تہذیب اور مذہب کا تصادم

13 فروری 2015
اس غیر اہم میگزین کی اشاعت پہلے صرف پینتالیس ہزار تھی اور حملوں کے بعد ستر لاکھ سے بڑھ گئی ہے — اے پی
اس غیر اہم میگزین کی اشاعت پہلے صرف پینتالیس ہزار تھی اور حملوں کے بعد ستر لاکھ سے بڑھ گئی ہے — اے پی

ہماری آبائی روایات اپنے اندر بے پناہ حکمت لیے ہوئے ہیں مگر عالمگیریت (globalization) کے اس عفریت نے مقامی اور آبائی روایات کو تہذیب کے دلفریب بیانیے سے خیرہ خیرہ کر دیا ہے اور آج کے جدید انسان کو روایتی حکمت کے سرچشموں سے دور کر دیا ہے۔ ایسا جدید مشینی استعماری قوتوں نے اپنی معاشی بقا کے لیے کیا ہے۔ اس بنیادی معاشی کشمکش نے نئے روپ دھار لیے ہیں اور معشیت کے عالمی اجارہ دار اسے بڑی چاشنی سے نظریاتی کشمکش میں تبدیل کرنے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔

سابق سویت یونین اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے بیچ کئی دہائیوں پر محیط سرد جنگ جب بظاہر اپنے نظریاتی مرحلے سے نکل کر عسکری مرحلے میں داخل ہوئی تو کئی عالمی دانشوروں نے اسے ’نظریے کے خاتمے‘ (end of ideology) سے تعبیر کیا۔ ان کے نزدیک قدیم نظریاتی کشمکش اپنی موت آپ مر گئی اور اس کی جگہ عسکری کشمکش نے لے لی۔ پھر جب 80 کی دہائی کے آخر میں سویت یونین بکھر گیا تو امریکی دفاع سے منسلک سیاسی دانشوروں نے اسے ’تاریخ کے خاتمے‘ (end of history) سے تعبیر کیا۔ ان کے نزدیک دنیا میں ایک ہی نظریہ اور نظام کامیاب ہو گیا اور یوں صدیوں پرانی نظریاتی کشمکشیں دم توڑ گئیں۔ اس دوران ان دانشوروں کو اندازہ نہیں تھا کہ استعماری قوتیں اپنے گماشتوں کے ذریعے ’’لہو گرم رکھنے کا کوئی بہانہ “ تراش رہی ہیں۔

سویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے ساتھ ہی ایک امریکی سیاسی سائنسدان سیموئل ہنٹینگٹن نے ’’تہذیبوں کے تصادم“ (clash of civilizations) کا تصور پیش کیا اور اپنے اس نظریے کے لیے کئی اشارے دیے۔ اس نظریے کو استعماری میڈیا نے خوب بڑھایا چڑھایا اور یوں ’’تہذیبوں کے تصادم“ کا تصور چہار سو پھیل گیا۔ ایک بار پھر دنیا سیاسی طور پر ’’پس جدیدیت“ (post-modernity) سے واپس ’’جدیدیت“ (modernity) کی جانب روانہ ہوگئی۔

جدیدیت کی رو سے طاقتور اقوام مہذب ہیں جبکہ کمزور وحشی۔ لہٰذا یہ مہذب اقوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان وحشی اقوام کو مہذب بنائیں اور ایسا کرنے کے لیے خواہ ان اقوام کو زیر کرنا پڑے تو کر لیا جائے۔ نو آبادیت (colonialism) اسی تصور کا نتیجہ تھی اور اب اس کی ہیئت استعماریت (imperialism) کی ہے۔ گو یورپ اور امریکہ میں بعض حلقے جدیدیت کے اس عفریت پر مسلسل بحث کر رہے تھے مگر باقی دنیا میں کوئی موثر آواز نہ تھی اور نہ اب ہے۔

تہذیبوں کے درمیان تصادم کے اس بیانیے کو مغربی ملکوں میں قتل و بربریت کا کوئی واقعہ بار بار ابھار کر سامنے لاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال ایک غیر ذمہ دار اور بے ہودہ میگزین ’’چارلی ہیبڈو“ سے منسلک کئی کارٹونسٹس کا قتل ہے۔ اس واقعے نے گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد ’’تہذیبوں کے تصادم“ کو ایک بار پھر موضوع بحث بنا دیا ہے۔ اس غیر اہم میگزین کی پوری اشاعت قتل کے اس واقعے سے پہلے صرف پینتالیس ہزار تھی اور اب ان حملوں کے بعد اس کی اشاعت ستر لاکھ سے بڑھ گئی ہے۔ یوں ایک بار پھر استعماری معیشت نے میدان مار لیا اور اس کشمکش سے ہمیشہ کی طرح خوب معاشی فائدہ حاصل کیا۔

ہماری بدقسمتی کہ ہمارے نظریات سازوں نے سویت یونین اور امریکی کشمکش کے دوران ’’اہلِ کتاب“ کا ساتھ دیا۔ وہ ہمیں یا دنیا کو کوئی متبادل نظریہ یا نظام نہ دے سکے بلکہ ’’اہلِ کتاب“ کے پلڑے میں گر گئے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں تھا۔ چونکہ دونوں ’’جدیدیت“ میں جی رہے تھے اس لیے ان کا میلاپ فطری تھا۔ اب جبکہ سویت یونین نہیں رہا تو یہ سابقہ حلیف حریف بن گئے یا بنا دیے گئے اور یوں سیاسی طاقت جو کہ معاشی طاقت کے لیے لازم ہے، کے حصول میں جُت گئے۔ وہ "تہذیب“ کا بیانیہ استعمال کرنے لگے اور یہ ’’مذہب“ کے بیانیے کو۔ ان کے بیانیے کو عوام میں پذیرائی دلوانے کے لیے وہاں چارلی ہیبڈو جیسے شاطر اور بے وقوف ہمیشہ موجود رہے اور یہاں گرتی حکومتیں، فرسودہ انتظامیہ اور بے پناہ بد عنوانی ان کے ’’جنتِ گم گشتہ“ کے وعدے کو پروان چڑھاتی رہی۔

انہی لوگوں نے مغرب اور اسلام کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیا۔ ایسا جدیدیت کے شکار ان دونوں فریقین نے سیاسی اور معاشی فائدے کے لیے کیا۔ مگر مسلم ریاستوں میں جب یہی لوگ سیاسی طاقت کے حصول میں رائے شماری کے طریقوں سے کامیاب نہ ہوسکے تو انہوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا اور اپنے ہر اقدام کو عوام میں مقبول بنانے یا پھر عوام کو ابہام میں رکھنے کے لیے انہوں نے اپنے ہی حلیفوں کو دشمن پیش کر کے ’’اسلام خطرے میں ہے“ اور ’’ساری دنیا اسلام کو ختم کرنے کے درپے ہے“ جیسے جذباتی نعرے استعمال کیے۔ پاکستان کے ایک مشہور مذہبی رہنما کی ’’قتال فی سبیل اللہ“ والی منطق کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو بات آسانی سے سمجھ آتی ہے۔

ان دونوں گروہوں نے پوری دنیا کو یرغمال بنایا ہوا ہے مگر مسلم معاشرے زیادہ گھاٹے میں ہیں۔ ادھر کے انتہا پسند سیاسی طاقت کے حصول کے لیے اپنوں کا خون بہانے میں مصروف ہیں جبکہ اُدھر کے وہ انتہا پسند اپنے ملکوں میں سیاسی نظام ہائے کے استحکام اور خوشحالی کی وجہ سے ایسا کچھ نہیں کرسکتے۔

تہذیبوں کے اس تصادم میں دونوں اطراف کے ’’جدیدیت“ پسند سرگرم ہیں۔ ہم اب بھی اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ ہمارے یہاں کے یہ انتہا پسند مذہبی ہیں اور جدیدیت (جسے ہم عوامی سطح پر صرف مغرب تک محدود کرتے ہیں اور زندگی بسر کرنے کے چند محدود طریقوں پر محیط گردانتے ہیں) سے بہت دور ہیں۔ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ دونوں طرف کے یہ انتہا پسند ابھی تک پس جدیدیت (post modernity) کی فکر میں داخل نہیں ہوئے۔ دونوں طرف کے یہ لوگ اپنے اپنے نظریات اور نظاموں کو نہ صرف مکمل بلکہ حرفِ آخر سمجھتے ہیں۔ یعنی دونوں سمجھتے ہیں کہ جو ان کا نظریہ یا طور طریقہ ہے وہ دنیا میں نہ صرف اعلیٰ ترین بلکہ ناقابل تغیر بھی ہے۔ جبکہ پس جدیدیت کی فکر تکثیریت (pluralism) پر یقین رکھتی ہے اور تمام اقوام کے نظریات، روایات اور ثقافتوں کو انسانی سمجھ کر قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

نقصان انسانوں کا ہی ہو رہا ہے، خون انسانوں کا ہی بہایا جا رہا ہے اور زندگی انسانوں کی ہی زندان بن گئی ہے۔ دونوں اطراف کے ان انتہا پسندوں نے تصادم کے اس بیانیے کو سنبھالا ہوا ہے اور بڑی کامیابی سے اسے پروان چڑھا رہے ہیں۔ ایسےمیں مکالمے کی اگر گنجائش نہیں رہی تو ضرورت اور بڑھ گئی ہے۔ اس پس جدید دنیا میں دونوں طرف کے یہ انتہا پسند پوری دنیا کو زیر تو نہیں کر سکتے لیکن اس کا امن تباہ ضرور کر سکتے ہیں۔

ہماری کلتوری روایات میں کسی بھی تنازع کے حل کے لیے آخر دم تک جرگوں اور یَرَکوں (مکالموں) کو واحد ذریعہ گردانا جاتا ہے۔ اسی مقامی اور آبائی حکمت کو بروئے کار لا کر عالمی تنازعات کو بھی حل کیا جا سکتا ہے۔ ایسے میں مکالمے کی ضرورت ہر سطح پر مزید بڑھ جاتی ہے اور اسی سے ہی امن آ سکتا ہے۔ ہمارے لکھاریوں اور دانشوروں کو مکالمے پر زور دینا ہے اور ایسے کسی تصادم کا حصہ نہیں بننا جسے یہ دونوں فریقین اگے بڑھاتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں