بغداد میں بم دھماکوں اور فائرنگ سے 25 افراد ہلاک

شائع June 16, 2013

عزیزیہ میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد سیکیورٹی اہلکار جائے وقوعہ کا معائنہ کر رہا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

بغداد: عراق میں اتوار کو ہونے والے بم دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات میں کم از کم 25 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے، دھماکوں میں اہل تشیع مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا جس سے فرقہ وارانہ جنگ کا خطرہ ایک بار پھر سر اٹھانے لگا ہے۔

مجموعی طور پر عراق کے شیعہ اکثریتی آٹھ شہروں میں صبح کے اوقات میں 10 گاڑیوں کو دھماکا خیز مواد سے اڑایا گیا جس کم از کم 100 افراد زخمی بھی ہوئے جبکہ موصل میں پیش آنے والے واقعات میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔

ابھی تک کسی نے ان حملوں کی ذمے داری قبول نہیں کی لیکن اگرچہ القاعدہ سے منسلک سنی عسکریت پسند، عام طور پر شیعوں کو اپنا مخالف سمجھنے کی وجہ سے نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ مسلسل بڑے پیمانے پر بم باری بھی کرتے رہے ہیں۔

آفیشلز کے مطابق عزیزیہ، محمودیہ، مدائن، جبیلا، نجف، بصرہ، نصیریہ اور کٹ میں کار بم دھماکے ہوئے۔

صوبے واصت کے دارالحکومت کٹ میں کے صنعتی علاقے میں ریسٹورنٹ کے باہر ہونے والے کار بم دھماکے میں کم از کم سات افراد ہلاک اور 15 زخمی ہو گئے، مذکورہ علاقے میں گاڑیوں کی مرمت کی متعدد دکانیں موجود ہیں۔

عزیزیہ میں مرکزی مارکیٹ اور اہل تشیع کی مسجد کے قریب ہونے والے کار بم دھماکے میں پانچ افراد ہلاک اور 10 زخمی ہو گئے۔

عزیزیہ میں واقع ایک کیفے کے مالک کے بیٹے نے بتایا کہ کار بالکل کیفے کے ساتھ کھڑی کی گئی تھی جس سے کیفے کے سامنے والے حصے کو شدید نقصان پہنچا، متعدد گاڑیوں میں آگ لگ گئی جبکہ اس سے قریبی دکانوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔

ساحلی شہر بصرہ میں ہونے والے دو کار بم دھماکوں میں بم ڈسپوزل اسکواڈ کے رکن سمیت پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔

اس کے علاوہ نصیریہ، محمودیہ، نجف، مدائن اور جبیلا میں کیے گئے دھماکوں میں مزید پانچ افراد لقمہ اجل بن گئے۔

اس سے قبل اتوار کو شمالی شہر موصل میں تین پولیس اہلکاروں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ سنی عرب تھے۔

ایسے پرتشدد واقعات کا آغاز، عراق پر اتحادی فوجوں کے حملے کے بعد ہوا تھا تاہم پچھلے ماہ مئی میں مرنے والے افراد کی تعداد نے 2008 میں ہلاک ہونے والوں کو پیچھے چھوڑ دیا جس کے بعد خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں اس قسم کے واقعات 2006ء اور 2007ء کی فرقہ وارانہ جنگ سے آگے نہ بڑھ جائے-

مبصرین نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شیعہ حکام کی قیادت کی ناکامی کے باعث سنی برادری کے عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں بڑھاوا دیا۔

اقوام متحدہ (یواین) کے عراقی سفیر مارٹن کوبلر نے پہلے ہی خبردار کردیا تھا کہ پرتشدد واقعات مزید خطرناک شکل اختیار کرسکتے ہیں اور ان میں تیزی آ سکتی ہے-

وزیراعظم نوری المالکی نے کشیدگی کم کرنے کے لئے حال ہی میں اپنے کٹر مخالفین سے بھی ملاقات کی ہے جن میں پارلیمینٹ کے سنی اسپیکر اور علاقہ کرد کے خودمختار صدر شامل ہیں-

ملک کے بڑے سیاستدان مسلسل سیاسی تنازعات کو حل کرنے کا وعدہ کر رہے ہیں تاہم تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ سب پرتشدد حادثات سے منسلک ہیں اور اس معاملے میں ابھی تک کوئی نمایاں پیشرفت سامنے نہیں آئی ہے-

کارٹون

کارٹون : 23 جون 2025
کارٹون : 22 جون 2025