میں زندگی سے ڈرتا ہوں
میں جرنلزم کا طالب علم ہوں، جرنلزم پڑھاتا ہوں، لیکن اخبار بالکل نہیں پڑھتا۔ سچ پوچھیے تو پڑھنا بھی نہیں چاہتا۔ 2005 میں جب میں نے جرنلزم میں داخلہ لیا اور دو سال بعد 2007 میں پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے نیوز ڈیپارٹمنٹ سے اپنا صحافتی سفر شروع کیا، تو افغان جنگ زوروں پر تھی۔ پشاور میں خودکش حملے اور بم دھماکے روزمرہ کا معمول تھے۔ میں یونیورسٹی سے نیوز روم جاتا تو بلیٹن میں کسی بم دھماکے یا خودکش حملے کی خبر ضرور شامل ہوتی۔
پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان جیسے سرکاری ادارے زیادہ تر مثبت خبروں اور حکومتی کارکردگی نمایاں کرنے، اور سب اچھا ہے ثابت کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود بہت ساری خبریں ایسی ہوتیں، جن کی اہمیت اور وزن کو دیکھتے ہوئے انہیں ضرور شامل کیا جاتا۔ شاید عام لوگوں کی طرح بہت سارے صحافیوں کے لیے بھی خبر خبر ہوتی ہے، لیکن میرے لیے یہ خبریں ذہنی تناؤ اور پریشانی کا باعث تھیں۔ اس حساسیت کی وجہ سے میں میرے معدے کی تیزابیت میں اضافہ ہوا اور آج بھی اومیپرازول ہر وقت میرے ٹیبل پر پڑی ہوتی ہیں۔
میں میڈیا کی دنیا میں خوش نہیں تھا تو یونیورسٹی میں دوبارہ داخلہ لیا اور یونیورسٹی میں ہی درس و تدریس کا کام شروع کیا۔ میڈیا سے فرار حاصل کرنے کے بعد زیادہ تر وقت سوشل میڈیا پر گزارنے لگا۔ فیس بک اور ٹوئٹر پر گپ شپ کے ذریعے ٹائم پاس کرنے کی کوشش کی لیکن میڈیا اور میڈیا والوں سے یہاں بھی جان نہیں چھوٹی۔ وال اسٹریٹ جرنل، واشنگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمز، ٹیلی گراف، انڈیپینڈنٹ، ٹائم، الجزیرہ، ڈان، دی نیوز، اورٹریبیون سمیت تمام اہم ملکی اور بین الاقوامی اخبارات اور ٹی وی چینلز نے سوشل میڈیا پر بھی ڈیرہ ڈال رکھا ہے اور دنیا کی کوئی بھی بڑی خبر بالواسطہ یا بلاواسطہ مجھ تک ضرور پہنچ جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پچھلے آٹھ برس سے مسلسل ذہنی اذیت سے دوچار ہوں۔
المیہ یہ ہے کہ نئی صدی کے آغاز کو 15 سال ہو چکے ہیں، پھر بھی انسانیت حیوانیت کی جانب انتہائی تیزی سے گامزن ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ دنیا میں سوچنے والوں پر کیا گزر رہی ہے لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ عنقریب دنیا میں پاگل خانے بنانے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی، کیونکہ انسانوں کی بربریت، وحشت، دہشت اور حیوانیت اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ شاید پوری دنیا ہی پاگل خانہ قرار دیا جائے۔ انسانوں نے ملک، قوم، مذہب اور لسانیت کے نام پر کشت و خون کا جو بازار گرم کر رکھا ہے، اس کو دیکھنے کے بعد زندگی سے ڈر لگنے لگتا ہے۔
ہر کسی کے پاس خون بہانے کے لیے اپنی اپنی دلیلیں ہیں لیکن انسانیت کا دفاع کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، انتقام کی پیاس بجھانے اور اپنی انا کی تسکین کی خاطر مختلف حیلوں اور بہانوں سے انسانیت کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ دنیا میں جنگ و جدل اور فساد برپا ہے، بلکہ مسئلہ یہ ہے اسے روکنے کی تدبیریں کرنے والے یا تو اخلاص سے عاری ہیں یا انہیں سمجھ ہی نہیں کہ مسئلے کو کیسے حل کیا جائے۔
اگر آپ دنیا کے حالات پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ افغانستان میں کل فرخندہ کا نہیں بلکہ افغانستان کا جنازہ پڑھایا گیا۔ جنازے میں شامل بہت سارے افراد خصوصاً مردوں کے سر جھکے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ خدا کے نام پر ایک عورت کو اس انداز میں قتل کرنے پر خدا بھی اس وجہ سے حیران ہوگا کہ یہ کیسے مسلمان ہیں جو قانون ہاتھ میں لے کر نہتی عورت کو اس انداز سے مار رہے ہیں حالانکہ میں نے تو انہیں صاف الفاظ میں پیغام دیا تھا کہ ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔
دوماہ پہلے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں نے ڈیڑھ سو بچوں کو اتنہائی بے دردی سے ذبح کیا۔ پتہ نہیں ان معصوم بچوں کے قتل سے باجوڑ مدرسے کے ان 83 بچوں کو انصاف مل گیا ہے جن کو امریکی ڈرون نے قتل کیا اور جس کی ذمہ داری مشرف حکومت نے قبول کی تھی۔ میں کافی عرصہ تک سوچتا رہا کہ آخر وہ کون سی دلیل تھی جس کو بنیاد بنا کر سینکڑوں پھولوں کو ابدی نیند سلا دیا گیا۔ لیکن بالآخر میں اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ مسجود ملائک اخلاقیات سے اس قدر عاری ہو چکا ہے کہ آج مشرق و مغرب میں انسانیت زندگی کے لیے کراہ رہی ہے جبکہ اسے کسی کے قتل کے لیے کوئی دلیل درکار نہیں ہے۔
نائن الیون کے بعد جنگی جنون میں مبتلا بش انتظامیہ نے طالبان سے اپنا بدلہ لینے اور دنیا میں جمہوریت کے نام پر اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے کے لیے انسان کو گوانتانامو، ابو غریب اور بگرام کے جو تحفے دیے، اس کی روداد انہوں نے کچھ عرصہ پہلے خود ہی رپورٹ کی شکل میں چھاپ دی اور پوری دنیا کو بتا دیا کہ اپنے دشمن کو سبق سکھانے کے لیے انسانی حقوق کے چیمپیئن اور دنیا میں کھرے کھوٹے کی تمیز کرنے والے خود کس حد تک انسانی اقدار کا جنازہ نکالنے میں مصروف ہیں۔
اگر آپ نے یہ رپورٹ نہیں پڑھی تو ایک مرتبہ ضرور پڑھ لیجیے۔ تسلی ہوجائے گی کہ خود کو معراج انسانی کے اعلیٰ معیار پر فائز کرنے والوں نے اپنے قیدیوں کے ساتھ کس طرح کا بہیمانہ رویہ اپنایا۔ انسانوں کو پنجروں میں بند کر کے برہنہ کرنے کے بعد ان کو ذہنی اذیتیں دینے کے لیے باقاعدہ ماہرین نفسیات کو لاکھوں ڈالر دیے گئے اور وہ طریقے معلوم کیے جس پر عمل کر کے خود دہشت بھی کنفیوژ ہوگئی کہ اصل دہشت گرد کون ہے۔
المیہ یہ نہیں ہے کہ انسان انسان کو مار رہا ہے۔ آپ انسانیت کی کوئی بھی تاریخ اٹھا کر دیکھیں، اس میں آپ کو ہر وقت اور ہر زمانے میں جنگ و جدل اور خون خرابہ ہی نظر آئے گا۔ ہرزمانے میں کوئی نہ کوئی قابیل کسی نہ کسی ہابیل کا ناحق قتل کر رہا ہوگا۔ یہ سانحے نہیں، بلکہ سانحہ یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں پہنچنے کے بعد بھی یہ سب کچھ جاری ہے، اور انسان جنگل کے دور کے وحشی پن سے نہیں نکلا۔
اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ وحشی پن کسی ایک مذہب کے ماننے والوں، ملک، قومیت یا علاقے تک محدود نہیں رہا، بلکہ دنیا کے ہر کونے میں یہ مختلف شکلوں میں نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر نیٹو کی شکل میں مغربی اتحاد کو ناکوں چنے چبوانے کے لیے سرگرم بہت ساری اسلامی تنظیمیں بھی اپنی دہشت اور دھاک بٹھانے کے لیے جنگی اصولوں، قوانین اور اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر انسانیت کا مذاق اڑانے میں مصروف ہیں۔
آپ مشرق وسطیٰ میں برسر پیکار تنظیموں کی مثال لیجیے یا پھر پاکستان میں موجود عسکری گروہوں کے انداز جنگ کو دیکھیے، اپنے مخالف کو زیر کرنے کے لیے وہ بے گناہوں کا خون بہا کر ایسے دندناتے پھرتے ہیں کہ اب جنگی قوانین، اصول اور اخلاقی اقدارکے تمام دعوے قصہ پارینہ دکھائی دیتے ہیں۔ معصوم لوگوں کو قصائی کی طرح چھرے سے ذبح کرنا، حکومت کو چیلنج کرنے کے لیے عوامی مقامات پر بم دھماکے کر کے پچاس ہزار سے زائد بے گناہوں کا ناحق خون کرنا، مسجدوں، مندروں، گرجوں، اسکولوں، مدرسوں اور بازاروں میں خون کی ندیاں بہانا اکیسویں صدی دنیا میں رہنے والے جذبات سے عاری مشین نما انسانوں کا معمول بن چکا ہے۔
اپنی اس درندگی کو چھپانے کے لیے کوئی مذہب یا مسلک کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے تو کسی نے کولیٹرل ڈیمیج کی اصطلاح ایجاد کر کے مزید ظلم و ستم کی لیے راہیں کھول دیں ہیں۔ آپ پاکستان میں پشاور، لاہور، کراچی اور کوئٹہ میں، ہندوستان میں گجرات، مقبوضہ کشمیر، برما، فلسطین، عراق، شام، لیبیا یہاں تک کہ یورپ اور امریکہ میں بھی اس کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔
میری اپنی زندگی کا المیہ بھی یہی ہے کہ مجھے درسی کتابوں کی خوبصورت کہانیوں، شاعروں کی غزلوں، موسیقاروں کے سروں، صورت گروں کی شاہکار تصویروں، ناول نگاروں کے حسین خوابوں، مذہبی کتابوں کے محبت کے فلسفوں اور بچپن کی معصومیت کی زندگی چاہیے لیکن مجھے سیاستدانوں کے جھوٹ، مذہبی ٹھیکیداروں کی خودغرضیوں، پیار، اور طاقت اور وحشت سے دوسروں کو زیر کرنے والے سات سو کروڑ انسانوں کے درمیان زندگی ملی۔
سینکڑوں خودکش حملوں، باجوڑ مدرسے اور پشاور کے اسکول میں بن کھلے مرجھائے جانے والے پھولوں، 120 افراد کے مبینہ قاتل کی کراچی سے برآمدگی اور لاہور میں بے گناہ پاکستانیوں کے قتل اور مشتعل ہجوم کے ہاتھوں دو بے گناہ نوجوانوں کے زندہ جلائے جانے کے بعد بھی اس قوم اور اس کے حکمرانوں کی بے حسی دیکھ کر مجھے اپنے معاشرے کے کھوکھلے پن اور وحشی پن سے ڈر لگنے لگا ہے۔ میرے لیے انسان اور وحشی میں فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ میں مایوس اور ناامید نہیں ہوں لیکن مجھے سرنگ میں دور دور تک روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔ میں نے تو سنا تھا کہ جنگلوں کا بھی کوئی نہ کوئی دستور ہوتا ہے۔ لیکن اکیسویں صدی میں رہنے والے انسانوں کی نفرتیں، رقابتیں، حسد، بغض اور لالچ ہمیں جنگل کے دور سے بھی پیچھے لے جا چکی ہے۔
یہ سب کیا ہے اور کیوں ہے؟ اس کی بہت ساری تاویلیں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہے لیکن کوئی بھی تاویل انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ کو مٹانے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے راگ الاپ کر مزید ظلم وستم اور بربریت کو ہوا دے رہا ہے۔
کسی نے سچ کہا تھا کہ انسان چاند پر پہنچ گیا، سمندر کی تہہ تک پہنچ گیا لیکن افسوس کہ انسان انسانیت تک نہ پہنچ سکا۔ میں بھی معروف اردو شاعرہ ادا جعفری کی طرح دلوں کی ویرانیاں چھوڑ کر خلاؤں کو تسخیر کرنے والے انسان کی منطق پر حیران ہوں۔ اکیسویں صدی میں پہنچ کر سائنسی ایجادات اور خلاؤں کو تسخیر کرنے والے خودپسندی اور نرگسیت میں مبتلا روبوٹ نما مشینی انسان دن بہ دن انسانیت سے اس قدر دور جا چکا ہے اور اپنی حکمت کے خم و پیچ میں ایسا الجھ چکا ہے کہ زندگی آج بھی سسک رہی ہے۔
صحافت کا طالبعلم ہونے کے ناطے نہ چاہتے ہوئے بھی ایسی خبریں دیکھ کرمجھے انسانیت کے نام سے گھن آنے لگی ہے۔ میں واقعی ڈرنے لگا ہوں۔ انسانوں سے ڈرنے لگا ہوں۔ زندگی سے ڈرنے لگا ہوں۔
جو درندوں سے بڑھ کے وحشی ہے
آج کے آدمی سے ڈرتا ہوں
لوگ ڈرتے ہیں موت سے ظاہر
اور میں زندگی سے ڈرتا ہوں
تبصرے (4) بند ہیں