میں صرف ایک پاکستانی (نہیں) ہوں

اپ ڈیٹ 23 فروری 2015
طرح طرح کی زبانیں اور ثقافتیں اس ملک کے لیے نعمت ہیں، اور اس ملک کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہیں  — اے ایف پی
طرح طرح کی زبانیں اور ثقافتیں اس ملک کے لیے نعمت ہیں، اور اس ملک کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہیں — اے ایف پی

دنیا میں بہت سی چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ compatible یعنی ہم آہنگ ہیں، جبکہ بہت سی چیزیں نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر ایک میز یا تو گول ہوگی، یا مربع، یا مثلث یا کسی اور شکل کی۔ لیکن ممکن نہیں کہ یہی میز بیک وقت گول بھی ہو اور مربع بھی۔ پھر دیکھا جائے تو بہت سی چیزوں میں کئی خصوصیات مشترک ہیں۔ پانی کو دیکھئے، جس شکل میں ڈھالا جائے، ڈھل جائے۔ اب آتے ہیں حضرت انسان کی طرف۔ ہم ایک وقت میں یا جوان ہو سکتے ہیں یا بوڑھے۔ بہن ہو سکتے ہیں یا بھائی، ماں ہو سکتے ہیں یا باپ۔ مگر دوسری طرف ہم بیک وقت بیٹے بھی ہیں اور بھائی بھی۔ اسی طرح آپ ایک ہی وقت میں باپ بھی کہلا سکتے ہیں اور بھائی بھی، خاوند بھی اور دوست بھی۔ یہ سب آپ کی شناخت کا حصہ ہے۔

اب اگر کوئی ضد کرے کہ آپ یا تو اپنی بیوی کے شوہر ہیں یا اپنی بہن کے بھائی، اور بیک وقت دونوں نہیں ہوسکتے، تو ایسے شخص کے سامنے کیا جواز پیش کیا جاسکتا ہے؟ اسی طرح اگر یہ پوچھا جائے کہ بتائیں آپ اپنے ابو سے زیادہ پیار کرتے ہیں یا امی سے؟ یا پوچھا جائے کہ آپ کو دائیں آنکھ سے دیکھنے میں زیادہ دلچسپی ہے یا بائیں آنکھ سے؟ حضور، کیا میں ایک ہی وقت میں دونوں آنکھوں سے پیار نہیں کر سکتا؟ اور اگر ایک آنکھ سے پیار کروں تو کیا دوسری آنکھ کے لیے میرے جذبات ختم یا کم ہوجائیں گے؟ یہ تو ایسا ہے کہ بچپن میں ہم یہ کہہ کر امی سے ناراض ہوجایا کرتے تھے کہ اس نے بڑے بھائی کا بوسہ کیوں لیا؟ کیونکہ ہمیں گمان تھا کہ ایسا کرنے کے بعد امی کی محبت ہمارے لیے پہلے کی نسبت قدرے کم ہوگئی ہے۔

پڑھیے: بلوچ نیشنلزم میں زبان کا کردار

تو پھر بار بار یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ آپ نہ پنجابی ہیں، نہ بلوچ، نہ پٹھان، نہ سندھی اور نہ ہزارہ، بلکہ آپ صرف اور صرف پاکستانی ہیں۔ بھائی اگر میں بلوچ ہوں تو کیا میں پاکستانی نہیں ہوسکتا؟ بلوچ ہونا بھی میری شناخت ہے اور پاکستانی ہونا بھی۔ میں دونوں ہوں۔ مجھے دونوں یکساں طور پر عزیز ہیں۔ اب برائے مہربانی یہ ضد مت کریں کہ جناب یہ بتائیں کہ آپ پہلے پاکستانی ہیں یا بلوچ؟ پہلے اور دوسرے کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ یہ دونوں شناخت میری دونوں آنکھوں کی طرح مجھے یکساں طور پر عزیز ہیں۔

مغربی ممالک کو دیکھیے۔ وہاں کے لوگ اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح اپنے لوگوں میں پیار، محبت اور خلوص کے جذبات زیادہ سے زیادہ ابھارے جائیں۔ اس کوشش میں وہ اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ اب وہ ہر انسان کو اپنا سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں: فلاں بندہ ہندوستانی نژاد برطانوی ہے، یا پاکستانی نژاد آسٹریلیائی ہے۔ مگر اب ہمیں دیکھیے۔ ہمارے ملک میں برسوں سے صومالیہ، سوڈان اور دوسرے ممالک کے لوگ آباد ہیں۔ لیکن اگر آپ کسی سے کہیں گے کہ یہ سوڈانی نژاد پاکستانی ہیں اور ان کے اپنے حقوق اور فرائض ہیں، تو آپ پر فوراً پاگل پن کے فتوے لگنے شروع ہوجائیں گے۔

امریکہ میں ایک بہت بڑا علاقہ ہے، جو چائنا ٹاؤن کے نام سے معروف ہے، جہاں چینیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ اگرچہ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ چین اور امریکہ کے درمیان چھتیس کا آنکڑہ ہے، اس کے باوجود امریکیوں نےخلوص دل سے چینوں کو اپنایا ہے۔ اسی طرح چائنا ٹاؤن کے لوگ اپنے آپ کو دل و جان سے امریکی سمجھتے ہیں۔ بالفرض اگر کوئی ہندوستانی باشندہ... استغفراللہ۔ چھوڑیے اس بات کو۔ ویسے بھی میری پچھلی مثال دیکھ کر کچھ لوگ اب تک مجھ پر امریکی جاسوس ہونے کا فتویٰ لگا ہی چکے ہوں گے۔

بہرحال، بات کہاں سے کہاں نکل آئی۔ میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ایک سال پہلے کی بات ہے۔ کمپنی کی طرف سے ہمیں ایک گاؤں میں بھیجا گیا۔ گاؤں بہت خوبصورت تھا۔ ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ ہر جگہ سبز رنگ دکھائی دیتا تھا۔ ہر طرف پودے، درخت، جنگلات سے بھرے سرسبز پہاڑ، یہاں تک کہ ہر طرف سبز پھول کھلے تھے۔ سارا گاؤں بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ گیسٹ ہاؤس میں رہنے کی بکنگ کمپنی نے کروائی تھی۔ گیسٹ ہاؤس کا مالک بہت خوش اخلاق تھا۔ سب ملازم اسے "میاں" بلاتے تھے۔ میاں صاحب اہلِ زبان تھے (جنہیں پاکستان میں ہم ستمگر "مہاجر" بلاتے ہیں) اور اردو بھی لکھنوی بولتے تھے۔

پڑھیے: اردو زبان کے بارے میں چند غلط تصورات

وہ احمد فراز ماما کہتے ہیں نا کہ "بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں۔" وہ بولتے رہیں اور آپ سنتے رہیں، جیسے کانوں میں دھیمی آواز میں ستار بج رہا ہو۔ میاں صاحب نے بتایا کہ یہاں موبائل فون نہیں چلتے۔ سگنل نہیں آتے۔ البتہ چونکہ جگہ بہت پرسکون اور آرامدہ تھی لہٰذا کافی اچھا محسوس ہو رہا تھا۔ ہم صبح آفس گئے تو پتا چلا کہ یہاں صرف لکھنوی حضرات کو ہی ملازم رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے تو یہ انعامی بانڈ سے کم نہیں تھا۔ سوچا کام سیکھیں یا نہ سیکھیں، اردو تو ضرور سیکھ لیں گے۔

سب کچھ میری خواہش کے عین مطابق چل رہا تھا۔ مگر ایک مسئلہ یہ آیا کہ گیسٹ ہاؤس پر کھانے میں صرف بریانی دیتے تھے۔ دوپہر کے کھانے میں بھی بریانی، اور رات کے کھانے میں بھی بریانی۔ ایسا نہیں کہ ہمیں بریانی پسند نہیں۔ کون گستاخ پاکستانی ہوگا جو بریانی کی شان کو تسلیم نہ کرے، اور میاں صاحب کے آشپز بابو (باورچی) بھی بریانی مزے دار پکاتے تھے،

مگر صاحبو! ایک دن، دو دن، تین دن، آخر کب تک؟ اوپر سے ہمیں یہ بتایا گیا کہ گاؤں میں ایک ماہ کے بجائے اب 2 ماہ رہنا ہے۔ لو جی، "سنگ بہ پائے لنگ۔"

آخر ایک شام ہم نے یہ ارادہ کر لیا کہ مغرب کو چہل قدمی کے لیے نکلیں گے اور راستے میں کسی اچھے ریستوران میں کھانا بھی کھائیں گے۔ اصل بات یہ تھی کہ ہمیں گھر کی یاد بہت آ رہی تھی۔ شادی کے بعد بیوی بچوں کے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔ ٹھیک ہے ٹھیک ہے ہماری شادی ابھی نہیں ہوئی تھی مگر غیر شادی شدہ زندگی میں ہزاروں عجیب و غریب خیالات تنہائی میں چین سے رہنے نہیں دیتے۔ بہرحال، با دلِ ناخواستہ ہم باہرنکل آئے۔ اب تو یہ سارا سرسبز ماحول دماغ کو برا لگنے لگا۔ بمشکل ہمیں ایک ریستوران نصیب ہوا۔ وہاں گئے، تو ہماری قسمت، وہاں بھی بریانی۔

پڑھیے: پکوانی کہانی- سندھی بریانی

جی تو چاہتا تھا کہ بریانی کے موجد اور بانی کے امی جان کی شان میں خوب لمبا قصیدہ پڑھیں، مگر پھر سوچا کہ یہ شاعروں اور جاسوسوں کا شیوہ نہیں۔ خیر، میز پر بیٹھے تو سارے لوگ لکھنوی اردو ہی بول رہے تھے۔ ہم تو "تئیں تئیں" سے تنگ آ گئے تھے۔ اپنے تئیں یہ، اپنے تئیں وہ! ارے بھاڑ میں جائے یہ "تئیں شئیں"۔ زبان کو اس قدر مشکل بنانے کی کیا ضرورت ہے بھائی۔ سیدھی اردو بولا کرو قبلہ۔ مگر یہ باتیں ہم سناتے بھی تو کس کو؟ بس بڑبڑا رہے تھے کہ اچانک...

صائمہ آگئی۔ صائمہ ہمارے آفس میں ہی کام کرتی تھی۔ اس آفس میں اگر کوئی حسین لڑکی تھی تو بس وہی تھی۔ سارے چھچھورے اس کے آگے پیچھے گھومتے تھے، جن میں ہم خاکسار بھی شامل تھے۔ سلام کے بعد میرے سامنے بیٹھ گئی۔ محترمہ کا چہرہ ایسا گلابی کہ گلاب بھی شرما جائے۔ مگر کپڑے ہرے پہنے تھے۔ افسوس! کاش کسی اور رنگ کے کپڑے پہن لیتیں۔ خیر ہم نے ساتھ میں کھانا کھایا۔ کھانا تو نہیں کہہ سکتے کیونکہ اب بریانی ہماری ڈکشنری میں کھانے کے زمرے میں نہیں آتی تھی۔ بہت ساری باتیں کیں۔

کھانا ختم ہوا تو دیکھا کہ صائمہ کے گلابی رخسار پر چاول کا ایک دانہ چپکا ہوا ہے۔ ہم نے سوچا یہی وہ منظر ہے جب ہیرو اہنی زندگی کو خطرہ میں ڈال کر پیار سے ہیروئن کے گالوں کو چھو کر چاول کے دانے کو ہٹاتا ہے۔ اور پھر دونوں میں پیار ہوجاتا ہے۔ ایسی فلمیں تو ہم کئی مرتبہ دیکھ چکے ہیں۔ چاول ہٹانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ جو شخص جوانی میں چھچھورے پن سے محروم رہا ہو، اس سے کیا گلہ! دس منٹ شش و پنج میں مبتلا رہے۔ ہاتھ بڑھاتے اور ڈر سے واپس کھینچ لیتے۔ صائمہ بولتی جا رہی تھی۔ آخر سورۂ یاسین پڑھ کر ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اچانک امی نے نیند سے جگا دیا اور کہا صبح ہو گئی ہے، جاؤ بیٹا دودھ لے آؤ۔ امی بھی ناں! 2 منٹ اور صبر کر لیتیں تو کیا قیامت آجاتی؟ خیر، امی تو امی ہیں۔

محترم قارئین! یہ سارا ماجرا سنانے کا مقصد یہ تھا کہ آپ بھی تصور کر سکیں، کیسا ہوگا اگر ہماری دنیا میں ہر چیز ایک ہی رنگ میں دستیاب ہو۔ سارے لوگ ایک ہی ڈیزائن کے کپڑے پہنیں؟ صرف ایک ہی زبان بولی جاتی ہو؟ ایک ہی قسم کی موسیقی بجتی ہو؟ ایک ہی قسم کا کھانا کھایا جاتا ہو؟ ایک ہی طرح کا پھل، ایک ہی قسم کا پھول ملتا ہو وغیرہ وغیرہ؟ زندگی پھیکی پڑ جائے گی، بلکہ بے رنگ ہوجائے گی کیونکہ کوئی اور رنگ ہوگا ہی نہیں جس سے موازنہ کیا جائے۔

گیلری: سندھی 'اجرک ٹوپی' ڈے

ہم سب یکسانیت کا شکار ہو کر مر جائیں گے کیونکہ زندگی تغیر کا نام ہے۔ زندگی جستجو کا نام ہے، زندگی سیکھنے اور سکھانے کا نام ہے۔ زندگی دریافت کرنے کا نام ہے۔ لہٰذا ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے ملک میں کئی قسم کے پھل، پھول، کھانا، زبان، موسیقی، کلچر، مذہب اور قبیلے موجود ہیں۔ یہ ہمارے لیے نعمت ہیں، آفت نہیں۔ لہٰذا اگر ہمیں یہ کہہ کر قید میں رکھا جائے کہ آپ صرف پاکستانی ہیں اور صرف اردو بولیں گے اور کوئی زبان نہیں، صرف شلوار قمیض پہنیں گے اور کوئی پوشاک نہیں، صرف بریانی کھائیں گے اور کوئی دوسرا کھانا نہیں، صرف مسلمان ہیں اور کسی دوسرے مذہب سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے، صرف کالے رنگ کے ہوں گے اور کسی رنگ کے نہیں، تو ہمارا دم گھٹنے لگے گا۔ جس طرح شروع میں کہہ چکا ہوں کہ ہم ایک پاکستانی کے ساتھ ساتھ ایک میمن بھی ہو سکتے ہیں، ایک سنی بھی، ایک سندھی بھی ہو سکتے ہیں، ایک شیعہ بھی، ایک مکرانی بھی، ایک کمیونسٹ بھی، ایک بنگالی بھی، ایک عیسائی بھی، ایک یہودی بھی (جی ہاں پاکستان میں یہودی بھی موجود ہیں)، اور بہت سارے رنگ اور نسل کے ہو سکتے ہیں۔

ہم سب کا اس ملک میں وہی حق ہے جو ہجرت کر کے آئے ہوئے لوگوں کا ہے، جو شہید ہونے والوں کا ہے، جو بنگلوں میں رہنے والوں کا ہے، جو پہاڑوں میں زندگی بسر کرنے والوں کا ہے، جو ایک خدا کو ماننے والوں کا ہے، جو خدا کو نہ ماننے والوں کا ہے، جو حق خیبر پختونخواہ کے سر سبز پہاڑوں کا ہے، جو حق بلوچستان کے معدنیاتی پہاڑوں کا ہے، جو سندھ کی تازہ مچھلیوں کا حق ہے، جو پنجاب کے صحتمند مویشیوں کا حق ہے۔ ہم سب کے اس ملک میں خاص حقوق ہیں۔ ہم سب پاکستانی ہیں اور پاکستانی کے ساتھ ساتھ بہت کچھ اور بھی ہیں۔ اس لیے میں صرف ایک پاکستانی نہیں ہوں۔

تبصرے (2) بند ہیں

anees Feb 24, 2015 10:30am
very well written
Nadeem Feb 24, 2015 12:48pm
There is obviously no harm in distinguishing yourself as a e.g. Punjabi and Pakistani. However, problem comes when people associate themselves with their province and language and not with Pakistan. In our Pakistan, now there is no place for Pakistaniat and Urdu. People like to be called Sindhis/Punjabis/Pakhtoon/Baloch/Mohajir etc. It is the duty of Federal government to keep a balance between local colors and federal interests. Our government has failed in this objective. In Pakistan people glorify their local language / culture so much that it is hurting Pakistan and its ideology. Pakistan was created for Muslims irrespective of caste, .creed, color and language To be proud of your culture /language is good but not at the expense of Pakistan. The