سوبھو گیانچندانی: ایک عہد کا اختتام

اپ ڈیٹ 11 دسمبر 2014
کامریڈ سوبھو گیانچندانی — فوٹو بشکریہ کامریڈ سوبھو گیانچندانی فیس بک پیج
کامریڈ سوبھو گیانچندانی — فوٹو بشکریہ کامریڈ سوبھو گیانچندانی فیس بک پیج

سوبھو گیان چندانی برصغیر کے معمر مارکسوادیوں میں سے تھے جنہوں نے تحریک آزادی میں حصہ لیا، اور اس نئی صدی میں بھی زندہ تھے۔

چالیس کے عشرے میں ہندوستان نوآبادیاتی نظام سے آزادی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ یہ ایک تاریخی دور تھا، جس نے کئی ایک تاریخی تحریکوں کو جنم دیا۔ عالمی حوالے سے دوسری جنگِ عظیم اور سرد جنگ کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان اور ہندوستان کو تو آزادی مل گئی لیکن ایشیا میں گریٹ گیم دوبارہ شروع ہوگیا۔

اس عشرے میں برصغیر کے نوجوانوں نے اپنے سیاسی اور ثقافتی ورثے کو سمجھنا اور سمیٹنا شروع کیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب موئن جو دڑو سے تعلق رکھنے والے نوجوان سوبھو گیانچندانی انٹر پاس کر کے ٹیگور کی مثالی درسگاہ شانتی نکیتن پہنچتے ہیں۔

انہوں نے شانتی نکیتن کے پرنسپل کو لکھا کہ میرا تعلق موئن جو دڑو سے ہے اور آپ کے ادارے میں داخلے کا خواہش مند ہوں، لیکن کسی روایتی ٹیسٹ میں نہیں بیٹھنا چاہتا۔ چند ہفتے بعد انہیں بذریعہ تار مطلع کیا گیا کہ آپ کا داخلہ ہوگیا ہے۔

اس درسگاہ میں انہوں نے آرٹ، کلچر، فلسفہ اور دیگر عمرانی علوم کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے وہاں کیا سیکھا، وہ ان کی اپنی زبانی سنیے: جب میں یہ ادارہ چھوڑ رہا تھا تب ایک استاد نے پوچھا کہ سوبھو یہ بتاؤ کہ تم یہاں پر کیا سیکھے؟ میں نے ان کو بتایا 'جناب، میں ایک بچے کے طور پر یہاں آیا تھا اور اب انسان بن کر جارہا ہوں۔'

شانتی نکیتن میں ان کی رابندر ناتھ ٹیگور سے بھی ملاقات ہوئی۔ ٹیگور نے ان سے شکوہ کیا آپ سندھیوں نے بنگالی ماہر آثار قدیمہ مجمدار کو قتل کیا۔ سوبھو نے وضاحت کی کہ بعض ڈاکوؤں نے مجمدار کو اس غلط فہمی میں قتل کیا تھا کہ موئن جو دڑو کی کھدائی کے دوران سونا ملا ہے۔ کامریڈ نے بتایا کہ ٹیگور ان کی دلیل پر مطمئن ہوگئے۔ اور اس روز سے ان کا نام ’’مین فرام موئن جو دڑو‘‘ پڑگیا۔

سوبھو نے 21 سال کی عمر میں کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور اس فکر کے ساتھ مرتے دم تک قائم رہے۔ کامریڈ ان کا دوسرا نام بن گیا، اور انہوں نے اس لفظ کا تقدس قائم رکھا۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد بھی وہ پرامید رہے۔ ان کو پختہ یقین تھا کہ ایک بار پھر دنیا میں کمیونزم آئے گا، کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کے پاس انسان ذات کے مسائل کا کوئی حل نہیں۔

وہ کئی ماہ بلکہ بعض صورتوں میں کئی سال تک زیرزمین رہے، اور کئی مرتبہ جیل بھی گئے۔

تقسیم کے بعد اپنے کامریڈوں کے مشورے پر انہوں نے پارٹی قیادت سے خود کو دستبردار کیا۔ مگر پارٹی اور نظریے کے ساتھ اپنی وابستگی اسی طرح برقرار رکھی۔ انہوں نے اس صورتحال کو ایک انٹرویو میں اس طرح بیان کیا ہے: ’’پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لیے میں تین سر والا عفریت ہوں۔ اول یہ کہ کمیونسٹ ہوں، دوئم یہ کہ سندھی ہوں، سوئم یہ کہ ہندو ہوں۔‘‘

اگست 1942 میں کانگریس نے ہندوستان چھوڑ دو تحریک (Quit India Movement) شروع کی۔ دوسری جنگ عظیم اپنے عروج پر تھی۔ ہڑتالیں، چلو چلو جیل چلو، کانگریس، مہا سبھا اور مسلم لیگ اپنے طور پر سرگرم تھیں۔ مظاہرے، لاٹھی چارج، جلسے روز مرہ کا معمول تھے۔ انقلابی طلباء کی تحریک زوروں پر تھی۔ طالب علم لیڈروں کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تو انہیں مجبوراً انڈر گراؤنڈ جانا پڑا۔ سوبھو بھی ان میں سے ایک تھے، لیکن ایک ماہ کے اندر انہیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔

وہ دس ماہ تک قید رہے۔ دورانِ قید بھگت سنگھ کے نقش قدم پر چلنے والے سندھ کے نوجوان ہیموں کالانی کو ریلوے پل اڑانے کے الزام میں پھانسی دے دی گئی۔

ہندوستان چھوڑ دو تحریک کے زمانے میں وہ سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر تھے۔ طلباء کا زور تھا کہ اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے، لیکن کمیونسٹ پارٹی کی ہدایت تھی کہ انگریز حکومت کو زیادہ تنگ نہ کیا جائے کیونکہ وہ سوویت یونین کا ساتھ دے رہی ہے۔

انیس سو تینتالیس میں برصغیر میں بعض بڑے واقعات رونما ہوئے۔ فروری 1943 میں گاندھی جی نے اپنی قید کے خلاف بطور احتجاج بھوک ہڑتال کی۔ دسمبر میں جاپان نے کلکتہ بندرگاہ پر حملہ کیا۔ اسی ماہ کے آخر میں انڈمان جزائر میں پورٹ بلائر کے مقام پر سبھاش چندرا بوس نے جاپان کی حامی آزاد ہند حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اسی سال کے آغاز میں بعض شدت پسندی کے واقعات ہوئے۔ کئی کانگریسی اور کمیونسٹ لیڈر گرفتار ہوئے۔ سکھر جیل میں کمیونسٹ اسٹڈی سرکلز چلاتے تھے۔ حیدرآباد جیل میں ان کی ملاقات حروں سے ہوئی جو مختلف جرائم میں سزائیں کاٹ رہے تھے۔

1944 میں مارچ سے جولائی تک برما اور ہندوستان کے مشرقی علاقے منی پور میں برطانوی فوج اور جاپانی فوج کے درمیان جنگ چل رہی تھی۔ اس زمانے میں سبھاش چندرا بوس کی طرح ایک رجحان یہ بھی تھا جاپان اور ہٹلر کی مدد سے آزادی حاصل کی جائے۔ وہ کہتے تھے کہ جرمنی اور جاپان جنگ میں کامیاب ہوں گے اور ہمیں آزادی مل جائے گی۔

1944 میں سوبھو کورہا کیا گیا تو انہوں نے عوامی تحریکوں میں کام کرنے کے لیے کمر کس لی۔ اس دور میں کسانوں اور مزدوروں کے لیے کسان مزدور پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی کام کر رہی تھی۔ تب پارٹی رہنما عبدالقادر میوا خان، قادر بخش نظامانی، قاضی مجتبیٰ، اور جمال الدین بخاری تھے۔ مزدوروں کے اہم رہنما نارائن داس بیچر تھے۔ سوبھو نے کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے مزدوروں میں کام کیا۔

سندھ میں صحیح معنوں میں سیاسی تحریک کی بنیاد کمیونسٹ پارٹی نے رکھی۔ پارٹی کا اپنا منشور اور مقصد کارکنوں کی نہ صرف ذہنی تربیت دینا تھا، بلکہ انہیں عوام سے رابطے میں رہنے اور عوام میں تقریر کرنے کی بھی تربیت دی جاتی تھی۔ اس سے پہلے یہاں پر سیاست وڈیروں کے دھوکے اور پیسے کا کھیل تھا۔ کچھ وڈیرے اور سیٹھ الیکشن کے موسم میں میدان میں آجاتے تھے۔ پیروں کو دان دے کر ان سے اپنے حق میں اعلان کراتے، اور ووٹ خرید کر الیکشن میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ اور اگلے الیکشن تک مزے لوٹتے رہتے تھے۔

پارٹی کے کارکن صبح مرکز سے ہدایات لے کر فیلڈ میں نکل جاتے تھے، اور شام تک انہیں سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ہوتی تھی۔ بعض خاص دنوں پر وہ ترقی پسند رسالے اور اخبارات بھی بیچتے تھے۔ رسالے اور اخبار بیچنا ایک امتحان ہوتا تھا، جس سے پتہ چلتا تھا کہ کارکن کتنا سرگرم اور محنتی ہے۔ سوبھو ان تمام امتحانوں سے گزر کر سندھ میں ایک ایسی سیاست کی بنیاد رکھنا چاہ رہے تھے جو دھوکے، تعصب اور گروہ بندی سے پاک ہو۔

جیل سے رہائی کے بعد دگر ساتھیوں کے ہمراہ سوبھو نے سندھ کا دورہ کیا اور خاص طور پر نوجوانوں سے ملاقاتیں کیں۔

فروری 1946 میں رائل انڈین نیوی (بحریہ) کی بغاوت ہوئی۔ جہازوں کے عملے نے ہتھیار اٹھالیے، انہیں ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا گیا۔ عدم تعمیل پر ان پر گولیاں چلائی گئیں، تو جوابی کارروائی بھی ہوئی۔ اس مقابلے میں کئی افراد ہلاک ہوئے۔ خلاصیوں کی حمایت میں کمیونسٹ پارٹی نے عیدگاہ پر جلسے کا انتظام کیا۔ پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور فائرنگ بھی کی جس میں آٹھ افراد ہلاک اور ایک سو سے زائد زخمی ہوگئے۔ اس ہڑتال نے سوبھو کو بڑا لیڈر بنادیا۔ سوبھو اور دیگر ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن شہر میں موجود کشیدگی کے باعث انہیں رہا کردیا گیا۔

1946 میں تلنگانہ میں کسان تحریک چلی، جس نے مسلح جدوجہد کی شکل اختیار کرلی۔ اس سے متاثر ہو کر بعد میں سندھ میں پچاس کے عشرے میں بٹائی اور الاٹی تحریکیں چلیں۔

تقسیم ہند کے وقت سوبھو نے یہ کہ کر ہندوستان جانے سے انکار کردیا کہ میں اس دھرتی کا بیٹا ہوں، میرا ماضی، حال اور مستقبل اسی سرزمین سے جڑا ہوا ہے۔ اس کو چھوڑنے کے بارے میں سوچنا اذیت ناک ہے۔

کمیونسٹ کارکن بلیک مارکیٹنگ کے خلاف اور بہتر خوراک کے لیے جاری مزدور تحریک کے لیے چاکیواڑہ، لیاری اور دیگر علاقوں میں جا کر کارنر میٹنگز کرتے تھے اور جلسے کے آخر میں لوگوں کو بولتے تھے کہ آئیں ہم آپ کو دکھاتے ہیں کہ گندم کہاں ذخیرہ کی ہوئی ہے۔

پچاس کے عشرے میں راولپنڈی سازش کیس کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی عائد کی گئی۔ کچھ عرصے کے لیے کمیونسٹ پارٹی کے کارکنان اور لیڈروں کو جیل میں بھیجا گیا، اور دفتر سیل کردیے گئے۔ ان گرفتار ہونے والوں میں کامریڈ سوبھو بھی شامل تھے۔

ون یونٹ کے نفاذ کے بعد پاکستان میں جمہوریت اور صوبائی حقوق کا معاملہ زور پکڑ گیا اور آئندہ دو برس میں ملک میں مارشل لا نافذ کردیا گیا۔

65 کی جنگ کے زمانے میں ایک بار پھر سوبھو کو گرفتار کیا گیا۔ کمیونسٹ لیڈر حسن ناصر کی گرفتاری کے زمانے میں بدنام زمانہ اذیت گاہ شاہی قلعے لے جایا گیا۔ اور ان کی 1966 میں رہائی ہو پائی۔ دورانِ قید ان کی ملاقات بلوچ رہنما نوروز خان سے ہوئی۔ انہیں کلام پاک کا واسطہ دے کر پہاڑوں سے اتارا گیا تھا لیکن بعد میں انہیں پھانسی دے دی گئی۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو ایک بار پھر سوبھو کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے پر نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما اور بلوچستان کے گورنر میر غوث بخش بزنجو ان کی مدد کو پہنچے اور یوں سوبھو گرفتار ہونے سے بچ گئے۔ وہ تین مرتبہ انتخابات لڑے لیکن پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ان کو ہضم نہ کر سکی۔

کامریڈ سوبھو اپنی فکر اور نظریے پر زمانے کی تمام تر سختیوں کے باوجود قائم رہے۔ وہ جو کچھ بولتے رہے، لکھتے رہے، کرتے رہے وہ سب ان کی فکر اور نظریے کے عین مطابق رہا۔ سوویت یونین کا زوال، اور سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی ان کو کبھی بھی ان کے نظریات تبدیل کرنے پر مجبور نہ کرسکی۔ کامریڈ سوبھو گیانچندانی جیسے نظریاتی کارکنوں کی آج پاکستان کو اتنی ہی ضرورت ہے، جتنی آج سے پانچ چھ دہائیوں پہلے تھی۔ اور اس سے بھی زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے بچوں کو ان عظیم کرداروں کے بارے میں پڑھایا جائے، جو اپنے زمانے میں زیرِ عتاب رہتے ہیں، لیکن دنیا سے چلے جانے بعد لوگوں کو ان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ بقول احمد فراز

آج ہم دار پر کھینچے گئے جن باتوں پر

کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں

تبصرے (0) بند ہیں