فیصل آباد: سرکاری ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے آن لائن رجسٹریشن سسٹم سے دھوکے باز فائدہ اُٹھارہے ہیں۔

جس کا استعمال کرتے ہوئے دھوکے باز جعلی یونٹس رجسٹرڈ کروالیتے ہیں، یوں قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔

ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن(ڈی آئی اینڈ آئی) کی جانب سے مقامی ان لینڈ ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے کچھ کیسز کی تفتیش کے دوران اس فراڈ کا سراغ لگا ہے۔

ڈی آئی اینڈ آئی کے حکام نے اس سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے ایف بی آر اسلام آباد کو ایک خط بھی تحریر کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے دھوکہ دہی کے طریقوں کی جانچ پڑتال میں مدد دینے کے لیے اس سسٹم کو بہتر بنایا جائے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مختلف کیسز کی تفتیش کے دوران یہ علم ہوا کہ دھوکے باز افراد رجسٹریشن کے لیے بزنس کے حصوں کا انتخاب کرتے ہیں، جو عموماً مرکزی رجسٹریشن آفیسر کی (فزیکل) تفتیش سے بچ جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح درجنوں یونٹس (جن میں زیادہ تر پیکیجنگ، کیمیکل اور ٹیکسٹائل کے شعبے کے ہوتے ہیں) بچوں، خواتین اور ملازمین کے ناموں پر رجسٹرڈ رکرائے گئے تھے، جبکہ انہیں خاندان کے مرد اراکین یا سرپرستوں کے جانب سے آپریٹ کیا جارہا تھا۔

خواتین کے نام پر ان یونٹس کی رجسٹریشن حاصل کرکے اصل مالکان ٹیکس چوری کے لیے بددیانتی یا بے ضابطگی کے کیس میں کارروائی سے بچنے کے لیے ’پردے‘ کا بہانہ کرتے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مینوفیکچرنگ یونٹس کی اکثریت بطور ہول سیلرز، جنرل آرڈر سپلائرز، برآمدکنندگان، درآمد کنندگان یا تاجروں کے طور پر رجسٹرڈ کروایا ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے یونٹس کی رجسٹریشن کے وقت کسی محکمے کی جانب سے فزیکلی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کےیونٹس میں سے زیادہ تر جعلی تھے اور ایف بی آر کے آن لائن سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے رجسٹرڈ کیے گئے تھے۔

جس مقصد صرف یہ تھا کہ ایس آر او 283 (1)/2011، کے نفاذ سے بچا جاسکے، جو کہ سیلز ٹیکس اور ایکسائز کے معاملات سے متعلق ہے۔

ذرائع نے کہا کہ ایف بی آر کو 2011ء میں اور اس کے بعد اس طرح کے تمام یونٹس کی دوبارہ تصدیق کی تجویز دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سینٹرل رجسٹریشن آفس اسلام آباد کی جانب سے فراہم کیے گئے یونٹس کی فزیکلی تصدیق قانون میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق نہیں کی جارہی تھی۔

جبکہ متعلقہ دستاویزات میں سے کرایہ نامہ، یوٹیلیٹی کنکشن وغیرہ کی بھی مناسب تصدیق نہیں کی جارہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ سیلز ٹیکس کی اصل دستاویزات کی فراہمی بھی مناسب طریقے سے نہیں کی گئی تھی۔

ایک کیس کی تفتیش کے دوران سات جعلی یونٹس رجسٹرڈ پائے گئے، جبکہ ان میں سے تین یونٹس کی سیلز ٹیکس کی دستاویزات غیرمتعلقہ افراد کے حوالے کردی گئی تھیں۔

یوں ان دھوکے بازوں نے قومی خزانے کو 20 کروڑ 60 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں