کسی فنکار کی سوانح اور اس کے سوانح نگار کے درمیان دکھائی نہ دینے والا ایک احساس ہوتا ہے۔ یہ احساس دونوں کو ایک بندھن میں باندھے رکھتا ہے۔ استاد نصرت فتح علی خان کے فن پر بہت لوگوں نے لکھا، مگر ان کی زندگی پر سوائے معروف شاعر اور ادیب احمد عقیل روبی کے اور کسی کی کتاب دکھائی نہیں دیتی۔ کبھی کبھار معروف کالم نویس حسن نثار اپنی تحریروں میں استاد نصرت کا ذکر کر دیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں بچپن کے دوست تھے۔ کچھ عرصہ قبل فرانسیسی زبان میں لکھی جانے والی کتاب استاد نصرت فتح علی خان کی زندگی کی باقاعدہ پہلی سوانح حیات ثابت ہوئی جس کا اردو ترجمہ بھی ہوا۔ اس کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہ ایک پیر اور مرید کا روحانی تعلق ہے، جس کی ڈوری تصوف سے بندھی ہوئی ہے۔

چھٹے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ”استاد نصرت فتح علی خان“ کی اردو میں ترجمہ کی گئی اس سوانح حیات کے لیے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس ادبی میلے میں یہ ایک اہم اور دلچسپ تقریب تھی۔ اس کی خاص بات تقریب میں استاد نصرت فتح علی خان کے فرانسیسی سوانح نگار ”پیئر آلیں بو“ کی موجودگی تھی، جن کا استاد نصرت فتح علی خان سے ان کی پیشہ وارانہ زندگی میں بھی گہرا تعلق تھا۔ وہ خود موسیقی پر ڈاکٹریٹ مکمل کر چکے ہیں اور صوفی موسیقی کے عالمی منظرنامے پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔

پڑھیے: وہ جو ہم میں نہ رہا

2008 میں انہوں نے فرانسیسی زبان میں استاد نصرت فتح علی خان کی سوانح حیات لکھی، جس کا اردو میں ترجمہ شوکت نیازی نے کیا۔ سفارت خانہ فرانس کے تعاون سے سنگ میل پبلی کیشنز لاہور نے 2014 میں اسے شائع کیا۔ اب پیئر آلیں بو انگریزی میں بھی اس کتاب کو لکھ رہے ہیں، جس کی اشاعت رواں برس متوقع ہے۔ اس کتاب کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے براہِ راست فرانسیسی زبان سے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے جو مترجم شوکت نیازی کی فنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

استاد نصرت فتح علی خان کی سوانح حیات ”قوالی کا پیام رساں“ کے دیباچے میں مصنف پیئر آلیں بو اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”ٹوکیو میں نغمہ سرا مہاتما بدھ، تیونس میں انسانی سنگیت کا جوہر، لاس اینجلس میں جنت کی آواز، لندن میں اسلام کی روح، پیرس میں مشرق کا پاواروتی، اور لاہور میں شہنشاہِ قوالی کے القاب سے نوازے جانے والے، خدا کی محبت میں دیوانے، خدا کے عاشق، اس”عوامی گائیک“ نے تقریباً ڈیڑھ دہائی میں ہی عالمگیر شہرت کمائی اور پھر اپنے وقت سے پہلے ہی اپنے پیچھے ہزاروں نقشِ پا چھوڑے چلا گیا۔“

پیئر آلیں بو محقق، مشیر برائے فنون لطیفہ اور صحافی کے طور پر عرصہ دراز سے مشرقی صوفی فنون اظہار کی ترویج کو اپنا مرکز نگاہ بنائے ہوئے ہیں۔ انہیں استاد نصرت فتح علی خان کے ساتھ کئی سال تک کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران انہوں نے نصرت کے متعدد غیر ملکی دورے ترتیب دیے اور پاکستان میں استاد نصرت فتح علی خان سے باقاعدگی سے رابطے میں رہے۔ فی الوقت یہ فرانس میں آرٹس نوماڈ (فنونِ صحرانورد) نامی عالمی موسیقی پر تحقیق اور فروغ کے ایک بین الاقوامی ادارے میں آرٹس ڈائریکٹر کے منصب پر فائز ہیں اور جنوب مشرقی ایشیا میں متعدد یونیورسٹیوں کے ساتھ بھی رابطے میں رہتے ہیں۔ پاکستان سمیت برصغیر کی صوفیانہ اور روحانی موسیقی پر متعدد مضامین، سی ڈیز کے تعارفی کتابچوں اور تحقیقی مقالوں کے مصنف ہیں۔

ہمیں جیسے ہی موقع ملا، تو ہم نے اسے غنیمت جانتے ہوئے مصنف پیئر آلیں بو سے گفتگو کی۔ جب ہم نے انہیں اپنا تعارف بحیثیتِ صحافی کروایا تو انہوں نے استاد نصرت فتح علی خان کی زندگی، فن اور برصغیر میں رائج صوفی ثقافت پر تفصیلی اظہار خیال کیا۔ ان کہنا تھا ”میں جنوبی ایشیا میں 35 برس سے آتا جاتا رہا اور یہاں کی روایات اور ثقافت کے ساتھ ہی میری بھی نشونما اور تربیت ہوئی۔ یہاں کی صوفی موسیقی نے مجھے اپنے لیے منتخب کیا، یہ تمام راگ، تالیں اور بندشیں میرے دل کی آواز ہیں۔ ان آوازوں سے مجھے عشق ہو گیا اور میں اب بھی اس میں گرفتار ہوں۔ اس لیے چاہے نصرت ہوں یا عابدہ پروین اور دیگر آوازیں ہوں، سب مجھے اپنی طرف راغب کرتی ہیں۔ البتہ سب سے زیادہ مجھے نصرت کی شخصیت اور آواز نے اپنی جانب متوجہ کیا، کیونکہ ان کی صرف آواز میں ہی جادو نہیں تھا، بلکہ وہ اسٹیج پر گائیکی کے دوران جس اعتماد کا مظاہرہ کرتے تھے، وہ بھی قابل تحسین تھا اور صرف یہی نہیں، بلکہ اپنی عام زندگی میں بھی وہ ایک حساس دل کے مالک، سچے اور اپنے کام سے مخلص فنکار تھے۔ عاجزی ان کی شخصیت کا سرمایہ تھی۔ مجھے نصرت کی ان خوبیوں نے ان کا گرویدہ بنا دیا۔“

مزید پڑھیے: کوک اسٹوڈیو: ساؤنڈ آف نیشن

پیئر آلیں بو پہلی مرتبہ 1995 میں فرانس میں استاد نصرت فتح علی خان کے کانسرٹ کے دوران ہی ان کی عظمت اور شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو گئے تھے۔ کتاب کے مصنف استاد نصرت سے اولین ملاقات کے بارے میں اپنے احساسات رقم کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”خزاں کی ایک صبح توغ (Tours) کے ریلوے اسٹیشن پر سومور (Saummur) کا پلیٹ فارم۔ یہیں پر پیرس کے تھیٹر دلاویل کا ”نغمہ سرا مہاتما بدھ“ اس ٹرین کے انتظار میں تھا، جو اسے اس کے سازندوں کے ساتھ فونتے ورود (Fontevraud) کی خانقاہ کی جانب لے جاتی، جہاں اسے اس سال فرانس میں اپنا آخری کنسرٹ پیش کرنا تھا۔ کیسا حسین اتفاق تھا کہ ہم بھی اس کی پیرس آمد سے متجسس اور مخمور اسی خانقاہ کی جانب رواں دواں تھے تاکہ ایک مرتبہ پھر اس کی مسحور کن غنائی سے محظوظ ہوسکیں۔

یہ کنسرٹ کیا تھا، ایک آتش فشاں تھا۔ دھیمے دھیمے متذبذب ابتدائی الفاظ جو رفتہ رفتہ توانائی پکڑتے ہوئے خانقاہ کی تاریکی میں مکالمے کی صورت اختیار کرتے گئے۔ نغمگی کے مختلف احساسات جن کے درمیان غیر متوقع طور پر گائیکی کے شاندار فنی مظاہرے، آنکھوں کو خیرہ کردینے والی خاموشیاں اور نصرت کی شعلہ بار نگاہیں، یہ اس کی شخصیت کا سحر تھا، جو کبھی سامعین کی پہنچ میں ہوتا اور کبھی ان کے جذبات اور احساسات کو کچوکے لگاتا کہیں دورنکل جاتا۔ بہت سال نصرت کے ساتھ متعدد دوروں میں ہمسفر رہنے کے بعد میں آج بھی ان لوگوں میں شامل ہوں، جو ابھی تک اس کی آواز سے ششدر رہ جاتے ہیں۔ اس کے گیتوں کی رمزوں سے ناآشنائی کے باجود ایک بازگشت ہے جو مجھے حیرت زدہ اور متلاطم کردیتی ہے۔

پیئر آلیں بو کا کہنا تھا کہ نصرت کی موسیقی میں شامل صرف سات سر ہی نہیں بولتے بلکہ یہ ہماری روح کی صدا ہے جو بازگشت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اسی لیے وہ آج بھی دنیا میں کروڑوں لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ محبت کے جذبات، جدائی اوراس طرح کے دیگر احساسات ہمارے معاشرے میں بھی پائے جاتے ہیں، اس لیے وہاں بھی تخلیق ہونے والی شاعری اورموسیقی میں اس طرح کا رنگ ہے جس کو آپ صوفی طرز کا رنگ کہہ سکتے ہیں۔ یہی نصرت کی موسیقی کا بھی خاصا ہے۔“

جانیے: صوفیانہ موسیقی کی مقبولیت

انہیں استاد نصرت فتح علی خان کے علاوہ جن آوازوں نے بے حد متاثر کیا ان میں سہراب فقیر، محمدفقیر، عابدہ پروین، سائیں ظہور اور دیگر شامل ہیں۔ صوفیانہ فلسفے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے اپنی زندگی کے بارے میں بھی ہمیں بتایا۔ ”میں نے نصرت کی موسیقی کے ذریعے صوفی فلسفے کو پانے کی کوشش کی ہے۔ میں نے سندھ میں شاہ عبدالطیف بھٹائی کے مزار پر کئی راتیں اور دن گزارے۔ میں نے اس احساس کو دریافت کرنے کی کوشش کی ہے، جو کہیں ہمارے اندر ہی کہیں ہے۔ مجھے بھٹائی کے مزار پر فقیر اور ملنگ ”پیارو سائیں“ کہتے تھے۔ میں نے قونیہ، ترکی میں گھومتے درویشوں کے سلسلے کودیکھا تو مجھے صوفی ازم میں دلچسپی ہوئی، جس کی مزید جستجو مجھے برصغیر تک لے آئی۔ اس کتاب میں آپ کو اس سارے سفر کا تذکرہ بھی پڑھنے کو ملے گا۔“

استاد نصرت فتح علی خان سے عقیدت کی شاندار مثال پیئرآلیں بو ہیں، جن کا یہ تعلق تقریباً چار دہائیوں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے مغربی دنیا میں استاد نصرت فتح علی خان کی سوانح حیات کو قلم بند کر کے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا، کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ ایسے فنکار کے فن کو دنیا کے ہر کونے میں پہنچنا چاہیے۔ نصرت کے ساتھ اتنا عرصہ گزارنے کے باوجود انہوں نے ان کی شخصیت کو ایک پہیلی قرار دیا، جس کے بہت سارے پہلو پوشیدہ ہیں اور ان کا خیال ہے کہ میں تو نصرت کا ایک عقیدت مند ہوں، ایسے اور لوگوں کو ان کی شخصیت اور فن پر لکھنا چاہیے، جیسا کہ احمد عقیل روبی نے لکھا۔ وہ ان کی کتاب کو اس سلسلے میں بہت اہم جانتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ آنے والے وقت میں نصرت پر اس حوالے سے مزید کام کیا جائے۔

اسی خواہش کو دل میں لیے وہ عظیم قوال اور موسیقار کے پیغام محبت کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے کوشاں ہیں۔ قوالی کے پیام رساں کے فن کو مغرب سے مکمل طورپر روشناس کروانے کا تہیہ رکھتے ہیں۔ ایک سچے فنکار کی ریاضت کا یہ بہترین صلہ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں