ایک مچھر ۔۔۔

12 جنوری 2015
دشمن سے لڑنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی پوری معلومات موجود ہوں، تاکہ گڈ دشمن اور بیڈ دشمن کی پہچان کی جاسکے — فوٹو doritweber.com
دشمن سے لڑنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی پوری معلومات موجود ہوں، تاکہ گڈ دشمن اور بیڈ دشمن کی پہچان کی جاسکے — فوٹو doritweber.com

گزشتہ رات کئی پہروں تک مچھروں کے ساتھ ایک مسلسل خونی مگر لاحاصل جنگ کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ اس مخلوق کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جائیں تاکہ اس خدائی فوجدار کے دنیا میں ہونے کا اصل مقصد دریافت کیا جاسکے۔

ہر اچھے لڑاکے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دشمن کی پوری خبر رکھے تاکہ گڈ مچھر اور بیڈ مچھر کی پہچان ہوسکے۔ چنانچہ انٹرنیٹ پر کئی گھنٹوں کی عرق ریزی کے بعد جو معلومات ہمیں حاصل ہوئیں وہ آپ سب کے گوش گزار کرتے ہیں۔

سب سے پہلے تو نام؛

اردو میں اس پاجی کو مچھر کہا جاتا ہے جبکہ انگریزی میں مسکیٹو بلاتے ہیں (اس نام سے جڑی ایک روایت ہمارے یہاں عام ہے جس پر آگے چل کر تبصرہ کریں گے)۔

دیگر زبانوں میں بھی اس کا کوئی بھلا برا نام ہوتا ہوگا مگر حیرت اس بات کی ہے کہ یہ نابکار مخلوق بائیولوجیکل نام بھی رکھتی ہے۔ لو بھلا بتاؤ یہ بھی کوئی چیز ہے جس کا بائیولوجیکل نام رکھا جائے..!!

اگر یہ کام ہمارے ذمے ہوتا تو ہرگز اس پاجی کو وہ مقام حاصل نہ کرنے دیتے جو بطور اشرف المخلوقات ہمیں حاصل ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ فوڈ چین کے انتہائی نچلے درجے پر رکھے گئے ایک معمولی کیڑے کو ہمارے ہی جیسا مقام دیا جائے۔ ہم انسان تو اپنے جیسے لوگوں کو کبھی خود سے آگے نہیں نکلنے دیتے۔ جہاں کسی نے آگے کی طرف جست لگائی کہ ٹانگ اڑا کر اسے منہ کے بل گرا دیا۔ یہ تو پھر بھی ایک ادنیٰ سا مچھر ہے۔

مچھروں سے متعلق سیرحاصل تحقیق کے بعد ہم صرف اتنا ہی جان پائے کہ اس کا مقصد محض خلق خدا کو ستانے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ اس حوالے سے بولی وڈ کے معروف اداکار نانا پاٹیکر کے وہ تاریخی الفاظ یاد آگئے جو انہوں نے مچھروں کی شان میں ادا کیے تھے۔ قارئین کا احترام اور ایڈیٹر صاحب کے غضب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے وہ الفاظ یہاں من و عن تو تحریر نہیں کیے جا سکتے البتہ آپ لوگوں کا تجسس رفع کرنے کے لیے عرض ہے کہ حضرت نے اپنے مخصوص انداز میں مچھر کو بیگم کا بھائی تسلیم کرتے ہوئے انسان کے اندر جینیاتی تبدیلی کا مورِد الزام ٹھہرایا تھا۔

ویسے تو نانا پاٹیکر بذاتِ خود ایک آدم بیزار انسان ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عموماً شادی کے بعد ہر شریف مرد کے اپنے برادر نسبتی سے متعلق کچھ ایسے ہی جذبات ہوتے ہیں۔

اپنی تحقیق کے دوران ہم پر یہ بھی انکشاف ہوا کہ مچھر دراصل سبزی خور ہے!!

جی ہاں! یعنی پھلوں اور پھولوں کے رس پر اکتفاء کرتا ہے، یہ تو ان کی بیگم صاحبہ ہیں جنہیں انسانی خون میں موجود خاص پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے۔ بیچارے نر مچھر کا کام تو محض شکار تلاش کرنا اور اپنی مخصوص بھنبھناہٹ سے ٹارگٹ کی نشاندہی کرنا ہے ۔

تو جناب اب اگر سرد راتوں میں رضائی کے اندر آپ کو پراسرار سی آواز سنائی دے تو سمجھ جائیے گا کہ یہ مسکین فقط اپنا فرض خاوندگی ادا کرنے آیا ہے، درگزر فرمائیے گا، اس غریب کی رگوں میں آپ کا خون نہیں۔

ویسے دیسی مردوں کو مچھروں سے کچھ سبق سیکھنا چاہیے۔ دوسروں کی رضائی میں گھسنے کا نہیں بلکہ اپنی نصف بہتر کی خاطر شہید ہوجانے کا۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا؟ آپ کو لفظ 'شہید' پر اعتراض ہے؟ آخر کیوں بھئی؟ پاکستان میں سب سے زیادہ زیر استعمال لفظ یہی تو ہے جس سے بلا تفریق سب کو نوازا جاتا ہے، چاہے وہ جان لینے والا ہو یا جان دینے والا۔ ہمارے ایک رہنما نے تو کتے تک کو اس خطاب سے نواز دیا تو بھلا مچھر بیچارہ پیچھے کیوں رہے؟

بہرحال جناب انسانی خون سے فیضیاب ہونے اور اس مرحلے کے دوران شوہر سے چھٹکارا پانے (جس کی لاش یقیناً آپ کی ہتھیلیوں پر چپکی ہوئی ہوگی) کے بعد مچھرنی تین سو انڈے دیتی ہے اور پھر ان انڈوں میں سے نکلنے والے مچھروں کی یہ فوج ظفر موج کوئی دو ماہ تک انسانوں پر فدائی حملے کرتی رہتی ہے۔

ان دو ماہ کے عرصے میں یہ خدائی فوجدار ملیریا، ڈینگی اور کئی بیماریوں کی ترسیل کا کام بالکل مفت سرانجام دیتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی افزائش روکنے کا سب سے بہترین حل کسی بھی مقام پر پانی نہ کھڑے ہونے دینا ہے، لیکن وطن عزیز کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں گلی گلی کوچہ کوچہ چھوٹے چھوٹے کئی ڈیم موجود ہیں، جن میں پانی ہر وقت موجود رہتا ہے۔ جس گلی میں ٹخنوں ٹخنوں گٹر کا پانی نہ کھڑا ہو اسے ہم پاکستان کا حصّہ سمجھتے ہی نہیں۔

آخر میں مچھر کے انگریزی نام mosquito کی جانب واپس آتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک روایت خاصی مشہور ہے کہ مسجد کے لیے انگریزی لفظ mosque دراصل mosquito سے نکلا ہے۔ اور اس بات کی دلیل کے لیے پندرہویں صدی میں پیش آنے والا ایک جھوٹا واقعہ بھی بتایا جاتا ہے جو سراسر غلط ہے۔ ہسپانوی زبان میں مسجد کو mezquita کہا جاتا تھا اور انگریزی لفظ mosque اسی زبان سے اخذ کیا گیا ہے۔

یہ وضاحت پڑھنے کے بعد امید ہے کہ ہم وطن ایسی شر انگیز کہانیوں پر یقین نہیں کریں گے اور انہیں مزید پھیلانے سے اجتناب کریں گے۔ اور جب اس بلاگ کو پڑھنے کے بعد رات کو کوئی مچھر تنگ کرے گا، تو اس بیچارے کی بیچارگی اور اپنی اہلیہ کے لیے اس کی خدمات کا سوچ کر اسے معاف کردیں گے۔

کریں گے نا؟

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

anees Jan 12, 2015 01:42pm
great translation of dialog