تھر میں اموات: ہم سب ذمہ دار ہیں

21 مارچ 2015
کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنی سماجی ذمہ داریاں بھلا کر ہم بھی اس قحط میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں؟ — اے ایف پی
کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنی سماجی ذمہ داریاں بھلا کر ہم بھی اس قحط میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں؟ — اے ایف پی

کہتے ہیں کہ بھوک تہذیب اور آداب بھلا دیتی ہے۔ بھوک انسان پر غالب آجائے تو اسے درندہ اور درندے پر غالب آجائے تو اسے خونخوار بنا دیتی ہے۔ لفظ ’بھوک‘ جیسے ہی ذہن کی دیواروں پہ نمودار ہونے لگتا ہے، ہولناک وحشت کا ایسا تاثر جس میں ڈر، خوف، بیماری، اور پھیلے ہوئے گہرے کثیف سائے ہیں جو انسان کی حِس لطافت پر شکنجے کس لیتے ہیں، جس سے انسانی جبلت میں موجود لطافت ختم ہو جاتی ہے۔ اور پھر جو دوسرا لفظ ہمارے وجود کو لرزہ دیتا ہے وہ ہے ’موت‘۔

ایک عرصے سے موت کا سیاہ نقاب پوش عفریت بھوک کے ہیبت ناک اور قوی الجثہ جانور پر سوار ہو کر ’تھر‘ کے صحراؤں میں معصوم جانوں کونگل رہا ہے۔ اس نگر کے باسی اس درندے کے آگے بے بس ہیں۔ ان کا کوئی ناصر و مددگار نہیں۔ یہ صبح اپنے گھر کی میت اٹھاتے ہیں تو شام کو پڑوسی کے بچے کو درگور کر آتے ہیں۔ اس دوران انہیں مسلسل یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ کہیں یہ خود بھی اس خونخوار بلا کا شکار نہ ہو جائیں۔ ان کا حاکم غافلِ مطلق ہے۔ اس کے وزیر بے پرواہی کی حدیں پھلانگ کر بے حسی کی سرحد پار اپنے سونے کے محلات میں محوِ استراحت ہیں۔

کہاں ہے یہ نگر جہاں ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں؟ کیا اس نگر کو دنیا کے کسی کونے میں، کسی ملک میں نہیں شامل کیا گیا کہ کوئی ان کی سرپرستی کرے؟ لیجیے جناب۔ نقشہ کھولا تو عقدہ یہ کھلا کہ یہ ’تھر‘، یہ جہنمِ گم گشتہ، یہ تو میرے ہی ملک کا ایک قابلِ قدر اور قابلِ توجہ حصہ ہے۔ اسی پاکستان کا جہاں مجھے تو آواز لگائے بغیر ہی انواع و اقسام کے کھانے مل جاتے ہیں، جنہیں میں آدھا کھا کر، آدھا گِرا کر اور آدھا پلیٹ میں ہی کچرے دان میں پھینکے جانے کی غرض سے چھوڑ دیتی ہوں۔ جہاں ڈسپنسر کا ایک بٹن دباؤں تو کلیجے تو کلیجے، روح تک اتر جانے والا ٹھنڈا یخ، میٹھا، شفاف اور جراثیم سے پاک پانی پیاس سیراب کرنے کو میسر ہے۔

پڑھیے: تھر: موت بھرا پانی

تو یہ پنجر پہ کھالوں کی چادر ڈالے اور فقر و افلاس سے بے کسی کی تصویر بنے لوگ کیوں بھوک نامی اس عفریت کو اپنے نوزائیدہ بچوں کے خون کا جام پلائے جارہے ہیں؟

اس کی وجہ محض غذائی قلت، ضروریاتِ زندگی کا فقدان، افلاس، پسماندگی اور غربت نہیں، بلکہ سیاسی، سماجی، اور معاشرتی ذمہ داروں کی مسلسل دانستہ بے رغبتی و بے اعتنائی ہے۔ میڈیا کبھی کبھی شوشہ چھوڑتا بھی ہے تو وہ بھی کچھ ایک منٹ سے زیادہ کا نہیں ہوتا۔ اس خستہ حال اور پسماندہ علاقے میں ہلاکتوں سے نہ تو کوئی سنسنی پیدا ہوتی ہے اور نہ ان میں وہ مرچ مصالحہ ہے جن میں ان کا وہ ناظر دلچسپی لے جس کے اپنے شعور پر بدستِ خود ذرائع ابلاغ نے تعلیمی و تربیتی پروپیگنڈا سے قفل ڈالے ہیں۔

با دِلِ نخواستہ اگر ان سے یہ گناہِ فرض سرزد ہو بھی جائے تو سیاسی اجارہ دار ان پر تاویلیں دیتے ہیں کہ اس علاقے میں یہ تو ہمیشہ سے ہی ہوتا رہا ہے وہ تو اس دور میں چونکہ میڈیا کی رسائی ممکن ہو گئی ہے، اس لیے یہ زبانِ زد عام ہے۔

اول تو یہ سچ نہیں، دوم یہ کہ بالفرض یہ سچ مان بھی لیا جائے، تو کیا آج کے اس ترقی یافتہ دور اور مہذب معاشرے میں بھی ہم ان کی فریاد رسی نہ کریں؟ گویا ان سے کہہ دیا جائے کہ تم تو پیدا ہی مرنے کے لیے ہو سو فریاد کا نہ تمہیں حق ہے نہ کوئی تمہارا مدعی و مددگار بنے۔ گویا وہ لختِ جگر اس لیے جنمیں کہ چند ہی دنوں میں یہ ننھی جانیں ان ہی کے سامنے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ دیں۔

حالتِ زار یہ ہے کہ رواں سال غذائی قلت سے ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 160 سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ رواں ماہ میں ہی ہلاکتوں کی تعداد 30 تک جا پہنچی ہے۔ ابھی مٹھی کے سول اسپتال میں غذائی قلت اور اس سے پیدا ہونے والے امراض کے سبب مزید 40 بچے زندگی و موت کی کشمکش کا شکار ہیں جن کے علاج معالجے کے لیے مناسب طبی سہولیات بھی میسر نہیں۔ یہ آدم کے جنے ہیں یا انہیں کسی فارمی پولٹری ہاؤس سےلایا گیا تھا کہ ان کے مرنے جینے کی کسی کو فکر نہیں؟

حکومتِ سندھ کی عدم توجہی کا یہ عالم ہے کہ گذشتہ برس تھر میں اس قدر اموات کے باوجود رواں برس بھی نوزائیدہ بچوں کی شرحِ اموات میں کمی تو کجا مسلسل بڑھوتری دیکھنے میں آرہی ہے۔ ایوانوں میں بھی اب ان فریادوں کی گونج عام کرنے والے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ سائیں کو اس فکر سے آزاد کر دیا گیا ہے کہ چاہیں تو کسی مامتا کی ماری، شدتِ بھوک و پیاس سے نڈھال دْکھیاری کو 1000 روپے کا لفافہ دے آئیں۔ ورنہ نہیں تو یوں بھی ٹھیک ہے۔

مزید پڑھیے: قحط کے باعث تھر سے بڑے پیمانے پر ہجرت

سچ پوچھیے تو پرواہ مجھے اور آپ کو بھی نہیں۔ ہم روٹی کا نوالہ توڑتے ہیں تو بھوک و افلاس سے سسکتی کسی ننھی جان کی شبیہ ہمارے ہاتھ روکتی نہیں۔ ہم پر بھی یہ بے حسی ایسی طاری ہے کہ ان زیست کے ماروں کا ذکر نکل بھی آئے تو گماں ہوتا ہے کہ افریقہ کے کسی بالکل ہی پسماندہ، جنگلوں میں ننگ دھڑنگ باسیوں کی بات ہو رہی ہے، جن سے ہمارا کیا سروکار؟

حضرت علی کا ایک قول ہے کہ اگر کسی کو بھوکا دیکھو تو یہ نہ سمجھنا کہ اللہ کے رزق میں کمی ہوئی ہے، بلکہ سمجھ لینا کہ کسی نے کسی کا نوالہ چھینا ہے۔ جب خدائے برحق کا یہ اعلان ہے کہ اس زمین میں اس نے اتنی صلاحیت رکھی ہے کہ تا قیامِ قیامت ہر مخلوقِ خدا کی غذائی ضروریات کو پورا کرسکتی ہے تو یہ کون لوگ ہیں جو بھوکے پیٹ اپنے بچوں سمیت موت کی نیند سو رہے ہیں؟

ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کہیں اپنی سماجی ذمہ داریوں سے کوتاہی کے سبب ہم بھی اسی صف میں تو نہیں آگئے ہیں جو ان کے منہ کا نوالہ لعل و یاقوت کی طرح اپنی تجوریوں میں بھر رہے ہیں؟

تبصرے (1) بند ہیں

محمد ارشد قریشی Mar 22, 2015 09:54am
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ۔