پلاؤ کھائیں گے سیاست دان فاتحہ ہوگا!

23 اپريل 2015
چینی صدر شی جنپنگ اور وزیرِ اعظم نواز شریف اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں شریک ہیں۔ — اے پی۔
چینی صدر شی جنپنگ اور وزیرِ اعظم نواز شریف اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں شریک ہیں۔ — اے پی۔

چین کے صدر کا دورہ پاکستان اور امداد، یقین کریں کہانی کے اس اختتام کی طرح ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ 'اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے!'

اگر دیکھا جائے تو واقعی 46 ارب ڈالرز بہت بڑی رقم ہے۔ یہ رقم ان منصوبوں پر خرچ ہونی ہے جو پاکستان اور چین نے معاہدوں اور مفاہمتی یاداشتوں کی صورت میں دستخط کیے ہیں، بڑے بڑے منصوبے ہیں، توانائی کا شعبہ ہے، مواصلات کا شعبہ ہے، جس میں میٹرو ٹرین ہے، موٹر وے ہے، کوئی دوستی ایف ایم ریڈیو بھی ہے، اس کے ساتھ ساتھ نمل یونیورسٹی اور سنکیانگ یونیورسٹی کے درمیان تعاون کی کوئی یاداشت بھی ہے۔

مجھے پوری امید ہے کہ ان 46 ارب ڈالرز کے منصوبوں میں کہیں نہ کہیں صحت، تعلیم اور عوام کی بنیادی ضروریات سے متعلق بھی بڑے نہ سہی مگر کچھ چھوٹے منصوبے ضرور ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی امید کرتا ہوں کہ پنجاب کے ساتھ ساتھ باقی صوبوں میں بھی اس امداد کا کچھ حصہ ضرور ترقیاتی کاموں میں خرچ ہوگا، وہ بھی اس طرح کہ باقی ماندہ صوبوں میں بھی روزگار کی صورتحال بہتر ہوجائے۔

بظاہر تو ایسا لگ رہا ہے کہ آنے والے چند سال میں پاکستان اس امداد کے بل بوتے پر لوڈشیڈنگ کا جڑ سے خاتمہ کر دے گا، عوام خوشحال ہو جائے گی، صنعتیں پہلے سے بھی زیادہ آب و تاب سے چلنا شروع ہوجائیں گی۔ یہاں تک پڑھ کر کتنا اچھا اور کیسا سکون محسوس ہو رہا ہے کہ ہاں یار چلو کچھ تو اچھا ہونے جا رہا ہے۔

مگر! بدقسمتی سے میں جیسے ہی اپنے حکمرانوں، سیاست دانوں اور ماضی میں ملنی والی ایسی کئی ارب ڈالرز کی امداد کا حشر اور منصوبوں کی ناکامی دیکھتا ہوں۔ میرا دل ڈوب جاتا ہے، اور مجھے ماضی میں نواز شریف کی دورِ حکومت میں کیے جانے والے کارنامے اور باقی سیاسی جماعتوں کی عیاشیاں یاد آنے لگتی ہیں۔

مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں پھر کوئی خاتون گلوکار پہاڑی علاقوں میں چیئر لفٹ کے نام پر کروڑوں کا ٹھیکہ نہ حاصل کر لیں! کہیں پھر پچیس کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کی سرکاری مشینری کسی کو بطور انعام نہ دے دی جائے۔ جس دن سے اعلان ہوا ہے کہ ملک میں 46 ارب ڈالرز آرہے ہیں، وزیروں مشیروں خواہ وہ حکمران جماعت سے ہوں یا اپوزیشن سے اپنے اپنے کام سے لگ گئے ہیں، نت نئی کمپنیاں کھولی جا رہی ہیں، تاکہ ٹھیکے حاصل کیے جا سکیں۔

کوئی اپنا بلیک کا پیسہ وائٹ کرنے کے لیے دوبئی سے کمپنی بنا کر پاکستان میں کام کرے گا، ٹھیکے، ٹینڈر، اور سیکورٹی کے نام پر فوج سے لے کر پاکستان کی اپوزیشن اور حکمران جماعتیں سب مستفید ہوں گی۔ 46 ارب میں سے 20 ارب بھی اگر پاکستان پر لگ جائیں تو غنیمت سمجھیں۔ اور اگر بد قسمتی سے چین نے پیسہ اپنے ہاتھ میں رکھ کر ان منصوبوں پر کام کرنا چاہا، تو یقین کریں ہمارے سیاست دان اس کو تگنی کا ناچ بھی نچوائیں گے اور ناکوں چنے بھی کھلوا دیں گے!

سیاستدان چاہے آپس میں کتنے ہی مخالف ہوں، بات جب مل کر کھانے کی ہوتی ہے تو سب مل کر ہی ضیافت اُڑاتے ہیں۔ اور یہ تو 46 ارب ڈالرز کی ضیافت ہے، کون کافر ہے جو اسے چھوڑے گا۔ ابھی سے بیرون ملک طرح طرح کے بینک اکاونٹ کھولے جا رہے ہیں، کمیشن اور ریٹ طے کیے جا رہے ہیں، میرے سالے نے اسی سال براڈ کاسٹنگ میں ڈگری لی ہے، ریڈیو کا ٹھیکہ اسے ہی ملنا چاہیے، آپ کا بیس پرسنٹ پکا، میرے داماد نے سڑکیں ناپنے میں دس سال لگائے ہیں، موٹر وے کا ٹھیکہ صرف اس کی کمپنی کو! آپ کا پچیس پرسنٹ پکا۔ ہاں یاد آیا آپ کا ایک چچا بھی تو انرجی ڈرنک پی پی کر توانائی حاصل کر چکا ہے، توانائی کا ٹھیکہ باہر کیوں جائے۔ گھر کی بات اور پیسہ گھر میں ہی رہے تو اچھا ہے!

کسی نے مجھ سے پوچھا کہ مانی بھائی، یہ چین آخر پاکستان کی مدد کیوں کرتا ہے؟ میں نے جواب دیا بھائی چین ہمارا دوست ہے اور دوست کا ہے فرض مدد آپ کی، اور پھر پاکستان کی جو خطے میں اہمیت ہے اور عالمی منڈیوں تک جو اس کے پاس راہداریاں ہیں، وہ سب کی سب چین کے لیے سونے کی کان ہیں، پھر اس بار جو چین نے پاکستان کی مدد کی ہے اس سے پاکستان کے ساتھ ساتھ خود چین کو بھی فائدہ ہو گا۔ اس کے کئی شہر جو ابھی تک ترقی پذیر ہیں ترقی یافتہ ہو جائیں گے۔

اچھا اور 46 ارب ڈالرز کا ہمارے حکمران کیا کریں گے؟

پلاؤ کھائیں گے سیاست دان فاتحہ ہوگا! میں نے ترنت جواب دیا!

چلتے چلتے ایک واقعہ سناتا چلوں جو میرے محلے میں ہی پیش آیا، خبردار جو کسی نے اس واقعے سے کوئی نتیجہ اخذ کیا۔

جانے کیسے شمشاد بھائی کا 46 لاکھ کا انعامی ٹکٹ لگ گیا۔ محلے داروں اور دوستوں کا ایک ہجوم ان کو مبارک باد دینے کے لیے جمع ہو گیا۔ کسی نے پوچھا کہ شمشاد بھائی یہ 46 لاکھ روپے کیسے خرچ کرو گے؟ جواب سن کر مجھ جیسے کئی لوگ دنگ رہ گئے۔

کہنے لگے میں سب سے پہلے تو بیس لاکھ روپے اپنے بچوں کی تعلیم پر خرچ کروں گا۔ اس کے بعد دس لاکھ روپے اپنے گھر کی تعمیر اور ترقی کے لیے، دس لاکھ سے کوئی کاروبار شروع کروں گا، اور باقی کے چھ لاکھ روپے ناگہانی بیماری یا کسی مصیبت کے لیے محفوظ کروں گا۔

یہ بس ایک واقعہ ہے۔ پڑھیں اور بھول جائیں۔ ایسے ہی جیسے دو سال بعد آپ 46 ارب ڈالرز کو بھول چکے ہوں گے!

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

nadeem Apr 23, 2015 05:53pm
writer seems to be anti-Pakistan very very negative
Muhammad Arshad Apr 23, 2015 06:48pm
Real depiction of our great leaders, who will force another dictator to come unwillingly this time as well.
ندا عارف Apr 24, 2015 12:28am
محترم جلد باز لکھاری۔ پاکستان کو کیش میں ایک روپیہ بھی نہیں مل رہا۔ یہ انفراسٹرکچر اور سہولیات کی مد میں ملے گا۔ تمام ٹھیکے براہِ راست چینی کمپنیوں کو ملیں گے جو ان منصوبوں کو آگے بڑھائیں گی۔ یہ رقم کی سرمایہ کاری نہیں ہے بلکہ انفراسٹرکچر کی سرمایہ کاری ہے۔