اسلام آباد: تعلیمی شعبے پر خصوصی توجہ کے لمبے چوڑے دعووں کے باوجود صوبائی اور وفاقی حکومتیں پچھلے پانچ سالوں کے دوران شرح خواندگی میں کوئی بہتری پیدا نہیں کرسکتی ہیں۔

اقتصادی سروے کے مطابق 2010-11ء میں ملک کی شرح خواندگی 58 فیصد تھی، جبکہ 2013-14ء کے دوران اس میں درحقیقت کوئی بہتری نہیں آئی۔

اس سروے کا کہنا ہے کہ بہت سے ترقی پذیر ملکوں کی مانند پاکستان تعلیم کے میدان میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں کرسکا، اور اس کی 42 فیصد آبادی اب بھی پڑھنے لکھنے کے قابل نہیں ہے۔

اقتصادی سروے کے مطابق اسکول میں داخلے کی شرح کم اور اسکول چھوڑنے والے طالبعلموں کی شرح بہت زیادہ ہے۔

تعلیم کے لیے بجٹ میں مخصوص کیا جانے والا حصہ پچھلی دہائی سے لگ بھگ دو فیصد پر برقرار ہے، اس میں سے بھی ایک بڑا حصہ مسلسل تنخواہوں جیسے اخراجات میں استعمال ہوجاتا ہے۔

اقتصادی سروے کا کہنا ہے کہ شرح خواندگی تعلیم کے اہم پیمانوں میں سے ایک ہے، اور اس کی بہتری سے قومی فلاح و بہبود کے دیگر اہم پیمانوں پر طویل مدتی اثرات کا امکان ہوتا ہے۔

سروے نے پاکستان کی سماجی اور معیارِ زندگی کی پیمائش کے سروے 2013-14ء کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آبادی (دس سال اور اس سے زیادہ عمر کے لوگ) کی شرح خواندگی 58 فیصد رہی، جبکہ 2012-13ء میں یہ شرح 60 فیصد تھی، جس میں دو فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں