ مگر کیونکہ نوبیل انعام ہر سال دیا جاتا ہے، تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بیشتر افراد اس معیار پر پورا نہیں اتر سکتے۔

ان چاروں افراد نے دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو درپیش مشکلات کے خاتمے کے لیے نمایاں مقاصد کے لیے کام کیا۔ مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن مینڈلا نے اپنے مقاصد کے لیے پرامن پر پوری طاقت سے غیرمنصفانہ نظام کی ان جڑوں کو چیلنج کیا جو عوام کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہیں۔ باقی دونوں یعنی مدر ٹریسا اور محمد یونس کی اولین توجہ (عبدالستار ایدھی کی طرح) جڑوں کو چیلنج کرنے کے بجائے مشکلات کے شکار لوگوں کی خدمت پر مرکوز رہی۔

یہی وجہ ہے کہ مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا نے غیرمنصفانہ نظام کو چیلنج کرنے کی وجہ سے بڑے ذاتی خطرات کا سامنا کیا۔ ان چاروں نے نہ صرف ذاتی طور پر بڑا تاثر قائم کیا بلکہ ان کی مثالوں نے دنیا بھر کے لوگوں کو اچھے مقاصد کی حمایت کے لیے متاثر کیا۔

عظیم ترین انسانی کامیابیوں کے کینوس میں ملالہ یوسفزئی کو کہاں فٹ کیا جاسکتا ہے؟ ان کے مقصد یعنی لڑکیوں کی 'تعلیم' کی اہمیت میں کوئی شبہ نہیں، کیونکہ دنیا بھر میں دہشت گردوں، ثقافتی تعصب اور حکومتی لاپروائی جیسے عوامل کے باعث لاکھوں لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔ اگرچہ لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ کچھ حلقوں کو مغربی ایجنڈا لگتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس سے بہت پہلے سے ایک اسلامی ایجنڈا بھی ہے۔ اس لیے بھلے ہی لڑکیوں کی تعلیم میں متعدد رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے، مگر اسلام والدین پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلائیں۔

اس کے علاوہ، لڑکیوں کی تعلیم میں حائل غیر منصفانہ معاشرتی روایات کو چیلنج کرتے ہوئے ملالہ یوسفزئی نے مسئلے کی بنیادی وجہ پر زور دیا ہے۔ اس میں حیرت کی بات نہیں کہ اس وجہ سے ان کے پورے خاندان کو زندگی کا خطرہ لاحق ہے۔ اور آخری بات یہ کہ اس پاکستانی بچی کی کہانی نے حقیقی معنوں میں عالمی برادری کو متاثر کیا ہے اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مزید تحرک پیدا کیا ہے۔ میں نے اوباما کے امریکا کے پہلے سیاہ فام صدر بننے کے بعد کبھی کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جس نے عالمی سطح پر کروڑوں عام افراد کو اتنا متاثر کیا ہو۔

یقیناً وہ ان سے پہلے ایوارڈ جیتنے والے لوگوں کے جتنی بااثر نہیں ہیں، مگر لوگوں کی کامیابیوں کو سراہنا عمر کے حوالے سے بھی مخصوص ہے۔ حال ہی میں اخبارات نے آئی ٹی سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے والے پانچ سالہ پاکستانی بچے کی خبر کو پوری شدت سے اجاگر کیا۔ یہ بات واضح ہے کہ یہ خصوصی توجہ اس بچے کو اس کی کامیابی پر نہیں دی جارہی کیونکہ لاکھوں بالغ افراد آئی ٹی کی اعلیٰ تعلیم رکھتے ہیں، بلکہ یہ اتنی کم عمری میں حاصل ہونے والی کامیابی کے حوالے سے تھی۔

یہ حقیقت ملالہ کے حوالے سے بھی درست ثابت ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں اس ایوارڈ کا مقصد صرف ماضی کے کام کو خراج تحسین پیش کرنا نہیں بلکہ مستقبل میں اسے آگے بڑھانے کے لیے حوصلہ افزائی کرنا بھی ہے اور کسی کو اس کے انتہائی کم عمری میں قابل ستائش کامیابیوں پر یہ اعزاز دینا اس کی اگلی پوری زندگی کو دیکھتے ہوئے قابل فہم نظر آتا ہے۔

تو میں ذاتی طور پر ملالہ کو ماضی کے بیشتر انعام یافتگان کے مقابلے میں زیادہ حقدار سمجھتا ہوں۔ ایوارڈ دینے کے فیصلوں میں عالمی تناظر سے لاعملی اور کمیٹی اراکین کے مفادات یقیناً کچھ کردار ادا کرتے ہیں۔ اس لیے امریکی حکومت کی سامراجیت کے خلاف جدوجہد کرنے والا کوئی فرد، مثلاً نوم چومسکی ممکنہ طور پر کبھی اس انعام کو حاصل نہیں کرسکتے، بھلے ہی سامراجیت عالمی سطح پر ناانصافی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ مگر پھر بھی نوبیل امن انعام نے عالمی سطح پر دیگر متعدد ناانصافیوں کو چیلنج کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔

ملالہ اور ان کی کتاب کے خلاف غصہ درحقیقت جزوی طور پر قومی شرمندگی اور جھنجھلاہٹ کا عکاس ہے، جو پاکستان کی سماجی ناانصافیوں پر عالمی توجہ کی وجہ سے ہے، اور جزوی طور پر غصہ یہ ہے کہ معاشرے کے کمزور عناصر خاص طور پر خواتین میں اپنے انداز سے ان ناانصافیوں کو چیلنج کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

'میں ملالہ نہیں ہوں' مہم شروع کرکے ملالہ کے ناقدین یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ وہ ملالہ جیسی ہمت نہیں رکھتے۔ اور جو لوگ اس پاکستانی بچی کی مثال سے متاثر ہیں انہیں توقع ہے کہ ایک وقت آئے گا جب ہم سب ملالہ کی طرح ہوں گے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ماہرِ سیاسی اقتصادیات ہیں، اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے کے سینئر فیلو ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 7 دسمبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں