کارل ڈینکے: ایک 'ہمدرد' قاتل

اپ ڈیٹ 17 جولائ 2015
غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنے والی اس 'فلاحی' شخصیت کی حقیقت جان کر سب کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ — Creative Commons
غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنے والی اس 'فلاحی' شخصیت کی حقیقت جان کر سب کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ — Creative Commons

ذرا سوچ کر بتائیں آپ اپنے اطراف موجود لوگوں کو کتنا جانتے ہیں؟ کیا آپ یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے پڑوس میں رہنے والا انتہائی ملنسار اور مہمان نواز خاندان کسی خطرناک سرگرمی میں ملوث نہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ انسانی ذات کے اتنے خفیہ پہلو ہیں کہ عمر گذر جانے کے باوجود ہم کسی کی شخصیت کا پوری طرح کھوج نہیں لگا پاتے۔

کارل ڈینکے کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔

کارل ڈینکے ایک شفیق طبیعت کا امن پسند شخص تھا۔ اپنی ملنسار شخصیت اور فلاحی خدمات کی بنا پر وہ پورے شہر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔ وہ غریبوں اور مسکینوں کی امداد کرتا، اور بے گھروں اور مسافروں کو اپنے گھر میں پناہ دیتا، یہی وجہ ہے کہ کمیونٹی میں اسے پاپا ڈینکے کے نام سے یاد کیا جاتا۔

پاپا ڈینکے 11 فروری 1860 کو منسٹر برگ، سیلسیا، پروشیا (موجودہ پولینڈ) میں پیدا ہوا۔ اس کا تعلق ایک امیر کاشتکار گھرانے سے تھا۔ اس کی ابتدائی زندگی کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات میسر نہیں، یہاں تک کہ اس کی تاریخِ پیدائش پر بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ بچپن میں وہ خاصا کند ذہن تھا، اسی لیے اکثر ٹیچرز کی ڈانٹ ڈپٹ کا نشانہ بنتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ بارہ سال کی عمر میں گھر سے بھاگ نکلا۔

کارل ڈینکے کی شخصیت میں کوئی مشتبہ بات نہ تھی۔ نہ وہ شراب کا شوقین تھا، نہ ہی شباب کا، اور مزاج میں تشدد کا دور تک شائبہ نہ تھا۔ اس کے بارے میں اکثر کہا جاتا کہ نہ وہ مردوں میں سے ہے اور نہ ہی عورتوں میں سے۔

پچیس سال کی عمر میں باپ کی موت کے بعد اس نے اپنے حصّے کی رقم سے تھوڑی زمین خریدی لیکن اس پر کاشتکاری میں ناکامی کے بعد اسے بیچ کر گھر خرید لیا۔ بہرحال ملک کی گرتی ہوئی اقتصادی صورتحال کے وجہ سے وہ گھر بھی زیادہ دن اس کے پاس نہ رہ سکا۔ مجبوراً وہ گھر بیچ کر اس سے متصل ایک اپارٹمنٹ میں شفٹ ہوگیا۔ اپارٹمنٹ کے پیچھے ایک چھوٹی سی دکان تھی جسے وہ بطور ورکشاپ استعمال کرنے لگا۔

اس کی کمائی کا واحد ذریعہ چمڑے کے بنے بیلٹ، تسمے، اور نمکین گوشت تھا جو وہ راکلا مارکیٹ میں بیچتا۔ لوگ اس کا بنایا ہوا نمکین گوشت بڑی رغبت سے کھاتے۔ یہ کام وہ گھر گھر جا کر بھی کرتا۔

اپنے آپ میں مگن رہنے والا کارل ڈینکے تنہائی پسند تھا۔ اس نے کبھی شادی نہیں کی، اور نہ ہی کسی عورت کے ساتھ معاشقہ چلایا۔ خاندان کے دیگر افراد سے بھی ملنا جلنا کم ہی رکھتا، لیکن یہ باتیں ایسی نہ تھیں کہ جس پر اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔ کم از کم یہ شک تو بالکل نہیں کیا جاسکتا تھا کہ لوگوں کی مدد کے لیے ہمیشہ پیش پیش نرم خو پاپا ڈینکے ایک سیریل کلر اور آدم خور ہے جس نے سنہ 1904 سے لے کر 1924 کے درمیان کم و بیش چالیس افراد کا قتل کیا۔

کارل ڈینکے کی حقیقت سے پردہ 21 دسمبر 1924 کو اٹھا، جب اس کے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے گیبریل نامی کوچوان نے چیخوں کی آواز سنی۔ یہ سوچ کر کہ کہیں پاپا ڈینکے کسی مصیبت میں نہ ہوں، وہ گھر کی طرف دوڑا۔ اندر داخل ہونے پر اسے ڈینکے تو نہیں لیکن انتہائی زخمی حالت میں میں ایک شخص ملا جس کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ بے ہوش ہونے سے پہلے اس شخص نے گیبریل کو بتایا کہ پاپا ڈینکے نے اس پر قاتلانہ حملہ کیا۔

ڈینکے کو حراست میں لے تو لیا گیا، مگر پولیس اس کے خلاف کسی قسم کی کارروائی سے ہچکچا رہی تھی۔ وہ کمیونٹی کا ایک عزت دار شخص تھا۔ اس کے خلاف ایک آوارہ ، بے گھر آدمی کے الزام پر کیسے یقین کیا جاسکتا تھا؟

بہرحال ڈینکے نے ایک ذمہ دار شہری کی طرح جرم قبول کرلیا، لیکن اس کا مؤقف تھا کہ یہ قدم اس نے اپنے دفاع میں اٹھایا۔ پولیس نے اس بیان پر یقین بھی کرلیا تھا، لیکن بھکاری کو مطمئن کرنے کی خاطر کچھ وقت کے لیے ڈینکے کو حوالات کے پیچھے بند کردیا گیا۔

ممکن ہے ڈینکے کی اصلیت کبھی سامنے نہ آتی، اگر گرفتاری کی رات پولیس نے اسے اپنے سیل میں پھندے سے لٹکتا ہوا نہ پایا ہوتا۔ اپنا پول کھل جانے کے ڈر سے کارل ڈینکے نے خودکشی کرلی تھی۔

کارل ڈینکے کی بعد از موت تصویر۔ — denke.org
کارل ڈینکے کی بعد از موت تصویر۔ — denke.org

بعض تفصیلات کے مطابق پاپا ڈینکے کی پراسرار خودکشی کے باوجود پولیس کو کسی قسم کا شک نہ گزرا۔ یہ راز ان پر تب افشاء ہوا جب پاپا ڈینکے کی لاش اور اثاثے اس کے لواحقین کے حوالے کرنے کا وقت آیا۔ اس مقصد کے لیے پولیس کارل ڈینکے کے گھر میں داخل ہوئی، جہاں کا منظر دیکھ کر کہنہ مشق افسروں کے بھی ہوش اڑ گئے۔

ڈینکے کے اپارٹمنٹ میں درجنوں شناختی کاغذات ملے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں جیلوں یا ہسپتالوں سے فارغ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ خون آلود مردانہ کپڑے بھی الماری میں پائے گئے۔ بڑے بڑے مرتبانوں میں نمک کے محلول میں رکھے گوشت کے ٹکڑے اور بعض برتنوں میں چربی رکھی تھی۔ اس کے علاوہ چمڑے کے بیلٹس، انسانی بالوں سے بنے تسمے، اور سٹریپس بھی پائے گئے۔ ایک جگہ انسانی ہڈیاں گرم پانی میں ابالنے کے لیے رکھی ہوئی تھیں۔ لیبارٹری ٹیسٹس کے مطابق یہ سب انسانی اعضاء تھے۔

یہ ایک سنسنی خیز اور ناقابل یقین انکشاف تھا۔ آٹھ ہزار نفوس پر مشتمل اس ٹاؤن کے لوگ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کے پاپا ڈینکے جیسا مشفق، صلح جو اور معقول انسان ایک سیریل کلر اور آدم خور بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی اتنی دہشت ناک نہیں تھی جتنی یہ کہ ڈینکے ایک عرصے سے ٹاؤن والوں کو انسانی گوشت اور انسانی اعضاء کی بنی ہوئی اشیاء فروخت کر رہا تھا۔

جی ہاں، ایک عرصے تک انسانی گوشت ٹاؤن کے باسیوں کے دسترخوان کی زینت بنتا رہا تھا، لیکن حقیقت سامنے آنے کے بعد کمیونٹی نے اس سے یکسر انکار کردیا۔ اس کے علاوہ پولیس کو یہ بھی شک تھا کہ ڈینکے اپنے مہمانوں کو بھی انسانی گوشت کھلاتا تھا۔ گھر سے ملنے والے شواہد سے پولیس نے اندازہ لگایا کہ ڈینکے کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد کم و بیش چالیس تھی۔

بظاہر معقول اور صحیح الدماغ کارل ڈینکے کی اس حرکت کے پیچھے کیا محرکات تھے، اس سوال کا جواب تبھی ملتا جب ڈینکے زندہ ہوتا۔ شاید ان جرائم کی وجہ اس میں صحیح اور غلط کے ادراک کی کمی تھی، یا ہوسکتا ہے کہ وہ کسی ذہنی مرض کا شکار ہو۔ بہرحال اس کی ابتدائی زندگی کی طرح یہ پہلو بھی عام نظر سے اوجھل ہی رہا۔

اس پورے قصّے میں جو بات دلچسپ ہے وہ یہ کہ اتنی بڑی آبادی پر مشتمل ٹاؤن کے کسی فرد کو ڈینکے کی سرگرمیوں پر کبھی شک نہیں ہوا۔ نہ کبھی کسی نے اس کے گھر سے آنے والی ناگوار بدبو پر ناک بھوں چڑھایا۔ نہ کسی نے اس سے یہ سوال کرنا گوارہ کیا کہ بھیا جب پورے ملک میں چند گرام گوشت سونے کے بھاؤ بک رہا ہے، تو تم بھلا اتنی بڑی مقدار میں گوشت کہاں سے لے آتے ہو اور بیچتے بھی معقول قیمت پر ہو۔

اکثر اسے بالٹی بھر بھر کر خون اپنے گھر کے پچھواڑے بہاتے دیکھا گیا۔ اکثر رات کے وقت اس کے گھر سے اوزار چلانے کی آوازیں بھی آتیں۔ نہ ہی کوئی یہ جاننے کی زحمت کرتا کہ وہ رات کے اندھیرے میں بڑے بڑے تھیلوں میں کیا بھر کر باہر لے جاتا ہے، اور نہ ہی یہ کہ یہ کس کے پرانے کپڑے اور جوتے ہیں جو وہ لوگوں کو بیچتا ہے۔

غرضیکہ ڈینکے کے نیک خو مزاج نے ٹاؤن والوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی یا پھر شاید یہ سستا گوشت تھا جس نے کبھی لوگوں کا دھیان ڈینکے کی مشکوک سرگرمیوں کی طرف نہیں جانے دیا۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کسی ڈاک ٹکٹ کے شوقین کی طرح ڈینکے کا پسندیدہ مشغلہ انسانی دانت جمع کرنا اور ان کی قسم اور ساخت کے اعتبار سے محفوظ کرنا تھا۔

ڈینکے کی کہانی کو منظر عام پر سنہ 1999 میں سلے سیان لائبریری آف راکلا یونیورسٹی کی نگران مسز لوتھینا بائیلی لے کر آئیں۔ انہیں لائبریری کی پرانی دستاویزات سے کارل ڈینکے کے بارے میں سراغ ملا۔ ان کا تحقیقی مضمون مختلف اخبارات میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ کارل ڈینکے کے جرائم سے متعلق سامان بھی سنہ 1999 میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ کسی بھی خطے کے لیے بات ہرگز قابل فخر نہیں کہ وہاں کا ایک باشندہ کسی زمانے میں ایک آدم خور سیریل کلر تھا، اسی لیے زیبائس کے آدم خور کا ذکر کم ہی کیا جاتا ہے۔

کارل ڈینکے کی دل دہلا دینے والی کہانی کوئی اکلوتی نہیں۔ ہمارے آس پاس ایسے کئی لوگ موجود تھے، ہیں، اور شاید ہمیشہ رہیں گے جو بظاہر بہت اچھے، ہمدرد، اور رحم دل ہوتے ہیں، لیکن ان کے اس چہرے کے پیچھے ایک اور کریہہ چہرہ موجود ہوتا ہے، جس کو یہ ہمیشہ چھپائے رکھتے ہیں۔

ڈینکے کے حوالے سے ان روح فرسا انکشافات کو اس کے مردہ جسم کے ساتھ ہی زمین میں دفن کر دیا گیا۔ اس بارے میں کسی قسم کی بھی بڑی خبر بننے سے روکا گیا۔ ظاہر ہے کہ یہ ٹاؤن کی نیک نامی کا سوال تھا، اور ویسے بھی اس کے شکار بے گھر بھکاری ہی تو تھے جن کو کوئی پوچھنے والا نہ تھا، خس کم جہاں پاک۔ باقی ڈینکے جیسے اور کتنے لوگ اب بھی انسانی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں، اس سوال کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں۔


اس مضمون کی تیار میں denke.org ،Wikipedia، اور murderpedia.org سے مدد لی گئی ہے۔

تبصرے (10) بند ہیں

نجیب احمد سنگھیڑہ May 20, 2015 09:49pm
کارل ڈینکے جیسی خصوصیات کے حامل لوگ آج بھی ‘لاؤڈ اسپیکر‘ کی شکل میں موجود ہیں۔ کالعدم تنظیمیں بھی کارل ڈینکے کی طرح اپنی نیک نامی پیدا کرتی ہیں۔ سیاسی اور لسانی جماعتیں بھی ایمبولینس سروس شروع کر کے انسان دوست ہونے کا ڈرامہ کرتی ہیں۔ کارل ڈینکے جیسے لوگ گڑ دیکر مارتے ہیں، ان کو روکنے کے لیے ان کی وہ باتیں سننے کی کوشش کرنی ہو گی جو ان کی زبان سے ادا نہیں ہوتیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کا پولیس اور عدالتی کلچر بھی لوگوں کو ڈینکے جیسے افراد کی نشاندھی کرنے سے روکتا ہے کہ پھر بندہ پولیس اسٹیشنز اور عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے آدھی عمر اور پیسہ گنوا بیٹھتا ہے۔
الیاس انصاری May 20, 2015 10:13pm
تعجب خیز
Inder Kishan May 20, 2015 10:16pm
انٹرنیٹ پر موجود معلومات کو دیکھا جائے تو باآسانی اندازہ ہوجائے گا کہ کتنی محنت سے لکھا گیا ہے یہ آرٹیکل۔ دستیاب معلومات بہت ہی کم ہیں۔
[email protected] May 21, 2015 10:32am
مجھے اس آخری جملے پر اعتراض ہے کیا فقیر اور بھکاری انسان نہیں ہوتے؟؟ جو آپ نے ان کو خص کم جہاں پاک کہا ،، شرم کی بات ہے
Ahmad May 21, 2015 12:02pm
بہت خوب کہ آپ نے حوالے بھی دیے ہیں۔ ورنہ تو لوگ کسی بھی ویب سائٹ سے اٹھا کر اپنے نام سے چھاپ دیتے ہیں۔
Libra May 21, 2015 01:22pm
HORRIFYING ...
aftab May 21, 2015 02:49pm
اس طرح تو معلوم ہوتا ہے کہ کہیں ہم میں بھی ایک کارل ڈینکے موجود یے۔ جو وقتافوقتا باہر آتا ہے، سوسایٹی کے لوگوں کا قتل ، معاشی ہو اخلاقی ہو یا جسمانی ہو، کر کے پھر سے سادھو کا کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔ ھم میں سے ہر شخص کو سوچنا ہو گا کہ کردار اور ریپوٹیشن میں فرق ، جبکہ کردار برا ہو اور ریپوٹیشن اچھی ، معاشرے کو تںزلی کی کس تہہ تک لے جاتا ہے۔ جہاں جو پہلا فرق ختم ہوتا ہے ۔ وہ انسان اور حیوان کا ہے۔
مہمد راحیل یوسف May 22, 2015 02:10pm
ڈینکے کسی شخص کا نہیں ایک کیفیت کا نام ہے اور معاشرے کے ایک سیاہ پہلو کی عکاسی ہے
قیصر اعوان May 23, 2015 07:51pm
@نجیب احمد سنگھیڑہ صحیع بولا۔
قیصر اعوان May 23, 2015 07:56pm
شکر ہے کہ ہمارے ملک میں کچھ اچھے لوگ ابھی باقی ہیں۔ ورنہ جہاں کتوں کے گوشت کو بکرے کا گوشت کہ کر بیچا جا رہا ہے۔ پاکستانی اتنا گر گیا ہے کہ کتے بھی اب اپنی جان بچاتے پھرتے ہیں۔ 600000 روپے میں تو آپ کو انسان مل جاتا ہے وہ بھی لڑکی جسے آپ نوچیں، کھائیں یا پھر کسی کو بیچ دیں۔