خون کے رشتے: کیا آپ مجھے زندگی دیں گے؟

ایمرجنسی میں اہلخانہ کے پاس خون اکٹھا کرنے کے لیے وقت نہیں ہوتا اس لیے خون کی فراہمی کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ — فوٹو بشکریہ لکھاری
ایمرجنسی میں اہلخانہ کے پاس خون اکٹھا کرنے کے لیے وقت نہیں ہوتا اس لیے خون کی فراہمی کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ — فوٹو بشکریہ لکھاری

جب نسرین فائرنگ کی زد میں آئیں اور انہیں ہسپتال لے جایا گیا، تو ان کے رشتے داروں سے خون کا انتظام کرنے کو کہا گیا۔ ہسپتال انہیں تب تک خون فراہم نہیں کر سکتا تھا جب تک ان کی جگہ کوئی اور خون کا عطیہ نہ دے، کیونکہ پاکستان میں اس طرح کی صورتحال میں ادلا بدلی چلتی ہے۔ اگر آپ خون لینا چاہتے ہیں، تو آپ کو خون دینا پڑے گا۔ ہسپتال گھر والوں کو بلاتا ہے، انہیں خون کی ضرورت سے آگاہ کرتا ہے، اور پھر انہیں انتظامات کرنے پڑتے ہیں۔

وہ گھرانے جو پہلی بار اس مرحلے سے گزر رہے ہوں ان کے لیے یہ صدمے جیسی صورتحال ہوتی ہے۔ خون کی اتنی ہی تھیلیوں کا عطیہ دینا پڑتا ہے جتنی کہ مریض کو درکار ہوتی ہیں۔ نسرین کی طرح کے ایمرجنسی کیسز میں مریض کے اہلخانہ کے پاس خون اکٹھا کرنے کے لیے زیادہ وقت نہیں ہوتا۔ نظام میں واضح طور پر ایسی خامیاں ہیں جنہیں درست کیا جانا چاہیے۔

گذشتہ دو سالوں سے کراچی میں ایک طرح کا انقلاب انڈس بلڈ سینٹر میں رونما ہورہا ہے۔ انڈس بلڈ سینٹر ڈاکٹر صبا جمال اور ان کی ٹیم کی جانب سے قائم کردہ ادارہ ہے، جنہوں نے اس مسئلے کو شناخت کیا، اور سمجھا کہ اسے حل کیا جانا چاہیے۔

"ہم نے جانا کہ مریضوں کے کچھ مخصوص مسائل ہوتے ہیں، اور ان میں سے ایک مسئلہ حادثے کے بعد خون کی دستیابی کا ہے، اس لیے ہم ایک مرکزی بلڈ بینک قائم کرنا چاہتے ہیں جس تک تمام مریضوں کی رسائی ہو۔"

ڈاکٹر صبا جمال کو اپنے ان دنوں سے ایک مریض یاد ہے، جب وہ نجی طور پر کام کرتی تھیں۔

"مجھے یاد ہے جب بلڈ کینسر کا شکار ایک بچہ ہسپتال میں لایا گیا۔ اس کے باپ کو بلا کر عطیہ کنندگان کے ذریعے خون کا انتظام کرنے کے لیے کہا گیا۔ میں تصور بھی نہیں کر سکتی کہ ایک ایسا باپ، جو اپنے بیٹے کو کھو دینے والا ہو، اس پر کیا گزر رہی ہوگی۔ میں نے اپنے ماتحتوں سے کہا کہ ان سے بدلے میں خون کا تقاضہ نہ کیا جائے، بلکہ اسٹور سے فراہم کر دیا جائے۔ میں اس شخص سے چھپتی پھرتی تھی۔ ایک بڑی عمر کے شخص کو اس طرح روتے ہوئے دیکھنا بہت عجیب احساس ہوتا ہے۔ ہمیں یہ احساسِ جرم کی طرح لگتا تھا، ڈاکٹر کی حیثیت سے ہم سوچتے تھے کہ اس حوالے سے کچھ کیا جانا چاہیے۔"

ڈاکٹر صبا جمال، جو اپنی ٹیم کی جانب سے کچھ ہی عرصے میں حاصل کی گئی کامیابیوں پر بے حد خوش ہیں، بتاتی ہیں کہ انڈس بلڈ بینک انڈس ہسپتال میں صرف ایک سادہ مشن کے تحت قائم کیا گیا تھا اور وہ یہ تھا کہ پاکستان میں 100 فیصد رضاکارانہ طور پر خون عطیہ کیا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ "مرکزی بلڈ بینک رضاکارانہ بنیادوں پر کام کرتا ہے۔ ہم اداروں، جیسے کہ اسکولوں، کالجوں، مدرسوں، کارپوریٹ سیکٹر، فیکٹریوں، اور رہائشی علاقوں تک جاتے ہیں۔ جب ایک ادارہ خون عطیہ کرنے پر راضی ہوجاتا ہے، تو انڈس بلڈ بینک کی ٹیم عطیات اکٹھے کرنے کے لیے ایک دن معین کرتی ہے، اور مریض کی میڈیکل ہسٹری کے ساتھ ساتھ عطیہ کرنے والے کا بھی مکمل چیک اپ کرتی ہے تاکہ اس کے صحتمند ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جا سکے۔ ہیموگلوبن کی سطح اور درجہ حرارت چیک کیا جاتا ہے، اور مکمل اطمینان کے بعد ہی عطیہ لیا جاتا ہے۔"

"پھر جب خون حاصل کر لیا جاتا ہے، تو اسے خراب ہونے سے بچانے کے لیے فریزر میں رکھا جاتا ہے۔ ایک دفعہ جب خون بلڈ کیمپ سے بلڈ بینک تک پہنچتا ہے، تو ہم اس سے اپنی پراڈکٹس کی تیاری شروع کرتے ہیں۔ اسے ایڈز، ملیریا، اور دیگر وائرسوں اور بیماریوں کے لیے چیک کیا جاتا ہے۔ تمام ٹیسٹ کلیئر ہونے پر ہی اسے اگلے مراحل میں داخل کیا جاتا ہے۔"

ڈاکٹر صبا جمال — فوٹو بشکریہ لکھاری
ڈاکٹر صبا جمال — فوٹو بشکریہ لکھاری

ہسپتال سب سے زیادہ خون برباد کرتے ہیں، کیونکہ وہ خون کو مختلف پراڈکٹس میں بانٹ نہیں سکتے ہیں۔ انڈس بلڈ بینک میں خون کو تین پراڈکٹس میں تقسیم کیا جاتا ہے: سرخ خلیے، پلیٹیلیٹس، اور پلازما۔ سرخ خلیے سرجیکل ہسپتالوں اور تھیلیسیمیا سینٹرز کو دے دیے جاتے ہیں۔ پلیٹیلیٹس کینسر وارڈز کو، اور پلازما برنس وارڈ (جہاں جلنے کا علاج کیا جاتا ہے) کو دے دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے خون بالکل بھی ضائع نہیں ہوتا۔

اس سب کو اتنی فعالیت سے پاکستان میں ہوتا دیکھنا چشم کشا ہے۔ خون ہر ہسپتال میں ہر وقت دستیاب ہونا چاہیے۔ ہسپتالوں میں دواؤں اور آپریشنز کے لیے جو طریقہ کار موجود ہے، خون کے لیے بھی وہی استعمال ہونا چاہیے۔ دوائیں اور آپریشن پہلے کیے جاتے ہیں، اور پھر مریضوں کو ادائیگی کے لیے کہا جاتا ہے۔ خون کے ساتھ معاملہ مختلف ہے۔ پہلے ایک شخص خون عطیہ کرتا ہے، اور صرف تب ہی ہسپتال مریض کو خون دینے کی اجازت دیتا ہے۔ خون کی فوری دستیابی زندگی اور موت کے درمیان صرف ایک باریک لکیر ہے۔

ڈاکٹر جمال نے اپنی زندگی وقف کردی ہے تاکہ انڈس بلڈ بینک کی کامیابی کو ملک بھر میں پھیلایا جا سکے۔

وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں: "وہ ہسپتال، جہاں پر ہم نے خون فراہم کیا ہے، مریضوں کو خود خون کے عطیات کے انتظام کے لیے پریشان نہیں ہونا پڑتا۔ مریض اور ان کے اہلِ خانہ ہمارا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہیں خون آسانی سے دستیاب ہو سکتا۔ میرے نزدیک یہ شکریہ ڈاکٹروں کے لیے نہیں، بلکہ ان رضاکاروں کے لیے ہے جنہوں نے خون کے عطیات دیے ہیں۔"

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان کے سنڈے میگزین میں 21 جون 2015 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں