پروفیسر وحید: ایک بے آرام روح

30 اپريل 2015
وہ ہر وقت بے آرام رہا کرتے تھے، لیکن نامعلوم قاتلوں کی گولیوں نے انہیں ہمیشہ کی نیند سلا دیا ہے۔ — فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
وہ ہر وقت بے آرام رہا کرتے تھے، لیکن نامعلوم قاتلوں کی گولیوں نے انہیں ہمیشہ کی نیند سلا دیا ہے۔ — فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

اچھے وقتوں میں وہ ایک بے چین روح ہوا کرتے تھے، اور برے وقتوں میں وہ حد سے زیادہ بے چین روح بن جاتے تھے۔ جس کسی نے بھی پروفیسر وحید الرحمان کے ساتھ وقت گزارا ہے، وہ آپ کو یہی بتائے گا۔

ایک بندے، یا لوگوں کے ایک گروپ سے بات کرنا، یا ایک جگہ پر ایک منٹ، یا چلیں دو منٹ سے زیادہ ٹھہرنا ان کی عادت نہیں تھی۔

کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہ اتنے بے آرام کیوں تھے، اور ہم سب ان کی اس عادت پر ہنستے تھے۔ رحمان کبھی بھی اس بات پر غصہ نہیں ہوئے، بلکہ انہوں نے ہمیشہ ہنسی میں دوسروں کا ساتھ دیا۔

اور جب بدھ کے روز نامعلوم افراد نے یونیورسٹی جاتے ہوئے ان پر فائرنگ کر کے انہیں موت کی نیند سلا دیا، تو ان کی بے چینی کا معمہ اب ساری زندگی کے لیے معمہ ہی بن کر رہ گیا ہے۔ ان کی بے چینی بھی اب صرف ایک یاد بن کر رہ گئی ہے۔

ان کی موت بہت ہی بے وقت تھی، خاص طور پر کراچی جیسے شہر میں، جہاں پر موت بے وقت ہی آیا کرتی ہے۔

کسی وجہ سے وحید الرحمان خود کو 'یاسر رضوی' کہلوانا پسند کرتے تھے، حالانکہ ان کی تمام دستاویزات میں ان کا اصلی نام موجود تھا۔ ہر کچھ عرصے بعد کوئی نہ کوئی دوست ان سے اس کی وجہ پوچھتا، لیکن ایسے مواقع پر ان کی روایتی بے آرامی ان کی مدد کو آتی، اور وہ اس جگہ سے چلے جاتے۔

پڑھیے: پروفیسر وحید الرحمن قتل کیس میں عدم پیش رفت

تعلیمی شعبے میں آنے سے پہلے وہ بطورِ صحافی ایک اردو اخبار کے لیے متحدہ قومی موومنٹ کی خبروں پر کام کیا کرتے تھے۔ اس اخبار کو ایم کیو ایم کی شدید مخالفت کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ یہ ان کی خاصیت تھی کہ وہ کس طرح اس تنی ہوئی رسی پر چلا کرتے تھے، اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ اچھے تعلقات بھی بنائے رکھتے تھے۔

میڈیا اور سیاسی شخصیات کے ساتھ ان کے تعلقات نے انہیں کافی فائدہ پہنچایا، جب وہ صحافت کی تدریس میں آئے۔ جب بھی کیمپس میں مختلف واقعات کی بناء پر حالات کے بگڑنے کا اندیشہ ہوتا، تو وہ معاملے کو فوراً ٹھنڈا کر لیتے۔

ان کے کام کو دیکھتے ہوئے وائس چانسلر نے کچھ ہی عرصہ پہلے انہیں اپنے سیکریٹریٹ میں خصوصی ذمہ داریاں دی تھیں۔ وحید ہچکچاہٹ کا شکار تھے، لیکن بالآخر انہوں نے چارج لیا۔ اب ان کے پاس بے آرام رہنے کے لیے ایک آفس اور تھا۔

لیکن ان کی اس بے آرامی کو پیشہ ور قاتلوں کی چند گولیوں نے ہمیشہ کے لیے آرام میں تبدیل کر دیا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

ارشد اقبال Apr 30, 2015 10:17pm
میں وفاقی اردو یویونیورسٹی عبدالحق کیمپس کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے ان خوش قسمت طلباء میں شامل ہوں جن کی صحافتی تربیت میں شہید پروفیسروحید الرحمان کا بڑا ہاتھ ہے لیکن ان کے قتل نے میری خوش قسمتی پر سوالیہ نشان لگادیا ہے ۔بی اے آنرز کے تیسرے سال اور ایم اے(ایک سال) میں پروفیسر صاحب ہمیں عملی رپورٹنگ سکھاتے رہے اور ان کی ٹیچنگ میں مجھ سمیت تمام سنجیدہ طلباء نہ صر ف دلچسپی لیتے تھے بلکہ ہم محظوظ بھی ہوتے تھے۔پروفیسر صاحب سوال کرنے والے طلباء کی حوصلہ افذائی کرتے تھے جس کی وجہ سے طلباء مزید دلچسپی لیتے۔دوران ٹیچنگ انکے ہنسی مذاق نے ہمارے مابین باپ بیٹوں جیسے مضبوط رشتے کی بنیاد رکھی اور ہماری توجہ بھی انکی کلاس میں بڑھ گئی۔ہم ان کو سر یاسر کے نام سے پکارتے لیکن وہ کہتے کہ میں سب طلباء کا دوست ہوں اور اگر کوئی صرف یاسر کہہ کر پکارے گا تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن ہم میں سے کسی نے پروفیسر صاحب کو انکے نام سے پکارنے کی جسارت نہیں کی۔پروفیسر صاحب جیسے لاکھوں میں ایک استاد کو دن دیہاڑے قتل کرنے والے کون ہیں؟ ان کے قاتلوں کو کیفر کردار تک کون پہنچائے گا ؟