موسم سرما کا ٹھٹھرتا ہوا سورج غروب ہونے کے قریب تھا اس وقت ایک بوڑھا شخص مہمانوں میں سر جھکائے بیٹھا تھا اور وہ ہر بار اس وقت اپنے ہاتھ دعا کے لیے اٹھا لیتا جب کوئی اس کے پاس آکر بیٹے کی موت پر تعزیت کرتا۔

اورنگزیب اپنے بیٹے کے لیے فاتحہ پڑھتے ہوئے.
اورنگزیب اپنے بیٹے کے لیے فاتحہ پڑھتے ہوئے.

مگر جب آسمان پر تاریکی چھانے لگی تو اس کے اندر اداسی بھی بڑھنے لگی، جلتے کوئلوں کی چمک اس کے چہروں پر نظر آنے لگی کیونکہ وہ آگ کے گرد باآواز بلند رو رہا تھا۔

اورنگزیب نامی یہ شخص کہہ رہا تھا "مجھے تو یہ سب کل کا ہی واقعہ لگتا ہے جب میں نے اپنے بیٹے کو پہلے روز اسکول بھیجا تھا اور آج میں اپنے بیٹے کو قبرستان لے کر گیا جہاں میں نے اپنے ہاتھوں سے اسے دفن کیا"۔

اورنگزیب کا پندرہ سالہ بیٹا حسن زیب اپنے چھوٹے بھائی موسیٰ زیب کے ساتھ منگل کو آرمی پبلک اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلا مگر پھر کبھی واپس نہیں آسکا۔

حسن زیب.
حسن زیب.

غمزدہ باپ کے بقول "اس نے میرے لیے قہوہ بنایا اور پھر گلے لگایا جبکہ اس کی ماں نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ مجھے اسے اپنی گود میں چھپا لینا چاہئے تھا اور اسے وہاں ہمیشہ رکھنا چاہئے تھا"۔

اس سانحے کے روز صبح کی اسمبلی کے بعد حسن زیب میٹرک کے دیگر طالبعلموں کے ہمراہ آڈیٹوریم گیا اور اس کا چھوٹا بھائی اپنے کلاس روم چلا گیا۔ یہ آڈیٹوریم طالبان کی آٹھ گھنٹے طویل بربریت کے دوران قتل گاہ کا روپ اختیار کرگیا تھا، اس سانحے میں 132 طالبعلم اور عملے کے نو افراد ہلاک ہوئے۔

واقعے کے بعد یہ آڈیٹوریم ناقابل بیان دہشت کا منظر پیش کررہا تھا، اس کے دروازوں اور کھڑکیوں پر گولیوں کے سوراخ تھے۔ فرش پر خون جما ہوا تھا اور کرسیوں کی قطاریں بھی خون رنگ ہو رہی تھیں۔ میزوں کے نیچے وہ جگہیں جہاں بچوں نے چھپنے کی کوشش کی وہاں ان طالبعلموں کے خون پر پیروں کے نشانات بنے ہوئے تھے جو وہاں سے بھاگنے کی کوشش کے دوران دہشت گردوں کی بربریت کا شکار ہوگئے۔

نوٹ بکس پر خون کے دھبے خشک ہوکر بھورے ہونا شروع ہوگئے تھے۔ میں اپنی نگاہیں ٹوٹے بکھرے سامان سے نہیں ہٹا سکا جو خون سے لتھڑا ہوا تھا، بہت زیادہ خون۔ مجھے یہ سب لکھتے ہوئے لگ رہا تھا جیسے میری نوٹ بک سے بھی خون ٹپک رہا ہے۔

حسن کے بھائی موسیٰ نے اپنی کلاس کی کھڑکی سے طالبان دہشت گردوں کو اسکول میں داخل ہوتے دیکھ لیا تھا "کچھ سیکنڈ کے اندر ہی انہوں نے اپنی کلاشنکوفوں سے فائرنگ شروع کردی اور دستی بم پھینکنے لگے۔ انہوں نے ماسک اور خودکش جیکٹیں پہن رکھی تھیں۔ ہمارے اساتذہ چیخنے لگے اور انہوں نے ہمیں کہا کہ فرش پر لیٹ کر قرآن مجید کی تلاوت کریں جس کے بعد میں نے خود کو فرش پر گرا دیا"۔

دو گھنٹے بعد موسیٰ باہر آیا اور اس نے خون کو لاشوں سے بھرا ہوا پایا "میں نہیں جانتا تھا کہ میرا بھائی آڈیٹوریم کے اندر ہے، میں نے حسن کو اس وقت دیکھا جب میں گھر واپس پہنچا جہاں وہ خاموشی سے لیٹا ہوا تھا مگر اپنی یونیفارم میں نہیں بلکہ کفن میں"۔

انس خان آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا جو حسن زیب کی طرح آڈیٹوریم کے اندر تھا مگر خوش قسمتی سے وہ بچنے میں کامیاب رہا۔ اب وہ فائرنگ سے زخمی ہونے کے باعث لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیرعلاج ہے۔

موسیٰ زیب (بائیں) حسن زیب کا بھائی۔
موسیٰ زیب (بائیں) حسن زیب کا بھائی۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیرعلاج انس خان۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیرعلاج انس خان۔

وہ بتاتا ہے "انہوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور فائرنگ شروع کردی وہ پشتو میں چلا رہے تھے کہ 'کوئی بھی بچنا نہیں چاہئے'۔ میں نے خود کو ڈیسک کے نیچے چھپا لیا تھا اور ایسے لیٹ گیا جیسے مرگیا ہوں۔ میرے ارگرد میرے دوستوں کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں جنھیں سروں میں گولیاں ماری گئی تھیں۔ ایک گولی میرے بازو میں بھی لگی تھی اور مجھے ناقابل برداشت تکلیف محسوس ہو رہی تھی مگر میں نے ٹائی اپنے منہ میں رکھ لی تاکہ میں چلا نہ سکوں۔ فرش پر میں نے بڑے جوتے پہنے ان مردوں کو ہال سے نکلتے دیکھا جس کے بعد میں نے کچھ دیر انتظار کیا اور پھر گھسیٹتا ہوا خود کو ہال سے باہر لے گیا جہاں آرمی کمانڈوز نے مجھے بچالیا"۔

جیسے جیسے رات گہری ہونے لگی غم سے نڈھال باپ اورنگزیب نے قبرستان جانے کی خواہش ظاہر کی جہاں وہ اپنے بیٹے کی قبر کے برابر میں بیٹھنا چاہتا تھا۔ گھر کے اندر ماں اپنے بیٹے کے یونیفارم کو مضبوطی سے تھامے ہوئے تھی اور خالی الذہنی کی کیفیت میں اسے تکے جارہی تھی۔

جب میں گھر سے نکلا تو موسیٰ زیب اپنے بھائی کے پالتو طوطوں کو کھلانے کی کوشش کررہا تھا جو اس کے بقول کچھ بھی کھانے یا بولنے سے انکار کر رہے تھے۔

وہاں سے چلتا ہوا میںگل بہار نامی علاقے میں پہنچا جہاں میں نے ہر گلی میں لیمپ پوسٹس دیکھے جن پر بچوں کی تدفین کے اعلانات لگے ہوئے تھے۔ ماضی میں پشاور کو پھولوں کا شہر کہا جاتا تھا اور اسد خان نامی شخص کے مطابق "آج پھولوں کی تدفین ہو رہی ہے"۔

تدفین کے اعلانات کے پوسٹرز۔
تدفین کے اعلانات کے پوسٹرز۔

میں قبرستان پہنچا جہاں غم گزار آنسو بہا رہے تھے۔ میری کسی قبرستان میں جانے کی سب سے اولین یاد اس وقت کی ہے جب میں اپنی والدہ کے ساتھ وہاں گیا تھا جہاں وہ میرے والد کی قبر پر جاکر رونے لگی تھیں۔ پھر ان کی آنکھیں خشک ہوگئیں اور انہوں نے مجھے دلاسہ دیتے ہوئے کہا 'جو لوگ ہم سے واپس لے لیے جاتے ہیں وہ جنت میں چلے جاتے ہیں اور ستارے بن جاتے ہیں'۔

درد، غم اور نا رکنے والے آنسوﺅں کے سامنے اب کسی کو دلاسہ نہیں دیا جاتا اور کسی کو بھی تسلی نہیں دی جاسکتی۔


تصاویر طارق محمود


انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں