دوتہائی کینسر کیسز ’’بد قسمتی‘‘ سے ہوتے ہیں

اپ ڈیٹ 03 جنوری 2015
انسانی خلیوں میں تقسیم کے دوران پیدا ہونے والے کینسر سیل ۔ ۔ ۔ فوٹو : رائٹرز
انسانی خلیوں میں تقسیم کے دوران پیدا ہونے والے کینسر سیل ۔ ۔ ۔ فوٹو : رائٹرز
ڈاکٹر ایک کینسر کے مریض کا معائنہ کر رہا ہے ۔ ۔ ۔ فائل فوٹو : اے ایف پی
ڈاکٹر ایک کینسر کے مریض کا معائنہ کر رہا ہے ۔ ۔ ۔ فائل فوٹو : اے ایف پی

لندن : دنیا پھر میں دو تہائی کینسر کے کیسز پست معیار زندگی یا متاثرہ ڈی این اے کے بجائے بد قسمتی سے ہوتے ہیں۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر کینسر انسانی جسم کے خلیوں کی خرابی سے ہوتے ہیں جو کہ مکمل طور پر انسان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔

برطانیہ کے جان ہوپ کینز کینسر سینٹر کے سائنسدانوں نے ایک سائنسی ماڈل تیار کیا جس سے کینسر کے مرض کو جانچا جائے جس میں مختلف قسم کے ٹیشوز کو جانچا گیا جس میں قابل تقسیم خلیوں میں آنے والی تبدیلیوں کا جانچ سے اس عمل کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی۔

سائنسدانوں کو مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی کہ قابل تقسیم خلیوں میں 31 ٹیشوز میں تبدیلیاں آتی ہیں جن میں ہر ایک کی تبدیلیوں کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے۔

اس مشاہدے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ دو تہائی ٹیشوز میں کینسر کا مرض ’اتفاقی‘ یا بد قسمتی سے واقع ہوتا ہے جبکہ دیگر میں یہ ماحولیاتی اثرات یا موروثی طور پر منتقل ہو رہا ہوتا ہے۔

جان ہوپ کینز ہونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کے پروفیسر برٹ وگیلیسٹین کے مطابق تمام کینسرز مختلف اقسام کی بدقسمتی کے واقعات سے رونما ہو رہے ہوتے ہیں جن میں ماحول اور موروثیت کو بھی شامل کیا جاتا ہے مگر اب ایک ایسا ماڈل بنا لیا گیا ہے جس سے خلیوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں، ماحول یا موروثی طور پر کینسر کے مرض کو دیکھا جا سکے۔

اس مشاہدے میں 22 کینسر کی اقسام کو خلیوں میں آنے والی تبدیلیوں سے رونما ہونے کے عمل کا جائزہ لیا گیا جن کی اکثریت اتفاقی یا ’بد قسمتی‘ سے خلیوں میں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔

کینسر کی 9 اقسام میں بد قسمتی کے ساتھ دیگر عوامل بھی شامل ہو تے ہیں۔ پروفیسر برٹ وگیلیسٹین کا کہنا تھا کہ مشاہدے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ بہت ساری کینسر کی اقسام اس کے اندازے سے بھی زیادہ تیزی سے وقوع پذیر ہوتی ہیں، مثال کے طور پر زبان کا کینسر جو زیادہ تر سگریٹ نوشی سے ہوتا ہے، اسکن کینسر جو کہ دھوپ میں رہنے سے بڑھتا ہے اسی طرح موروثی طور پر منتقل ہونے والے کینسر کا بھی جائزہ لیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کینسر کا مرض عدم احتیاط سے نزید تیزی سے ہونا کا اندیشہ ہوتا ہے جیسے پست معیار زندگی یا سگریٹ نوشی سے اس کے ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، اس کے علاوہ کینسر کا مرض خلیوں کی تقسیم میں اس وقت بھی سامنے آتا ہے جس ان کے ٹیشوز میں تقسیم کا عمل ہو رہا ہوتا ہے تو ’بد قسمتی‘ کا عنصر یہ مرض پیدا کر دیتا ہے۔

برٹ وگیلیسٹین نے مزید بتایا کہ کینسر کے مرض کا تدارک اسی صورت ممکن ہے جب اس کے ابتدا میں ہی تشخیص کر کے سرجری کے ذریعے علاج کر لیا جائے۔

اس سے قبل یہ جائزہ بھی سامنے آچکا ہے کہ کینسر سے متاثر ہونے والے مریضوں کے 6 فیصد موت کا شکار ہوتے ہیں جبکہ 30 سے 69 سال کی عمر کے افراد میں یہ شرح 8 فیصد تک ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Mustafa Jan 03, 2015 10:33am
The calamities of modernism are disease that are hierarchical, this is true to a great extent as we are living in self made age of anxiety where there is no planning to meet the challenges of psychological and physical needs and we see the hospital sanatorium full of people who look healthy from their appearance but they are broken and distorted from their inner. The satisfaction of mind is good solution of these catastrophes and it may be got from religion or the philosophical suicide of the person who is facing such issues.