راحت علی: ایک نامناسب فیصلہ

05 فروری 2015
راحت علی کو جنید خان کے متبادل کے طور پر بلا لیا گیا ہے —اے ایف پی/فائل
راحت علی کو جنید خان کے متبادل کے طور پر بلا لیا گیا ہے —اے ایف پی/فائل

پاکستان کرکٹ بورڈ کے منتخب کردہ ورلڈ کپ اسکواڈ میں کچھ سرپرائز بھی ہیں۔

فواد عالم جنہوں نے گذشتہ سال کافی اطمینان بخش کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا، انہیں جانے کس کے لیے جگہ بنانے کے لیے ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیا۔

لیکن آج تو سرپرائز زیادہ ہی ہو گئے ہیں۔

راحت علی کو انجری کے شکار جنید خان کی جگہ لینے کے لیے طلب کر لیا گیا ہے۔ راحت علی نے آج تک صرف ایک ہی ون ڈے میچ کھیلا ہے، وہ بھی سری لنکا کے خلاف 2012 میں، اور تب سے وہ ٹیم میں جگہ بنانے میں ناکام رہے ہیں۔

بورڈ سے پوچھنا چاہیے کہ:

جب ایک کھلاڑی ریگولر ون ڈے اسکواڈ میں بھی جگہ بنانے کے قابل نہیں تھا، تو اسے کیسے جنید خان کی جگہ لینے کے لیے بہترین انتخاب قرار دیا گیا جو کہ ایک کمزور بولنگ اٹیک کی آخری امید تھے؟

پڑھیے: یونس خان! بس اب بہت ہو چکا

اس طرح کے فیصلے نہ صرف میرٹ کی خلاف ورزی ہوتے ہیں، بلکہ ڈریسنگ روم میں بھی شکوک و شبہات کو جنم دیتے ہیں۔

نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلی جانے والی حالیہ سیریز نے پاکستان کے کمزور بولنگ اٹیک کی قلعی کھول دی ہے۔ حالیہ کارکردگیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ بولنگ لائن پاکستان کرکٹ کی تاریخ کی بدترین بولنگ لائن ہے۔

فیصلے کون کر رہا ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔

اس طرح کے بولنگ اٹیک کے بعد کیا مصباح کو ورلڈ کپ میں کسی معجزے کی امید ہے؟

تجربہ کار بولروں جیسے کہ سعید اجمل، عمر گل، اور جنید خان کی عدم دستیابی ایک کڑے وقت میں قومی ٹیم کے لیے مشکلات کا سبب ہے۔

اور ان مشکلات سے نمٹنے کے لیے سلیکشن کمیٹی نے ان بولروں کا انتخاب کیا ہے جو کہ مضبوط حریفوں کے خلاف شاید ہی اچھا کھیل پیش کر سکیں، میچ جیتنا تو دور کی بات ہے۔

بورڈ سے پوچھا جانا چاہیے کہ محمد سمیع، سہیل تنویر، یاسر عرفات، اور عبدالرزاق جیسے بولروں کو کیوں منتخب نہیں کیا گیا؟

ذوالفقار بابر اور رضا حسن پر کیوں غور نہیں کیا گیا؟

سہیل خان اور یاسر شاہ کو اسکواڈ میں لینے کی کیا ضرورت تھی اگر انہیں سائیڈ پر ہی رہنا تھا۔

یہ جاننا نہایت ہی اہم ہے کہ ورلڈ کپ جیسے ٹورنامنٹ کوئی تجربے کرنے کی جگہ نہیں ہوتے۔ یہاں پر تجربے کے ساتھ ہی آنا چاہیے۔

ہاں ان کھلاڑیوں کو بہت دفعہ موقع دیا جا چکا ہے، لیکن جب آپ مشکلات میں گھرے ہوں، تو آپ کو میدانِ جنگ میں ناتجربہ کار لوگ نہیں بھیجنے چاہیئں۔

جانیے: کرکٹ ورلڈکپ 2015 کے دلچسپ اعداد و شمار

سمیع، تنویر، عرفات، اور رزاق موجودہ صورتحال میں شاید اپنی ٹاپ فارم میں نہ ہوں، لیکن ان کے تجربے، اور کسی بھی حریف کے چھکے چھڑا دینے کی ان کی قابلیت پر شک نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انہیں کھیل کا وسیع تجربہ اور سمجھ ہے۔

اگر پاکستان کے ڈومیسٹک ون ڈے ٹورنامنٹس کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے، تو راحت لسٹ میں ساتویں نمبر پر آتے ہیں۔ صدف حسین اور سمیع دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ اعزاز چیمہ کے بارے میں کیا خیال ہے جن کی اوسط 14 ون ڈے میچز میں 25.78 ہے۔

حال ہی میں ڈان نے جنید خان کے ممکنہ متبادل پر ایک عوامی سروے کیا تھا۔ دیے گئے آپشنز میں سہیل تنویر، عمران خان، شعیب ملک، اور رضا حسن تھے۔

8867 جوابات میں سے 33.57 فیصد نے سہیل تنویر کہا، 28.12 فیصد نے عمران خان، 24.18 فیصد نے شعیب ملک، اور 14.13 فیصد نے رضا حسن کو جنید خان کا بہترین متبادل قرار دیا۔

مزید پڑھیے: 'پاکستان کرکٹ کا اللہ ہی حافظ'

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کرکٹ کی کم سے کم معلومات رکھنے والا شخص بھی ورلڈ کپ لیے پی سی بی سے زیادہ بہتر 15 رکنی ٹیم بنا سکتا تھا۔

صرف وقت ہی بتائے گا کہ انتخاب میں ترجیحات سے کام لیا گیا تھا یا نہیں کیونکہ راز کبھی بھی راز نہیں رہتا، خاص طور پر پاکستان میں۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

saqlain Feb 05, 2015 08:12pm
yaar main sab say puchta hoon, kay hey tujarba kaar khalari ise worldcup say pehly 2 world cup main thay to team pool mach bee jeet nahi saki thi. >>>>>??????????????????
faisal Feb 05, 2015 08:16pm
jab junaid , saeed, hafeez umer gul na ho to ese me mere khyal se rahat ek achi option he. oneday agr ek hi khaila he to tests to khail chuke hain. orjen mutabadal ka zekr kia gia he un me Razzaq ko wapas lane ki ummeed nahi rakhni chahie afsaran se... or mere khyal se razaq jo last mtach khela tha or jo kharab perforamnce ki thi to media ne bhi us pr bhrpoor tanqeed ki thi k ese ab baher bthaya jae.. baqi jo nae na naam yain un rahat ali acha he etna bura bhi nahi
ناصر Feb 06, 2015 10:43am
میرا خیال ہے کہ راحت علی کو ضرور موقع دیا جاتا لیکن عین اس وقت اس کو سکواڈ کا حصہ بنانا کہ جب ولڈرکپ میچز میں بالکل گنتی کے دن رہ گئے ہیں اس وقت اُ س کو سکواڈ میں شامل کرانا اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان ٹیم منیجمنٹ کوئی بھی کام منصوبہ بندی سے نہیں کرتی ۔باقی یہ بات کہ عبدالرزاق نے آخری میچ میں اچھی پرفارمنس نہیں کی اس لئے اس کو سکواڈ میں شامل نہیں کرتے ، تو میرے خیال میں کسی کھلاڑی کو مجموعی کارکردگی پر نظر رکھ کر اس کے متعلق فیصلہ کیا جائے ، نہ کہ صرف ایک میچ کی وجہ سے اس کی کیرئر کو اختتام دی جائے ، اور یہی وہ بنیادی نسخہ ہے جو پاکستان ٹیم منجمینٹ کے پاس ہے کہ جب ایک دو میچوں میں کوئی کارکردگی کی تو سکواڈ میں مضبوط سیٹ مل جاتا ہے لیکن اگر کہیں ایک دن کچھ نہ کیا تو پھر باہر کرنے کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں ۔