کراچی: ہندوستان میں شمسی توانائی کے منصوبوں میں امریکا کی جانب سے سرمایہ کاری کی خبروں کے ردّعمل میں انسانی حقوق کے رہنماؤں نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ جوہری توانائی کے منصوبوں کا انتخاب کرنے کے بجائے متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے پر توجہ دے۔ ان کا کہنا ہے کہ جوہری توانائی کے ان منصوبوں سے کراچی کی آبادی کو سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ پر نصب کیے جانے والے چینی نیوکلیئر ری ایکٹرز کے جاری مقدمے کی عوامی سماعت میں عوام کی شرکت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پہلی مرتبہ ماحولیاتی اثرات کے تجزیے کا انتظام کیا جارہا ہے اور وہ بھی ایک نیوکلیئر پلانٹ کے لیے۔

انسانی حقوق کے یہ رہنما ایک ورکشاپ سے خطاب کررہے تھے، جس کا عنوان تھا ’’کراچی کے مجوزہ نیوکلیئر پاور پلانٹ: ماحولیاتی اثرات کے تجزیے اور عوامی سماعت کی تیاری۔‘‘

اس ورکشاپ کا اہتمام اتوار کو پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائیلر) نے کیا تھا۔

واضح رہے کہ دسمبر 2013ء میں جب وزیراعظم نواز شریف نے اس منصوبے کی منظوری دی تو اس کے فوراً بعد نیوکلیر پاور پلانٹ کے حوالے سے بحث شروع ہوگئی تھی۔

انسانی حقوق کے رہنماؤں نے دلیل دی تھی کہ شہری آبادی سے نزدیک ایک جوہری منصوبہ تباہی کی صورت میں ایک سنگین خطرہ بن سکتا ہے، جس کے بعد آبادی کے ایک بڑے حصے کے کسی دوسرے مقام پر انخلاء کی ضرورت پڑے گی۔

انہوں نے اس منصوبے پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسا منصوبہ جس کا اس سے پہلے کبھی تجربہ نہیں کیا گیا، پاکستان کے لیے طویل مدتی بنیادوں پر بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔

چنانچہ بالآخر سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور سندھ کے ماحولیاتی تحفظ کے ادارے (سیپا) نے بروقت اور ماحولیاتی اثرات کے مناسب تجزیے کے انعقاد میں ناکامی سے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔

جب سے یہ معاملہ بحث و مباحثے کا موضوع بنتا چلا آرہا تھا۔

اس ورکشاپ سے شہری نامی تنظیم کے متحرک رہنما رونالڈ ڈی سوزا نے کہا کہ اس طرح کے معاملات میں عوام کی بے حسی ایک بڑا چیلنج بن جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عام طور پر عوام کو اپنے حقوق کا علم نہیں ہوتا، اس حقیقت سے واقف لوگ عوام کی اس بے خبری کو اس طرح کے معاملات میں اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں، اوراس منصوبے کی تنصیب کے بارے میں بھی معلومات کو گھما پھرا کر لوگوں کے ذہن کو اپنے حق میں ہموار کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کو درست حقائق سے آگاہ کیا جائے تاکہ مستقبل میں اس طرح کا طریقہ کار اپنایا نہ جاسکے۔

رونالڈ ڈی سوزا نے اپنی پریزنٹیشن کے دوران دلیل دی کہ جائزے کا عمل مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تباہی سے ہمیشہ غریبوں کو ہی سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے، جبکہ دولت مند ہمیشہ فائد ے میں رہے ہیں۔

ماحولیاتی قوانین کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد ماحولیات سے متعلق خدشات اب صوبائی حکومت کا موضوع ہیں۔

ماہرِ طبیعیات اور قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے پروفیسر ڈاکٹر اے ایچ نیّر اور پائیلر کے کرامت علی کا کہنا تھا کہ بجائے نیوکلیئر ری ایکٹرز حاصل کرنے سے چین سے کہنا چاہیے کہ وہ ہمیں شمسی اور ہوا کے ذریعے بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں کے لیے رقم فراہم کرے۔

سندھ ماحولیاتی کونسل جو گزشتہ سال مارچ میں تشکیل دی گئی تھی، جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ سال میں اس کے دو اجلاس ہوں گے، لیکن وہ اب تک ایک بھی اجلاس کے انعقاد میں ناکام رہی ہے۔

ڈاکٹر نیر نے کہا کہ حکومت ماحولیاتی اثرات کے تجزیے کی لازمی رپورٹ کے بغیر کراچی کے ساحل کے ساتھ ساتھ دو نیوکلیئر پاور پلانٹ کے2 اور کے3 کی تنصیب کررہی تھی۔

سندھ ہائی کورٹ نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ ماحولیاتی اثرات کے تجزیے کے لیے ایک عوامی سماعت کا انعقاد کرے۔ لیکن اس سے قبل ماحولیاتی اثرات کے تجزیے کی دستاویزات کو عوام کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے تاکہ وہ اس کا مطالعہ کرکے اس معاملے کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔

حکومت نے حال ہی میں ماحولیاتی اثرات کے تجزیے کے لیے ایک مشاورتی فرم کو مقرر کیا ہے۔ جس نے اس سلسلے میں پہلے ہی ایک جائزہ اجلاس کا انعقاد کیا تھا۔

رونالڈ ڈی سوزا نے کہا کہ ہمیں بین الاقوامی معیار کے ماحولیاتی اثرات کے تجزیے کی ضرورت ہے، جس کے تحت شہریوں کو اس طرح کے منصوبوں پر فیصلہ کرنے اور تبصرہ کرنے کے لیے ایک سال کا وقت دیا جاتا ہے۔ جبکہ یہاں ہمیں اپنے جوابات پیش کرنے کے لیے صرف پندرہ دن کا وقت دیا گیا ہے۔

ڈاکٹر نیّر نے کہا کہ دنیا بھر میں ایک نیوکلیئر پاور پلانٹ کے حوالے سے بنیادی خدشات ایندھن کے فضلے کو جمع اور ضایع کرنے کے حوالے سے ہوتے ہیں، چنانچہ ماحولیاتی اثرات کے تجزیے میں اس کو ذخیرہ کرنے اور ضایع کرنے کے بارے میں ایک واضح بیان موجود ہونا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک نیوکلیئر پاور پلانٹ کو بند کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ اور ایک نیوکلیئر پاور پلانٹ کو بند کرنے پر بھی اتنے اخراجات آتے ہیں، جس قدر کہ اس کی تنصیب پر۔

آرکیٹیکٹ عارف بلگامی نے کراچی کے اردگرد زلزلوں کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور کہا کہ 1945ء میں آنے والا زلزلہ ریکٹر اسکیل پر 8.1 کی شدت کا تھا، اور اس کا مرکز کراچی کے مغرب میں تقریباً 250 سے 350 کلومیٹر پر واقع تھا، تاہم اس کے ساتھ ساتھ سونامی سے بھی کراچی متاثر ہوا تھا۔

اس ورکشاپ کے مقررین میں پاکستان فشرفوک فورم اور اسٹرینتھننگ پارٹیسیپیٹری آرگنائزیشن کے رہنما شامل تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں