پرامن جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی پاکستانی ترجیح قرار

04 جون 2015
سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری — اے ایف پی فائل فوٹو
سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری — اے ایف پی فائل فوٹو

واشنگٹن : پاکستان نے امریکی حکام کو کہا ہے کہ پرامن جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی توانائی کے بحران کے شکار ملک کی سماجی و معاشی ترجیح ہے۔

یہ بات بدھ کو جاری ہونے والے ایک مشترکہ اعلامیے میں سامنے آئی۔

پاکستان نے امریکا کو ایک بار پھر یقین دہانی کرائی " وہ خطے میں جوہری دھماکے کرنے میں پہل نہیں کرے گا" اور متعدد جوہری عدم پھیلاﺅ کے معاہدوں پر دستخط سے انکار کی وضاحت بھی کی گئی۔

یہ بیان پاکستان اور امریکا کے درمیان سیکیورٹی، اسٹرٹیجک استحکام اور جوہری عدم پھیلاﺅ کے حوالے سے قائم ورکنگ گروپ کے درمیان واشنگٹن میں مذاکرات کے 7 ویں دور کے بعد جاری کیا گیا تاہم یہ عندیہ بھی دیا گیا کہ امریکا کی جانب سے اس طرح کے معاہدوں میں پاکستان کی شمولیت کے لیے امریکی مفادات پر عملدرآمد کیا جاتا رہے گا۔

ایک سفارتی مبصر نے کہا کہ اس بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ " یہ صرف باہمی بات چیت کا ایک اور دور نہیں تھا"۔

دونوں اطراف کی جانب سے پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے حساس معاملات، اس پروگرام کے اثرات اور امریکا و ہندوستان سے پاکستان کے تعلقات سمیت پاک ہندوستان تعلقات میں بہتری کے لیے اعتماد سازی کے متعدد اقدامات کو اٹھایا گیا۔

اس بیان سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ کچھ معاملات میں دونوں اطراف کے درمیان قابل اطمینان مفاہمت پیدا ہوچکی ہے جبکہ دیگر معاملات میں وہ ایک دوسرے سے اتفاق نہیں کرتے۔

پاکستان کی جانب سے سختی سے ان تجاویز کی مخالفت کی گئی جس میں یکطرفہ طور پر اس کے جوہری اثاثوں میں کمی لانے کا کہا گیا اور روایتی ہتھیاروں میں ہندوستان کے ساتھ عدم توازن میں کمی کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔

امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اجلاس کے موقع پر " پاکستان نے پرامن جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی کی ضرورت پر زور دیا جو کہ سماجی و معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے"۔

مذاکرات سے ایک روز قبل سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے واشنگٹن میں ایک بریفننگ کے دوران کہا تھا کہ پاکستان کو بھی اسی طرح کی سول جوہری تعاون کے معاہدے کا حق ہے جیسا امریکا نے ہندوستان کے ساتھ کیا ہے۔

اعزاز چوہدری اور امریکی انڈر سیکرٹری برائے آرمز کنٹرول و انٹرنیشنل سیکیورٹی روز گوٹیمویللر نے اجلاس کی مشترکہ صدارت کی۔

بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی جانب سے سول جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی پر توجہ دی گئی جبکہ امریکا کی جانب سے اسلام آباد پر جوہری عدم پھیلاﺅ کے کسی بین الاقوامی معاہدے کا حصہ بننے کے زور دیا گیا۔

بیان میں بتایا گیا ہے " دونوں اطراف نے پاکستان کے بین الاقوامی جوہری عدم پھیلاﺅ کے معاہدے میں شمولیت کے حوالے سے اتفاق پر زور دیا گیا"۔

تاہم پاکستانی سیکرٹری خارجہ نے اپنی بریفننگ کے دوران کہا تھا کہ پاکستان جوہری عدم پھیلاﺅ کے معاہدے این پی ٹی پی پر دستخط نہیں کرے گا کیونکہ وہ امتیازی ہے۔

مشترکہ اعلامیے کے مطابق امریکا اس ایجنڈے پر عملدرآمد جاری رکھے گا جو صدر باراک اوباما نے 2009 میں پراگ کے خطاب کے دوران طے کیا تھا۔

بیان میں بتایا گیا ہے " پاکستان نے وسیع قابل انشقاق میٹریل ٹریٹی (ایف ایم ٹی) کے حوالے سے اپنی ترجیحات کو واضح کیا جو موجودہ ذخیرے کے حوالے سے تھا"۔

پاکستان نے اس پر بھی زور دیا " ایف ایم ٹی پر پوزیشن کا انحصار قومی سیکیورٹی مفادات اور جنوبی ایشیاءکی اسٹرٹیجک استحکام کے مقاصد پر ہوگا"۔

پاکستان نے اصرار کیا کہ اس کے جوہری پروگرام پر توجہ کی واحد وجہ ہندوستان کے جوہری خطرے سے نمٹنا ہے اور وہ اسی صورت میں ایک معاہدے میں شمولیت اختیار کرسکتا ہے جب اس کی تشویش کا ازالہ کیا جائے۔

بات چیت کے دوران کافی موضوعات زیربحث آئے جن میں جوہری سیکیورٹی کے لیے بین الاقوامی اقدامات کو بڑھانا، جوہری توانائی کی پرامن درخواستیں، جوہری برآمدات پر کنٹرول، خطے کا استحکام اور سیکیورٹی شامل تھے۔

امریکی وفد نے پاکستان کی جانب سے اسٹرٹیجک تجارت کے کنٹرولز کو جوہری سپلائرز گروپ اور دیگر کثیرالملکی برآمدی کنٹرول کے معاہدوں سے ہم آہنگ کرنے کو سراہا۔

دونوں وفود نے اس بات کا اعادہ کیا کہ دونوں ممالک بڑی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلاﺅ کو روکنا اور غیرریاستی اداکاروں سمیت ممالک کو فراہمی کی روک تھام وغیرہ کو بہت زیادہ اہمیت دی جائے گی۔

امریکا نے اپنے جوہری ذخائر میں کمی کا تذکرہ کرتے ہوئے جوہری ہتھیاروں کے ٹیسٹوں پر پابندی کے جامع معاہدے (سی ٹی بی ٹی)کے حوالے سے کانگریشنل اجازت کے لیے اقدامات پر وضاحت کی اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ مزید جوہری دھماکے نہیں کرے گا۔

پاکستان نے سی ٹی پی بی کے معاہدے کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے حوالے سے اپنی حمایت جاری رکھنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ہمیشہ سے ہی اس مﺅقف کا اظہار کیا کہ ہو خطے میں جوہری دھماکوں میں پہل نہیں کرے گا۔

دونوں اطراف نے خطے میں اسٹرٹیجک استحکام کے لیے مشترکہ مفادات کی وضاحت کی۔ امریکا نے وزیراعظم نواز شریف کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 2014 کے بیان کا خیرمقدم کیا جس میں انہوں نے استحکام کو فروغ دینے کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اعتماد سازی کے نئے اقدامات کو تلاش کرنے کے لیے تیار ہے۔

پاکستان نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ وہ قابل اعتبار کم سے کم دفاعی صلاحیت کے ساتھ اعتماد سازی کے عمل کو بڑھانے اور مسلح تصادم کے خطرے کو کم کرنا چاہتا ہے۔

پاکستان اور امریکا نے بامقصد مذاکرات کی اہمیت، علاقے کی ترقی اور جنوبی ایشیاءمیں مستقل امن کی توقع سمیت خطے کے تنازعات کو پرامن انداز سے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

امریکا نے پاکستان کی جانب سے جوہری سیکیورٹی کو مضبوط کرنے کے لیے اقدامات پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے برآمدی کنٹرول کو مضبوط کرنے اور سرحدی سیکیورٹی بشمول سرحدی کراسنگز پر ریڈی ایشن مانیٹر کرنے والے آلات کی تنصیب جیسے اقدامات کا خیرمقدم بھی کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں