شریف کون ہے؟

اپ ڈیٹ 06 ستمبر 2017
— Creative Commons
— Creative Commons

یہ آلوک کمار ساتپوتے کے افسانچوں کی پانچویں قسط ہے۔ گذشتہ افسانچے یہاں پڑھیں۔


شرافت

واقعی یار، آج کل شرافت کا زمانہ ہی نہیں رہ گیا ہے۔ لوگ شریف آدمی کی شرافت کو اس کی کمزوری سمجھنے لگتے ہیں۔

دوست، آج کل کمزور آدمی ہی شریف ہے۔

اکلوتا

(بچے کے بچپن میں)

شوہر: کیوں تم نے اپنے بچے کے لیے پھر کھلونا کار خریدی۔

بیوی: اجی ہمارا ایک ہی تو بچہ ہے، بے چارے کو کار دیکھ کر بڑی کشش ہورہی تھی۔

شوہر: لیکن پندرہ کھلونا کاریں تو پہلے ہی گھرمیں پڑی ہوئی ہیں۔ بھئی خرچ کرنے کے پیچھے کوئی لاجک ہونی چاہیے۔

بیوی: اجی لاجک فاجک چھوڑیے، ہمیں اپنے بچے کی خوشی دیکھنی چاہیے۔ آخرہمارا ایک ہی تو بچہ ہے۔

(کچھ روزبعد)

شوہر: تم بچے کو یہ کیا فالتو چیزیں کھلا رہی ہو؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ بچوں کو بازاری چیزیں نہیں کھلانی چاہیئں؟

بیوی: اجی، بچہ ضد کر رہا تھا سو میں اسے یہ کھلانے بیٹھ گئی۔ آخرہمارا ایک ہی تو بیٹا ہے۔

(بچے کے لڑکپن میں)

شوہر: میں نے سنا ہے کہ ہمارا بیٹا آج کل اسکول میں غنڈہ گردی کرنے لگا ہے اور اپنے ساتھیوں کی پٹائی کرتا رہتا ہے۔

بیوی: اجی آج کے زمانے میں غنڈہ گردی بہت ضروری ہے نہیں تو لوگ حاوی ہونے لگتے ہیں۔ میں اپنے بچے کو آپ کے جیسا نہیں بنانا چاہتی، سمجھے آپ؟

(بچے کی جوانی میں)

شوہر: لو بھئی تمہارا اکلوتا بیٹا جیل چلا گیا۔

بیوی: ہائے، ہائے، سب تمہاری وجہ سے ہے۔ تم نہایت ہی غیرذمہ دار آدمی ہو جو اکلوتے بیٹے کی طرف سے بے خبر رہے۔ جائیے اب ضمانت کا انتظام کریں، آخرہمارا ایک ہی تو بیٹا ہے۔

فکر

”سنیے جی، ہم ایک ہی بچہ رکھیں گے اور اسی کی پرورش ٹھیک ڈھنگ سے کریں گے۔ میں اپنے اس بچے کے پیار میں کسی قسم کا حصہ نہیں کرنا چاہتی۔ ویسے بھی تمہاری کوئی 'اوپری آمدنی' تو ہے نہیں کہ ہم ایک سے زیادہ بچے کے بارے میں سوچیں۔“

یہ باتیں تو تم اپنے احساسِ محرومی کی بناء پر کہہ رہی ہو۔ تمہارے پانچ چھ بھائی بہن رہے اور تمہاری طرف بے رخی کی نظروں سے دیکھا گیا۔ اسی لیے تم ایسا کہہ رہی ہو۔

اجی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ ملک کی آبادی میں کتنی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ہمیں فیملی پلاننگ کروا کر ملک کی ترقی میں حصہ ڈالنا چاہیے۔

بچوں کا بڑھنا ملک کی ترقی میں اتنی رکاوٹ نہیں ہے جتنا 'اوپری آمدنی' میں اضافہ، سمجھی۔

دیکھیے فی الحال میں آپ سے بحث کرنے کے موڈ میں نہیں ہوں۔

ماں

ایک حاملہ کتیا کو ہم لوگ کبھی کبھار رات کے بچا ہوا کھانا دے دیا کرتے تھے۔ وقت آنے پر اس نے بچے دیے۔ بچوں کو دودھ مسلسل ملتا رہے یہ سوچ کر وہ کتیا تھوڑی تھوڑی دیر بعد کھانے ملنے کی امید میں ہمارے گھر پر آجاتی اور ناامید ہو کر چلی جاتی۔ کچھ روز بعد وہ اپنے بچوں کے ساتھ آنے لگی اور انہیں کچھ دے دینے کی درخواست کرنے لگی۔

آج اس کے بچے بڑے ہو گئے ہیں وہ ہمارے صحن میں کھانے کے لیے جھگڑتے رہتے ہیں اور اپنی ماں کو تو صحن میں آنے تک نہیں دیتے۔

حل

"وہ عالم تو اپنے شدید خیالوں سے لوگوں کو بڑی جلد ہی بااثر کر دیتا ہے۔ وہ تو ہمارے حکم کو بھی چیلنج کرنے لگا ہے۔ ہمارے لیے تو وہ دن بدن خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ اسے جلد سے جلد ٹھکانے لگانے کی ترکیب سوچنی ہوگی۔" ایک بادشاہ نے اپنے سیاسی مشیر سے کہا۔

"جہاں پناہ! ہماری سلطنت کے سبھی سنگ تراشوں کو اس عالم کے بہت سارے بت بنانے کا حکم دے دیجیے، اور سلطنت کے سبھی چوراہوں پر ان بتوں کو نصب کروا دیں۔ ساتھ ہی رعایا کے بیچ اسے دیوتا کے طور پر مشہور کروا کر اس کی عبادت شروع کروا دیں۔ کچھ دنوں بعد آپ پائیں گے کہ اس عالم کے خیالات غائب ہوگئے ہیں اور صرف بت ہی بت باقی ہیں، جو ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ پائیں گے۔" مشیر نے اپنے لبوں پر شاطر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔

اور بادشاہ نے ایسا ہی کرکے اپنی ملوکیت بچالی۔

تبصرے (2) بند ہیں

Athar Hassan Jun 10, 2015 01:11am
very impressive,,,yhi hal ajkal muslim hukmarano ka ha,, jinhon n buttoon ke manid log chor rakhay hn mulk k konay konay mn
ضیاء Jun 10, 2015 06:55am
!!!بہت خوب