وہ جگہ جہاں لیاری کے بچے خواب دیکھنے کو آزاد

اپ ڈیٹ 07 جنوری 2015
جب ہم انہیں زندگی کے مثبت پہلوﺅں سے متعارف کراتے ہیں تو وہ لیاری واپس لوٹتے ہوئے پرمسرت خیالات میں کھوئے ہوئے ہوتے ہیں—  فوٹو ڈان ڈاٹ کام
جب ہم انہیں زندگی کے مثبت پہلوﺅں سے متعارف کراتے ہیں تو وہ لیاری واپس لوٹتے ہوئے پرمسرت خیالات میں کھوئے ہوئے ہوتے ہیں— فوٹو ڈان ڈاٹ کام

کراچی کے بدنام زمانہ علاقوں میں سے ایک میں داخل ہوتے ہی یہ تحریر آپ کی نظروں کے سامنے آتی ہے "لیاری میں خوش آمدید"، یہ علاقہ جو کبھی چیمپئن باکسرز کے باعث جانا جاتا تھا اب گروہی تشدد، منشیات اور دیگر مجرمانہ سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔

لیاری کمزور دلوں کے لیے نہیں۔ ہوسکتا ہے اسی خیال نے سبینہ کھتری کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دی ہو جو ہر صبح اس علاقے میں اپنی گاڑی پر جاتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں " جب بھی ان دروازوں سے گزرتی ہوں، میرا سارا خوف ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے"۔ سبینہ یقیناً کسی اور ہی مٹی سے بنی ہوئی ہیں۔

سبینہ کے پیچھے لیاری کی تاریک اور خوف سے بھری گلیوں سے گزرتے ہوئے آپ ان ماﺅں کو دیکھ سکتی ہیں جو سبینہ کو ہاتھ ہلا رہی ہوتی ہیں، بچے مسکراتے ہیں اور ان کے والد سر جھکا کر خیرمقدم کرتے ہیں۔

سبینہ بیشتر افراد کو ان کے ناموں سے جانتی ہیں اور وہ ہر ایک سے ذاتی طور پر علیک سلیک کرتی ہیں۔ ان کی یہ چہل قدمی ایک شوخ رنگ کی عمارت کے پاس جاکر ختم ہوتی ہے جس پر "کرن اسکول" لکھا ہے۔

سبینہ کے بقول "میرے بہنوئی نے مجھے کرن اسکول کے معاملات میں دلچسپی لینے کے حوالے سے بنیادی کردار ادا کیا۔ انہوں نے چودہ سال قبل اس اسکول کی بنیاد رکھی تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ مجھے کسی ایسے کام کا حصہ بننا چاہیے جس سے کچھ حقیقی تبدیلی آسکے۔"

وہ مزید بتاتی ہیں "کرن اسکول میں ہم لیاری کے لائق اور ذہین بچوں کو داخل کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہم انہیں تیار کرتے ہیں تاکہ وہ نجی اسکولوں میں داخلہ لے سکیں، یہ ایک ایسا موقع ہے جو وہ کسی اور صورت کبھی حاصل نہیں کر سکتے۔"

سبینہ کے بارے میں ایک حیرت انگیز چیز یہ ہے کہ شاگردوں کے ساتھ ان کا کام اسکول میں ختم نہیں ہوجاتا۔ وہ ان بچوں کودنیا دکھانے کی بھی خواہشمند ہیں۔

سبینہ بتاتی ہیں "لیاری میں بچے منفی چیزوں سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں جس کے باعث وہ زندگی کی سادہ چیزوں کو دیکھ نہیں پاتے۔ چھوٹی عمر میں ہی انہیں دردمندی کے بجائے تشدد دکھایا جاتا ہے۔"

یہی وجہ ہے کہ سبینہ بچوں کو ہر ماہ کئی بار تفریح کے لیے باغات اور یادگار مقامات پر لے جاتی ہیں اور وہاں انہیں ورزش، موسیقی اور فلموں سے متعارف کراتی ہیں۔

سبینہ کے گرد بچے جمع ہوگئے تھے۔ انہوں نے ہمیں بتایا "جب ہم انہیں زندگی کے مثبت پہلوﺅں سے متعارف کراتے ہیں تو وہ لیاری واپس لوٹتے ہوئے ان پرمسرت خیالات میں کھوئے ہوئے ہوتے ہیں، اور اپنے ارگرد کے تمام دہشت ناک حالات کو فراموش کردیتے ہیں، خود کو ہوا میں پرواز کرتا محسوس کرتے ہوئے تتلیوں اور پھولوں کی گنتی کرتے ہیں۔"

کرن اسکول والدین کو بھی تعلیم دینے کے لیے بھی کام کررہا ہے۔ ہر ماہ اساتذہ و والدین کے درمیان ملاقات ہوتی ہے جبکہ اسکول کے بعد کلاسز بھی ہوتی ہیں تاکہ والدین سمجھ پائیں کہ ان کے بچے کیا پڑھ رہے ہیں۔

سبینہ اس بارے میں بتاتی ہیں "یہ بہت ضروری ہے کہ والدین کو تعلیم دی جائے کیونکہ وہ بچوں کے لیے پہلا ماحول ہوتے ہیں۔ ہم ان کو وہی مضامین پڑھاتے ہیں جو ان کے بچے پڑھ رہے ہوتے ہیں مگر ہم والدین کو اس کی تعلیم بچوں سے پہلے دیتے ہیں تاکہ وہ جان سکیں کہ ان کے بچوں کو کیا پڑھایا جائے گا۔"

سبینہ اکثر خود کو بچوں کے والد کے سامنے پاتی ہیں۔ ایک سہ پہر جب ہم سبینہ اور بچوں کے والد کے درمیان ایک ملاقات فلما رہے تھے تو ایک گرما گرم بحث کا آغاز ہوگیا۔ ایک شخص نے کام کرنے سے انکار کردیا کیونکہ اس کے مطابق وہ ملازمت "اس کی شان کے خلاف تھی۔"

سبینہ نے اسے سمجھانے کی ہرممکن کی کوشش کی "کون آپ کے خاندان کی کفالت کرے گا؟ اپنی انا کو پس پشت ڈال کر کام کا آغاز کریں پھر ایک بہتر ملازمت بتدریج مل جائے گی تاہم اگر آپ نے ابھی کام شروع نہیں کیا تو آپ کے بیوی بچوں کو مشکلات کا سامنا ہوگا"۔

وہ قائل ہوتا نظر نہیں آیا، مگر پھر بتدریج نرم پڑگیا۔

سبینہ کے بقول "مجھے بچوں کے والد سے ملنا کافی اچھا لگتا ہے، ان سے ایک ملاقات میں ہی اتنی کامیابی مل جاتی ہے جتنی ماﺅں سے چھ بار ملنے پر ہوتی ہے، کیونکہ اگر مائیں ہم سے متفق بھی ہوں تو بھی وہ گھر میں فیصلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتیں، مگر جب باپ متفق ہوتا ہے تو وہ فوری طور پر گھر جاکر تبدیلیاں لے آتا ہے۔"

حماد، سمیعہ، عادل، شہر بانو، اقصیٰ اور دیگر بچے جن سے ہماری ملاقات ہوئی سب کے اپنے خواب ہیں۔ ایک بچہ پائلٹ بننا چاہتا ہے جبکہ دوسرا ایک استاد، تیسرے کا خواب ایک لائبریری کھولنا ہے جبکہ ایک کی خواہش ہے کہ وہ ڈاکٹر بنے۔

یہ سب لیاری کو ہر فرد کے لیے اچھا علاقہ بنانا چاہتے ہیں۔ سبینہ نہ صرف ان بچوں کو تعلیم فراہم کررہی ہیں، بلکہ وہ انہیں خواب دیکھنا بھی سکھا رہی ہیں تاکہ وہ مستقبل کے بارے میں سوچنے کے قابل ہوسکیں اور اسے امید اور عزم سے بھرسکیں۔

سبینہ بتاتی ہیں "میں کوشش کررہی ہوں کہ دیگر افراد کو اپنے نقش قدم پر چلنے کے لیے متاثر کرسکوں۔" سبینہ کے ساتھ کرن اسکول میں کافی وقت گزرنے کے بعد میں نے جانا کہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ کوئی سبینہ سے متاثر نہ ہو، کیونکہ وہ ایک ایسے مقصد کو لے کر آگے بڑھ رہی ہیں جس کا حصہ ہم سب کو ہونا چاہیے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 21 دسمبر 2014 کو شائع ہوا۔

مالی امداد کے لیے:

کرنٹ اکاؤنٹ ٹائٹل: Kiran Ibtadai School

کرنٹ اکاؤنٹ نمبر: 232305

بینک: Habib Metropolitan Bank Limited, Main Branch, Spencer Building, I.I Chundigarh Road, Karachi, Pakistan

سوئفٹ کوڈ: MPBLPKKA001

سبینا کی کہانی یہاں دیکھیے: https://vimeo.com/70852123

تبصرے (0) بند ہیں