جانور کا دشمن انسان

10 مارچ 2015
ہمیں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھانے ہوں گے، اس سے پہلے کہ یہ خوبصورت جانور صرف میوزیم میں ملیں — رائٹرز
ہمیں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھانے ہوں گے، اس سے پہلے کہ یہ خوبصورت جانور صرف میوزیم میں ملیں — رائٹرز

جنگلی حیات کو سب سے بڑا خطرہ انسان سے ہے جس نے جانوروں کے بے دریغ قتل کو وطیرہ ہی بنا لیا ہے۔ جانداروں کے قتل جیسے قبیح جرم کے بارے میں آج بھی اس دور کے انسان میں احساسِ ندامت اور سنجیدگی پیدا نہیں ہو رہی۔ جنگلی حیات کو وسیع پیمانے پر شکار کر کے ادویات، خوراک، تعمیراتی مواد، فرنیچر، کاسمیٹکس، لباس اور دیگر اشیاء میں استعمال کیا جا رہا ہے، جس سے نادر و نایاب نسل کے جانوروں کی نسل کشی ہوتی جا رہی ہے۔ مہذب معاشرے ان معدوم ہوتی نسلوں کو بچانے میں مصروف ہیں اور درجنوں نسلوں کو مصنوعی حصار و نگہداشت میں بھی لے لیا گیا ہے تاکہ کرہ ارض پر ان کو مکمل خاتمے سے بچایا جا سکے۔

ہمارے ملک پاکستان میں بھی جنگلی حیات کے خلاف انسانی جرائم میں مسلسل اضافہ ہوچکا ہے۔ اس کے خلاف جنگی بنیادوں پر حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی تاکہ ملکی سطح پر اقتصادی، ماحولیاتی اور سماجی حالات کو بہتر بنایا جا سکے۔

جنگلی جانوروں کے غیر قانونی شکار کی روک تھام میں بھی پاکستان کے عملی کردار پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ معدوم ہوتے جانوروں اور نادر و نایاب پرندوں کا شکار پاکستان میں تمام تر قانونی و عدالتی پابندیوں کے باوجود سارا سال جاری رہتا ہے۔ گذشتہ برس بلوچستان کے ایران اور افغانستان سے متصل سرحدی ضلع چاغی میں ایک عرب شیخ کے لیے شکار کیمپ قائم کیا گیا تھا۔ محکمہ جنگلات و جنگلی حیات کے ایک سینیئر افسر نے چاغی میں سعودی شیخ کے کیمپ کے قیام کی تصدیق بھی کی تھی، جس کی خبر میڈیا میں بھی آئی تھی۔ اس سے قبل بھی چاغی میں عرب شیخ نایاب پرندے تلور کے شکار کے لیے آتے رہے ہیں۔

پڑھیے: سعودی شہزادہ اور 2100 تلور کا شکار

تلور ایک ہجرت کرنے والا پرندہ ہے جو کہ روس کے علاقے سائیبریا اور گرد و نواح کے علاقوں سے سردیوں میں بلوچستان اور پاکستان کے بعض دیگر گرم علاقوں کا رخ کرتا ہے، اور یہاں آتے ہی مار دیا جاتا ہے۔ تلور، بسٹرڈ نسل کے پرندوں میں سے ہے۔ یہ پرندہ صحرائی علاقوں میں جا کر انڈے دیتا ہے اور اپنے بچوں کی پرورش کرتا ہے اور انہیں دنوں میں اس کا شکار کیا جاتا ہے۔

تلور کے شکار کے لیے وفاقی وزارت خارجہ کی جانب سے جو پرمٹ جاری کیا جاتا ہے، اس کے مطابق کسی بھی علاقے میں عرب شیوخ دس دن کے لیے شکار کرسکتے ہیں۔ ان دس دنوں میں ان کو صرف 100 تلور شکار کرنے کی اجازت ہوتی ہے لیکن اس حوالے سے کوئی پابندی خاطر میں نہیں لائی جاتی۔ اگر دس تلور شکار کرنے کی اجازت دی جاتی ہے تو رپورٹ یہ آتی ہے کہ وہ 200 یا 300 ایک دن میں مارتے ہیں۔ قدرتی ماحول کے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی ادارے آئی یو سی این نے اس پرندے کو ان جنگلی حیات کی فہرست میں شامل کیا ہے جن کی نسل کو ختم ہونے کا خطرہ لاحق ہے جس کے باعث اس پرندے کا شکار ممنوع ہے۔

بلوچستان ہائیکورٹ نے گذشتہ سال کے آخر میں اپنے ایک فیصلے میں عرب شیوخ کو شکار گاہیں الاٹ کرنے کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود قانون سمیت عدالتی احکامات کی دھجیاں سرعام اڑائی جاتی رہیں، یہاں تک کہ چند ہفتے قبل پرنس آف تبوک فہد بن عبداللہ اسی نادر و نایاب تلور کے شکار کے لیے بلوچستان پہنچ چکے ہیں اور وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے پرنس آف تبوک کے بلوچستان پہنچنے پر ان کا استقبال بھی کیا ہے۔ اور اسی دوران بلوچستان کے محکمہ جنگلات نے ہائی کورٹ کی جانب سے تلور کے شکار پر پابندی کے فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج بھی کر دیا ہے تاکہ عرب شیوخ کی شکار مہم میں کوئی رکاوٹ نہ آنے پائے۔

پاکستان میں منیشات اور اسلحے کے علاوہ پرندوں اور جانوروں کی اسمگلنگ بھی کی جاتی ہے لیکن ابھی تک ان کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر سنجیدہ کوششیں سامنے نہیں آسکی ہیں۔ 2014 میں پاکستان اور چین کی سرحد پر خنجراب کے مقام پر چینی حکام نے پاکستان سے سمگل کیے گئے 210 کچھوے محکمہ جنگلی حیات پاکستان کے حوالے کیے تھے۔ چین کے کسٹم حکام نے اسمگل کیے جانے والے یہ کچھوے تحویل میں لے کر تین پاکستانوں کو بھی گرفتار کیا تھا۔

مزید پڑھیے: نایاب کچھوؤں کی اسمگلنگ میں اضافہ

آئی یو سی این کی معدوم ہونے والی حیات کی ریڈ لسٹ میں شامل یہ کچھوے سکھر سے چلے اور سنگین موسم کا سامنا کرتے ہوئے سنکیانگ تک پہنچے جہاں سے حکام نے انہیں برآمد کر لیا۔ چین کی مہربانی سے یہ کچھوے پاکستان کو واپس مل سکے ورنہ پاکستان کی کسی بھی سرحد پر کسٹم حکام کی چیک پوسٹ تو ہوتی ہے لیکن قیام پاکستان سے لے کر آج تک ان کے ساتھ محکمۂ جنگلی حیات کی پوسٹ قائم نہیں کی جا سکیں تا کہ کلیئرنس کے بعد ہی سامان چھوڑا جائے اور جنگلی حیات کی اسمگلنگ کو روکا جا سکے۔

محکمہ جنگلی حیات یا کسی غیر سرکاری ادارے کے پاس پاکستان میں میٹھے پانی کے کچھووں کی درست تعداد تو موجود نہیں تاہم انڈس ریور سسٹم میں کسی زمانے میں ان کچھووں کی بہتات ہوتی تھی۔ لیکن اس کے بے دریغ شکار، دریا میں شہروں کے نکاسی آب کے نظام اور کہیں کہیں پانی کی سطح کم ہوجانے کی وجہ سے ان کی تعداد میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ عام طور پر اس کچھوے کا گوشت ہی بیرون ملک اسمگل کیا جاتا ہے، لیکن آگاہی کی مہم کی وجہ سے زندہ کچھوے اسمگل کرنا اب بندرگاہوں اور ایئرپورٹس پر دشوار ہو چکا ہے، اس لیے اب زمینی راستوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

حال ہی میں پاکستان میں جنگلی حیات کے حوالے سے صوبہ سندھ میں ایک غیر معمولی کارکردگی دیکھنے میں آئی ہے جہاں ریچھ کی لڑائی اور اس کے سرکس میں استعمال پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ بھورے، سیاہ اور ایشیائی نسل کے ریچھ کا شمار ان جانوروں میں کر دیا گیا ہے جن کی بقا خطرے میں ہے جس کے بعد اب ان کا تفریحی اور بھیک مانگنے کے لیے استعمال نہیں ہو سکے گا۔ ریچھ اور کتے کی لڑائی میں ریچھ کو رسی سے باندھ کر اس پر کتے چھوڑے جاتے ہیں۔ یہ کتے ریچھ کی ناک اور منہ پر حملہ کرتے ہیں جس سے وہ شدید زخمی ہو جاتا ہے، کبھی کبھی اس لڑائی میں کتے بھی مارے بھی جاتے ہیں۔

پاکستان میں ریچھ کا شمار ان جانداروں میں ہوتا ہے جن کی نسل کو خطرہ لاحق ہے۔ ریچھ کی لڑائی کے لیے اس کے بچوں کو جنگل سے چرایا جاتا ہے جبکہ اس کی ماں کو گولی مار دی جاتی ہے۔ پاکستان میں جپسی ریچھ جن کو گلیوں میں پھرایا یا لڑایا جاتا ہے، ان کی تعداد 160 کے قریب ہے جبکہ جنگلی ریچھ جن میں کالے ریچھ کی تعداد 700 سے 800 اور بھورے ریچھ کی تعداد 200 کے قریب ہے۔ معدوم ہوتے ریچھ کو بچانے کے لیے پاکستان کے دیگر صوبوں کو بھی قانون سازی کرنی ہوگی اور عوام کو بھی جنگلی حیات سے محبت اور جانوروں سے اچھے سلوک کی تعلیم دینا ہوگی۔

جانیے: دنیا جلد محروم ہوجائے گی ان زبردست جانوروں سے

جنگلی حیات ایک فطری قدر ہے جو ماحولیاتی، جینیاتی، سماجی، اقتصادی، سائنسی، تعلیمی، ثقافتی، تفریحی اور جمالیاتی پہلوؤں کے حوالے سے انسانی بہبود اور پائیدار ترقی میں لازمی اضافہ کرتی ہے۔ پاکستان کو اس اعتبار سے جنگلی حیات کے تحفظ میں بہترین کارکردگی دکھانے والے ممالک، اقوام متحدہ، جنگلی حیات کے بین الاقوامی اداروں، سول سوسائٹی، اور غیر سرکاری اداروں و افراد کے تجربات سے براہ راست فائدہ اٹھانا ہوگا۔ جنگلی حیات کی تجارت کو روکنے اور سدباب کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اسی سلسلے میں مقامی اداروں اور کمیونٹیز کو ہر طرح سے تیار کرنا ہوگا۔

تھر میں سینکڑوں مور مریں یا دریائے سندھ میں نادر و نایاب ڈولفن، ہالیجی جھیل سمیت پاکستان بھر میں کہیں بھی کسی بھی جنگلی حیات کا نقصان ہو، یا بلوچستان میں تلور کا شکار، نقصان پاکستان کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا نقصان ہے۔ عوام اور حکام کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ جنگلی حیات کا شکار کرنے کے بجائے ان کی حفاظت کریں، ورنہ وہ وقت دور نہیں جب کئی جنگلی حیات ہمیں صرف تصاویر میں ملا کریں گی، یا میوزیم میں۔

وقت ابھی ہمارے ہاتھ میں ہے، لیکن شاید جلد ہی ہاتھ سے نکل جائے گا۔

تبصرے (27) بند ہیں

saeed khan Mar 10, 2015 05:36pm
بہت مفید معلومات افزا
afsheen Mar 10, 2015 06:22pm
Very thought provoking...... We have to take important steps before its too late.....such negligences can destroy our whole ecosystem..... Plz join hands and save wildlife
Fahim Ahmed Mar 10, 2015 07:22pm
آپ کا مضمون بہت معلوماتي اور جاندار ہے،،، پاکستان ميں تو ہر معاملے ميں ہي بے حسي پائي جاتي ہے،،، حساس مسئلے پر آواز اٹھانے پر آپ مبارکباد کے مستحق ہيں
Mahmood Rabbani Mar 10, 2015 07:31pm
Very interesting and worth reading article, all these things should be top of the list when we talk about globalization. Its responsibility of each and every individual to be part of this process to save our environment. Otherwise i afraid it will be too late to take any step. I appreciate your efforts. I hope we all start thinking the same way to save our environment specially for our next generations. We all need to raise our voice together...
Haq nawaz Mar 10, 2015 07:55pm
بھائی جی کل کی بات ہے بارش ہو رہی تھی کہ میری بیٹی جو کہ پنجاب کالج میں پڑھتی ہے شام کو میں گھر آیا تو وہ مجھ سے کہنے لگی کہ پاپا وہاں بارش میں ایک کُتے کا بچہ سردی سے کانپ رہا تھا اور جب ہم اس کے قریب سے گُزرے تو وہ ہمارے ساتھ ساتھ چلنے لگا ایسا لگا کہ ہمیں آواز دے رہا تھا کہ میں پناہ چاھتا ہوں اور میں اسے اُٹھا کر لے آئی ہوں تو اسے جو مجھ سے توقع تھی اسے وہی حوصلہ ملا اور میں اور وہ اس امید پر پھر پُر عشم ہو گئے کہ ہم نے لاوارث جانوروں کو بچانے کے لیئے ایک ایسا انیمل ہاوس بنانا ہے جو کوئی نہ بنا سکا اور ایک دن ضرور آئے گا بے شک ہمارے پاس ابھی وسائل نہیں لیکن میرے بیٹے اور بیٹی پُرعزم ہین اور اب تک ہم کئی جانوروں کو بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں
Tahir Mahmood Asif Mar 10, 2015 09:06pm
مصفٰی بھائی بہت اچھی کاوش ہے آپ کی۔ اللہ پاک آپ کو اس کا اجر دے گا۔ آج خیبر پختون خواہ کی حکومت نے ایک شہزادے کو شکار کرنے پر اسی ہزار جرمانہ کیا۔ اللہ پاک ہماری فیڈرل گورنمنٹ اور صوبائی حکومتوں کو اس بارے سوچنے اور اس طرح کے جراءت مند اقدامات کرنے کی توفیق فرمائے۔
ghani pahwaal Mar 10, 2015 10:39pm
اس زمین پر موجود ہر شے انتہائی اہم ہے لہذا جانوروں کی زندگیاں بھی نامیاتی حوالے سےانسانوں کی زندگیوں سے کم اہم ہرگز نہیں اور بعض حوالوں سے جانوروں کی زندگیاں خود انسانی زندگی کیلئے بھی بہت اہم ہیں ، یہاں کوئی چیز فضول اور غیر اہم نہیں ہر چیز ایک دوسرے پر مختلف طریقوں سے اثر انداز ہوت ہے ۔ مگر ایک ایسے ملک میں جہاں خود انسان کی زندگی کی اہمیت کچھ نہ ہو وہاں جانوروں کے بارے شعور اجا گر کرنا انتہا دشوار کام ہے۔ کیونکہ یہ ایک انسانی شعوری سطح ہے جو عملا اس ملک میں ناپید ہوچکا ہے۔ فرد کی ہوس اور لالچ اب طبقوں اور اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے چک ہے قانون تو برائے نام ہے جیسے تلور کے شکار کے حوالے سے بلوچستان ہائی کورٹ کا فیصلہ جسے خود حکومتی سطح پر پاوں تلے روندا جارہا ہے جس ملک میں قانون کا یہ حال ہو اور خود حکومتی سطح پر ترجیحات قانونی عمل داری کے برخلاف ہوں تو وہاں جانوروں کی تحفظ اپنی جگہ انسانوں کی تحفظ بھی نہ ممکن بن جاتی ہے۔
Mahmood Rabbani Mar 10, 2015 11:10pm
very interesting and worth reading article. i appreciate your efforts and i hope we all raise our voice to protect our environment. if we care about our next generations then its responsibility of every individual to take part.
محمد ارشد قریشی Mar 10, 2015 11:14pm
بہت عمدہ خیالات کو تحریر کی شکل میں ڈھالا آپ نے ۔۔۔ بیشک ہم سب کو ان چرند پرند کو بقاء اور حفاظت کے اقدامات کرنے ہونگے ۔
ناصر خان ناصر Mar 11, 2015 05:57am
پا کستان میں نایاب اور کمیاب جانوروں پرندوں چرندوں کے تحفظ کے لئے بہت کم کام ہوا ہے اور کئ جانور جنگل کٹ جانے کے باعث اور اپنی قدرتی نشوو ناکے لئے ضروری وسائل کم ہو جانے کی وجہ سے بہی نایاب ہوتے جا رہے ہیں.ان حالات میں پڑهے لکہے پاکستانیوں کا بے زبان پرندوں اور جانوروں کی مدد کو آنا باعث تحسین ہے.مصطفی مہاروی صاحب کا مندرجہ بالا آرٹیکل نہایت خوش آئند ہے.خدا ہمارےحکمرانوں، سیاست دانوں اور عوام کو عقل اور چشم بینا عطا کرے....نہایت دل پزیر پیرائے میں لکہا جناب مصطفی مہاروی صاحب کا معلوماتی اور دلچسب آرٹیکل عوام و خواص کی نظروں سے ضرور گزرنا چاہیے اور اس ضمن میں عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے.
رفیع رضآ Mar 11, 2015 06:09am
کینیڈآ میں سینکڑوں ایسے واقعات ھو چکے ھین جن مین جانروں ۔۔پرندوں کی جان بچانے کے لئے سخت سردی اور جمی ھوئی برف میں رضا کروں نے جا کر کسی حیوان کی جان بچائی۔۔۔۔سڑک سے گزرنے والی مُرغابیوں اور انکے بچو نکے گزرنے تک بےشمار مرتبہ سڑکین بند دیکھی ھیںَ۔۔۔۔۔ مگر پاکستان اور عرب دنیا کے ذلیل ترین ممالک ھین جہاں جانوروں ۔۔انسانوں کسی کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہین روا رکھا جاتا۔۔۔مغرب کی ان تھک محنتوں سے بے شمار بہت کم رہ جانے والے جانوروں کو بچایا گیا ھے مگر۔۔۔۔۔۔۔۔ھمارے ممالک مین شرم محسوس نہین کیا جاتی۔۔آپ کا کالم بار بار شائع ھونا ضروری ھے۔۔۔
Sibghat Wyne Mar 11, 2015 10:33am
دو دن پہلے کراچی کسٹم والوں نے نہ جانے کتنے بورے پکڑے ہیں جس میں بڑے کچھووں کو ٹکڑے کر کے خشک کر کے ایکسپورٹ کیا جا رہا تھا۔ ان کچھووں کی عمر اسی سے سو سال بتائی گئی تھی۔ لیکن ہمارے کرہ ارض پر انسان کے ہاتھوں انسان کو بچانے کے لئے بہت سے ایسے کام کی ضرورت ہے جو جدلیاتی انداز میں دو طرفہ جنگ کرے ایک ترقی یافتہ قوموں سے غیر ترقی یافتہ انسانوں کو بچانے کی اور دوسری غیرترقی یافتہ لوگوں سے انسانوں کو بچانے کی۔ ان جانوروں کی اور انسانوں کی زندگیوں کے کھلواڑ کے ساتھ منافعے کے تانے بانے ملتے ہیں۔ سعودی شہزادے مفت میں نہیں آ جاتے۔ خشک کچھوے کی باقیات کروڑوں روپے میں بکنی تھیں۔ ترقی یافتہ اور نیم ترقی یافتہ انسان نے سب سے منافع بخش چیز قوم پرستی اور حب الوطنی ایجاد کی ہے۔ اس کا نام لے کر ساری قوم کا پیسہ بموں اور راکٹوں پر لگا دو۔ پھر انہیں چلا دو۔ یہ اسلحہ بیچنے والی فیکٹریوں کے مالک چند بڑے ملکوں کے سرمایہ دار ہیں۔ اور تمام ملکوں کی حکومتیں ان سے کمیشن الگ لیتی ہیں، اور حکومت میں رہنے کی تنخواہ الگ۔ اور اکثر ملکوں کے حکومتی نمائندے براہ راست ان فیکٹریوں کے مالک الگ ہیں۔ انسان نے جتنی دولت اب اکٹھی کی ہے، قارون جیسے کروڑ قارون بھی آ جائیں تو عشر عشیر کو نہ پا سکیں۔ دوسری طرف جس قدر ارزاں نرخوں میں آج انسان کی زندگی اور زندہ انسان بیچے خریدے جا رہے ہیں، ایسا تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ مثلاً دنیا کی ساری جنگوں کو ملا کر جتنے انسان مارے گئے، دوسری جنگ "عظیم" میں اس سے زیادہ لقمہ اجل بنا دیے گئے۔ کیوں؟ منافع۔ ۔ ۔منڈیاں۔ امریکہ نے جلدی جلدی دو ایٹم بم مارے کیوں کہ جنگ تو وہ پہلے ہی جیت
M.SALEEM RAZA Mar 11, 2015 11:04am
aoa it is great strangle for save of life of animals in pakistan. i appliciate you and i am with you.
Ch. Talha Bin Khalid Mar 11, 2015 05:06pm
a painful story of Pakistan's natural treasure has been portrayed by the writer in a straightforward manner. My point is that a society that lacks respect for human life, can never behave in progressive and productive manner towards the animals.we all are responsible for our collective mindset. but its not end of the story. everyone has to step forward to learn the basic standards of life. yes! we have to learn.
Ghazanfar Abbass Mar 11, 2015 06:57pm
بہت خوبصورت تحریرہے ۔ کوئی تو ہے جو اس اہم موضوع پر دھیان دیے ہوئے ہے ورنہ ہمارا میڈیا تو پاکستان میں جمہوریت کو بدنام کرنے کے لیے سیاستدانوں کے پیچھے پڑا رہتا ہے ۔
Homer Mar 11, 2015 07:46pm
جناب یہاں تو یہ عالم ہے کہ ایک صوبائی مشیر خزانہ اپنے وزیر اعلٰی صاحب کے فرزندِ اعلٰی کو سرعام نہ صرف ہرن تحفے میں پیش کرتے ہیں بلکہ اس منظر کی خصوصی عکسبندی اگلے دن کے مقامی اخبارات کی زینت تک بنتی ہے, جس خطے میں انسان ناپید ہوتے جا رہے ہوں وہاں حیوانوں کی بقاء کی کسے فقر ہوگی؟ بہرحال عمدہ موضوع پر معلومات افزاء کاوش ہے.
Zahid Sarfraz Kamoka Mar 11, 2015 10:33pm
آج عربی شیوخ پرمٹ لے کے جانوروں کا قتل عام کرتے ھیں۔ تو کل کیا حکومت پاکستان انہیں انسانوں کے قتل کا پرمٹ دے کے اس شوق کو قانونی بنا سکتی ھے ؟ زندگی تو زندگی ھوتی ھے وہ پرمٹ دے کے ختم کیسے ھونے دی جا سکتی ھے۔ اگر جانوروں کی زندگی کا تحفظ کرنا ھے تو یہ پرمٹ شرمٹ ختم کرنا ھوں گے۔ ایک طرف تو ھم کہتے ھیں کہ جانداروں کو بچانا ھے تو دوسری جانب یہ کیسا اندھا اور کالا قانون ھے؟ فرنگی کے اس مکروہ قانون کا خاتمہ کرنا ھو گا۔ مصطفیٰ مہاروی صاحب، آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے ایک بہت سنجیدہ موضوع پہ لکھا۔
Zaigham Sarfraz Mar 12, 2015 12:06am
چند دن پہلے کراچی میں کسٹم حکام نے کچھوؤں کا نو ہزار کلو گرام خشک گوشت برآمد کر لیا ہے جو چین اور ہانگ کانگ سمگل کیا جارہا تھا۔ کسٹم کے ایڈیشنل کلیکٹرحکام کا کہنا تھا کہ ایک نجی کمپنی نے کنٹینر کی بکنگ کرائی تھی اور بتایا تھا کہ اس میں خشک مچھلی ہے۔ انھوں نے کہا کہ شبہ ہونے پر محکمہ جنگلی حیات کی مدد حاصل کی گئی جنہوں نے تصدیق کی کہ یہ کچھوؤں کا خشک گوشت ہے۔ محکمہ جنگلی حیات کے مطابق یہ گوشت تقریباً چار ہزار سے زائد کچھوؤں کو مار کر نکالا گیا ہے اور سندھ میں کچھوے ان جانداروں میں شامل کیے جاتے ہیں جن کی نسل کو خطرہ لاحق ہے۔ نجی شپنگ کمپنی کے خلاف کسٹم اور محکمہ جنگلی حیات کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ محکمہ جنگلی حیات کے مطابق ایک کچھوے کے شکار پر ڈیڑھ لاکھ روپے جرمانہ ہے۔ کچھوے کے بےدریغ شکار کی وجہ سے پانی کی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت سے درخواست ھے کہ محکمہ جنگلی حیات سندھ کو دریائے سندھ کے دونوں کناروں اور نالوں کی چپے چپے پر نگرانی پر چست کرے اور عام لوگوں میں شعور لانے کے لیئے تشہیری مہم کے علاوہ عملی اقدامات بھی کرے۔
Ghulam Rasool Maharvi Mar 12, 2015 12:21am
Well done my son. I believe your work shall make others to think and protect life of animals in danger. Your article is worth reading. We all should get serious about animal crime.
عاصم ستار Mar 12, 2015 06:47am
مصطفیٰ مہاروی آپ نے بہت اچھا لکھا ہے- ہم پاکستان میں انسانوں کو ان کے حقوق نہیں دے سکتے جانورں کے حقوق کا کیا خیال رکھے گے
Awais Mehmood Mar 12, 2015 10:32am
I indeep been through all the detail and facts in your Column and i would like to congratulate you on your marvelous Job done, yes its an eye opening facts for all the of us to think over a very sensitive Issues.
Yousaf Ghani Mar 12, 2015 11:59am
Really this article is excellent, educated and efficient and we all are responsible to understand and work on nature’s beauty
Yousaf Ghani Mar 12, 2015 12:04pm
Really this article is excellent, educated and efficient and we all are responsible to understand and work on nature’s beauty
shazia Mar 12, 2015 01:12pm
i really appreciate your effort for this article that you have written it after authentic research.good information.only a sensitive person can write this type of beautiful piece of w riting with caring ability.
یمین الاسلام زبیری Mar 13, 2015 02:03am
بہت خوبصورت تحریر ہے، اور بہت اہم موضوع پر۔ کیا جانور بندوق اٹھا سکتے ہیں، اگر نہیں تو کیا ان کی طرف سے کوئی اور طاقت مزاہم ہوسکتی ہے؟
Fauzia Kareem Mar 13, 2015 08:38pm
This blog is very informative and inspirational too. Wildlife crime is slowly stealing the world around us and selling it to the highest bidder. It is an activity without remorse that cares only for the quick profits of today, while ignoring the terrible losses of tomorrow. Animals are being senselessly slaughtered every day for their body parts or stolen from their natural habitats and trafficked to satisfy the exotic pet trade. In other parts of the world, vast swathes of forest are being destroyed to make expensive furniture or other wood products. Now it is the time to get #seriousaboutwildlife crime in Pakistan too.
Yara Yogini Mar 13, 2015 09:50pm
There is growing evidence of the increased involvement in this illicit and insidious trade by organized crime networks and non-State armed groups. With 20,000 elephants and over 10,000 pangolins slaughtered and trafficked in 2013 alone, countries must combine the necessary enforcement efforts to address the problem of the increasing demand for illegally traded ‪#‎wildlife‬.