افغانستان کی سیکیورٹی مقامی فورسز کے حوالے

کابل: افغانستان کی افواج نے منگل کے روز ملک بھر میں سیکورٹی اور اس سے متعلقہ ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں- اس مرحلے کو امریکہ کی زیر قیادت افواج کی طالبان کے خلاف جنگ کے 12 سال بعد واپس لینے کی تیاری کے طور پر ایک اہم سنگ میل کے طور پر لیا جا رہا ہے-
اس موقع پر، کابل کے مضافات میں واقع ملٹری اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ ملکی پولیس اور فوج تشدد پسندوں کے خلاف کاروائی کے لئے تیار ہیں- لیکن اسی وقت شہر میں ہونے والے بم دھماکے نے ان کے ملک جاری عدم استحکام کی ایک بار پھر یاد دہانی کروائی-
اس حملے میں جو کہ ایک ممتاز قانوں ساز کے قافلے پر کیا گیا تھا جب وہ پارلیمنٹ سے طرف سیکورٹی ذمہ داروں کی منتقلی کی تقریب میں شرکت کے لئے جا رہے تھے، تین شہری ہلاک ہوئے ہیں-
کرزئی کا کہنا تھا کہ "ہماری دفاعی اور سیکورٹی ادارے اب چیزوں کا انتظام سنبھالیں گے-" انہوں نے یہ بات مذکورہ تقریب میں شریک سینئر نیٹو اورافغان حکّام سے کہی- اس تقریب کا وقت اور مقام، سیکورٹی خدشات کی بنا پر، آخری لمحے، تک خفیہ رکھا گیا تھا-
ان کا کہنا تھا کہ "آج سے معمول کی سیکورٹی اور قیادت کی سیکورٹی کی تمام ذمہ داری ہماری بہادر فورسز کے ذمہ ہو گی- جب لوگ یہ دیکھیں گے کہ سیکورٹی کی ذمہ داری افغانوں کے حوالے کر دی گئی ہے تو وہ فوج اور پولیس کا پہلے سے زیادہ ساتھ دیں گے-"
افغان فورسز کی طالبان کے خلاف صلاحیت اور قابلیت کے حوالے سے ابھی بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور نیٹو اور اس کے فوجی اتحادیوں کا نقل و حمل اور فضائی مدد سے حوالے سے اور ہنگامی صورتحال میں، اب بھی اہم کردار رہی گا-
اس موقع پر نیٹو کے چیف، اینڈرز فوگ راسموسن نے کہا کہ افغان افواج کا سیکورٹی ذمہ داریاں سنبھالنا اس مرحلہ وار منتقلی منصوبے کا آخری حصہ ہے جو کہ مارچ 2011 میں شروع ہوا تھا-
انہوں نے مزید کہا کہ "اچھی بات یہ ہے کہ وہ غیر معمولی عزم کے ساتھ ایسا کر رہے ہیں- دس سال پہلے افغانستان کی اپنی کوئی فوج نہیں تھی اور آج ترفیباً ساڑھے تین لاکھ فوجی اور پولیس اہلکار اس کا حصہ ہیں جو کہ اپنے آپ میں خاصے مضبوط بھی ہیں-"
انہوں نے یقین دلایا کہ "ہم ضرورت پڑنے پر کسی بھی کاروائی کے دوران مدد کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن ہم کسی بھی آپریشن کی پلاننگ یا اس کو سرانجام دینے یا اس آپریشن کی قیادت نہیں کریں گے اور 2014 کے آخر تک ہمارا جنگی مشن مکمّل ہو جائے گا-"
سیکورٹی کی ذمہ داریوں کا نیٹو سے افغان افواج کو منتقلی کے آخری مرحلے میں 95 اضلاع کا انتظام شامل ہے- یہ اضلاع ملک کے جنوب اور مشرق میں واقع ہیں جہاں طالبان نے اپنی پرتشدد کاروائیاں 2001 سے ہی تیز کر رکھی ہیں-
اب جبکہ طالبان مسلّح جنگجوؤں کے خلاف جنگ ذمہ داری افغان فورسز کی ہو گی، ایک لاکھ نیٹو فوجی اب مقامی فورکز کی تربیت کے کام پر اپنی توجہ مذکور رکھیں گے-
طالبان سے مذاکرات:
افغان صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ افغان حکومت کا وفد طالبان سے امن مذاکرات کے لیے ممکنہ طور پر ڈیل کے لیے قطر جائے گا جس کا مقصد 12 سالہ تنازعے کا خاتمہ ہے۔
صدر کرزئی نے کہا کہ ہماری اعلیٰ امن کونسل کا وفد طالبان سے مذاکرات کے لیے قطر جائے گا۔
طالبان اس سے قبل متعدد دفعہ امن کونسل سے ملنے سے انکار کرتے رہے ہیں اور وہ حامد کرزئی کو امریکا کی کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں۔
طالبان کا دفتر جلد قطر کے دارالحکومت دوحا میں کھولے جانے کا امکان ہے جس کا مقصد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذکراتی معاملات کو آگے بڑھانا ہے۔
کرزئی نے امید ظاہر کی کہ ابھی یا مستقبل قریب میں دفتر کھلنے سے طالبان اور امن کونسل کے درمیان مذاکرات ممکن ہو سکیں گے۔