کیا سائنس خواتین کے لیے نہیں ہے؟

27 جون 2015
سائنس کی دنیا میں کئی تحقیقات کو صرف اس لیے پذیرائی نہیں ملی، کیونکہ وہ خواتین کی جانب سے کی گئی تھیں۔ — Reuters/Paul Hackett
سائنس کی دنیا میں کئی تحقیقات کو صرف اس لیے پذیرائی نہیں ملی، کیونکہ وہ خواتین کی جانب سے کی گئی تھیں۔ — Reuters/Paul Hackett

"یا تو آپ کو ان سے محبت ہوجاتی ہے یا پھر انہیں آپ سے، اور تنقید پر وہ رونے لگتی ہیں۔" نوبیل انعام یافتہ بائیو کیمسٹ ٹم ہنٹ نے خواتین سائنسدانوں کے حوالے سے اپنے ان امتیازی خیالات کا اظہار جنوبی کوریا میں ہونے والی ورلڈ کانفرنس آف سائنس جرنلسٹس کے دوران کیا۔

اس عظیم سائنسدان کے نزدیک لیبارٹری میں خواتین سائنسدانوں کی موجودگی سائنسی دریافتوں میں مداخلت کا باعث ہے۔ ان کے خیال میں خواتین سائنس کے میدان میں تحقیق اور ایجادات کے لیے نہیں، بلکہ رومانس کے لیے آتی ہیں اور چونکہ وہ ہر وقت ہارمونز کے زیر اثر رہتی ہیں اس لیے وہ کسی قسم کی تنقید برداشت نہیں کر پاتیں، لہٰذا ان کی خواہش ہے کہ لیب پر صرف اور صرف مردوں کی اجارہ داری ہو اور بالکل جس طرح دوائیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھی جاتی ہیں، سائنس جیسا اہم مضمون بھی عورت ذات کی پہنچ سے دور رکھا جائے، یا کم از کم انہیں مرد سائنسدانوں سے الگ رکھا جائے تاکہ سائنسی دنیا کے یہ جنگجو پوری یکسوئی کے ساتھ کام کرسکیں۔

جناب ٹم ہنٹ کے یہ اعلیٰ خیالات سائنسی دنیا میں کام کر رہی ہزاروں عورتوں کے ساتھ ساتھ ہر اس عورت کے لیے ایک تضحیک آمیز طمانچہ ہیں، جو مردوں کی اس دنیا کے کسی بھی شعبے میں اپنا مقام بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ وہی دنیا جہاں اسے اس کی ذہانت، محنت، اور قابلیت کے بجائے اس کے لباس، انداز و اطوار، اور جسم کے کھلے حصوں سے جانچا جاتا ہے۔ جہاں کسی قسم کی جنسی پیش قدمی کا خاطر خواہ (مثبت انداز) میں جواب نہ دینے کی پاداش میں اس کے لیے ترقی اور آگے بڑھنے کے تمام راستے مسدود کر دیے جاتے ہیں، اور بعض کیسز میں یہ بھی کوشش کی جاتی ہے کہ اسے پیچھے دھکیل دیا جائے۔

تصاویر: خیبر پختونخواہ کی خواتین کمانڈوز

مردوں کے معاشرے میں عورتوں کے لیے سب کچھ اس طرح سیاہ یا سفید نہیں جیسا کہ نوبیل انعام یافتہ معزز سائنسدان سمجھتے ہیں۔ انہیں ان رنگوں کے کئی روپ سے گزرنا پڑتا ہے۔ اپنی شناخت بنانے اور دریافت کا راستہ اتنا سیدھا نہیں جتنا ان کے مرد ہم عصروں کے لیے ہے۔ انہیں جنسی امتیاز، ہراساں کیے جانے، اور کئی طرح کے دیگر چیلنجز کا سامنے رہتا ہے۔ اور یہ محض شعبہ سائنس کا ہی المیہ نہیں، بلکہ ہر میدان میں خواتین متعدد شکل میں استحصال کا شکار ہیں۔

اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود انہیں وہ مقام نہیں مل پاتا جو ان کے مرد ہم عصروں کو حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اب بھی خواتین کو مساوی تنخواہوں کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کی بات کی جائے تو مردوں کو زیادہ تنخواہوں کی پیشکش کی جاتی ہے، کیونکہ باسز میں عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ مرد کو چونکہ گھر چلانا ہوتا ہے، اس لیے اسے پیسے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور خواتین کو کم۔

چاہے گھر چلانا ہو یا نہیں، دیکھنا یہ چاہیے کہ کیا خواتین اپنے اوپر عائد ذمہ داریوں سے کم کام کرتی ہیں؟ یقیناً نہیں۔ تو پھر ان کے ساتھ تنخواہوں میں عدم مساوات کیوں برتی جاتی ہے؟

اسی طرح اگر سائنس کی بات کریں، تو یہاں بھی ایسی کئی خواتین کے نام گنوائے جا سکتے ہیں، جن کی سائنس کے لیے خدمات، اور ان کی حیران کن تحقیقات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھیں، لیکن انہیں صرف اس لیے پذیرائی نہ مل سکی کیونکہ وہ خواتین کی جانب سے کی گئی تھیں، جبکہ وہی تحقیقات و نتائج جب مردوں کی جانب سے سامنے لائے گئے، تو انہیں فوراً تسلیم کر لیا گیا۔

پڑھیے: مارچ، دھرنے، اور خواتین

اپنی راہ میں حائل ان رکاوٹوں اور امتیازی سلوک کے باوجود پچھلی کئی دہائیوں سے خواتین زندگی کے ہر شعبے، بشمول سائنس، میں اپنا مقام بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ بھی آگے بڑھنے اور اپنی صلاحیتیں منوانے کی اتنی ہی حقدار ہیں جتنا ان کے ہمعصر مرد حضرات، لیکن افسوس جب ٹم ہنٹ جیسے صاحب علم بھلے بقول ان کے "مذاق" میں سہی، خواتین سائنسدانوں کو غیر ذمہ دار، غیر سنجیدہ، اور جذباتی طور پر عدم توازن کا شکار ثابت کریں گے تو واجب ہے کہ منفی رجحان پھیلے گا اور عورت مخالف لابی کی حوصلہ افزائی ہوگی۔

سائنس کا کام حقائق کی روشنی میں سچائی کی تلاش ہے، لیکن ایک ماہ پہلے کشمیر میں ہونے والی ینگ انڈین انویسٹیگیٹرز میٹنگ کے دوران ٹم ہنٹ نے سائنسی میدان میں خواتین کے ساتھ ہونے والے جنسی امتیاز اور ہراساں کیے جانے کی روئیداد سنیں، مگر اس کا اعتراف کرنے کے بجائے محترم سائنسدان نے بالکل الٹ مؤقف اختیار کیا، اور حقائق سے نظریں چرا گئے۔

یہ خیالات ٹم ہنٹ کے اپنے نہیں، بلکہ اس امتیازی کلچر کی پیدوار ہیں جہاں عورتوں کو ان کی حیاتیاتی ترکیب کی بنا پر قابل تضحیک سمجھا جاتا ہے۔ ایک ایسا کلچر جہاں انہیں اپنی ذاتی جاگیر سمجھتے ہوئے سجاوٹ و دلپذیری کا سامان مانا جاتا ہے۔ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر آواز اٹھانے کی صورت میں سوسائٹی کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اپنی مشکلات کی ذمہ دار یہ خود ہی تو ہیں۔ ان کا چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا، گفتار ہو یا لباس، سبھی ایک مرد کو برائی کی ترغیب دیتے ہیں چنانچہ ایسی صورت میں کسی قسم کی پیچیدگی یا ہراسمنٹ کی ذمہ دار وہ خود ہیں۔ مرد تو یہاں اپنے نفس کے ہاتھوں مجبور غلطی کا پتلا ہے۔ ٹم ہنٹ اس امتیازی کلچر سے متاثر ہونے والے لاتعداد لوگوں میں سے صرف ایک نامور شخصیت ہیں۔

اگر تنقید کرنے والے کا رویہ تحقیر آمیز ہو تو خواتین کیا مرد بھی اس بات کا برا مانتے ہیں، خاص طور پر جب ناقد مخالف صنف سے تعلق رکھتا ہو۔ جناب ٹم ہنٹ اگر اپنے رویے پر نظر ثانی کریں تو ممکن ہے کہ خواتین ماتحتوں سے متعلق ان کی بیشتر شکایات دور ہوجائیں۔ بجائے شخصیت پر تنقید کے، ان کے آئیڈیاز پر تنقید کریں اور اپنی ذاتی ترجیحات و جذبات کو پس پشت رکھیں۔

جانیے: کرد خواتین داعش کے خلاف جنگ میں شامل

صاف لفظوں میں کہیں تو اپنے کام سے کام رکھیں اور دوران ملازمت "فلرٹنگ" سے احتراز کریں تو بہت سی 'پیچیدگیوں' سے بچا جاسکتا ہے جن پر انہوں نے اپنے اگلے انٹرویوزمیں روشنی ڈالی۔ ایک صحتمند پیشہ وارانہ ماحول کے لیے ضروری ہے کہ دونوں گروپس ایک دوسرے کے ساتھ مساوات اور احترام کا تعلق رکھیں، نہ کہ مبالغہ آمیز خیالات کا اظہار کریں۔

اس تمام واقعے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اپنے ناگوار اور جانبدارانہ ریمارکس کے باوجود ٹم ہنٹ سوشل میڈیا پر ہونے والے ردعمل پر نالاں ہیں اور اس بات کی امید رکھتے ہیں خواتین سائنسدانوں کی سوسائٹی ان پر کسی قسم کا "لیبل" نہ لگائے، اور ان کے خیالات کا احترام کریں۔ اخباری رپورٹس کے مطابق وہ اپنے اوپر ہونے والی "تنقید" پر آبدیدہ ہوگئے، اور اپنی بیگم (جو بذات خود ایک معروف سائنسدان ہیں) سے بالکل اسی طرح جذباتی سپورٹ کے متلاشی ہیں جس کی طلبگار ان کے مطابق ایک عورت ہوتی ہے۔ شاید محترم نوبیل انعام یافتہ بائیو۔کیمسٹ اپنی ذات کے اس "نسوانی" رخ سے ناآشنا تھے۔

تبصرے (5) بند ہیں

Muhammad Ayub Khan Jun 27, 2015 02:46pm
meri behan maazi meyN mumkin hey eisa huva ho - ab halaat ziyada badal gayey heyN --baraye meharbani www.scopus.com par jaaiyee --aapko dunya badal gayi hey nazar aayey gi ---bohatttttttttttttttt si qaabil khawateen key naam nazar aa jayeN gey--
Naima Sajjad Ahmed Jun 27, 2015 05:58pm
really?? its mean k enreopean are narrow minded but they always blame muslims ...man should have have their own dignity and should pay attention on their work not on their co-workers. thanks
None of your business Jun 27, 2015 08:21pm
Bibi un kay alfaz thay k lab me ourat k sath kaam karte howe ya unko aap se muhabat hojati hain ya ap ko un se ya phir tanqeed par woh rona shuro kar deti hain. Is me yeh kahan likha hai k science ourat k kaam nahi?:-/ What he was trying to say" I can't work with females in lab" Not letting someone and not joining someone are two different things. Its like Men and women shouldn't swim in same pool, does it say that women should not swim in any pool? Not working together with females and not letting females in science lab are two different things. If i don't want to work with any female in a lab does not mean i am against of females in a lab. They can have their own labs or they can work with other guys who feel comfortable working with them. Please don't mix up things
Muhammad Ayub Khan Jun 27, 2015 11:45pm
@Naima Sajjad Ahmed - No they are not narrow minded -It is but natural when two youngs come together, they think about a beautiful and comforting life partner. Once it is done, it is done and it is not a shameful act.
سہیل یوسف Jun 28, 2015 11:30am
ذیادہ دور نہ جائیے، کراچی یونیورسٹی کے ڈاکٹر عطاالرحمان کے انسٹی ٹیوٹ میں خواتین کی اکثریت ہے جو اپنے اپنے اداروں کی سربراہ بھی ہیں۔ یہ بلند ہمت خواتین عظیم کام کررہی ہیں۔ ڈان ان پر کچھ شائع کریے۔ دوسری اچھی خبر یہ ہے کہ ملک میں خواتین سائنسدان کی تعداد بلحاظ تناسب بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور وسط ایشیائی ریاستوں سے بھی ذیادہ ہے۔ پاکستان میں انیتا زیدی، بینا شاہین صدیقی، ڈاکٹر بلقیس گل، ڈاکٹر مدثر اسرار بہترین سائنسدان ہیں۔ نسٹ میں ایک خاتون سائنسدان اسٹرنگ تھیوری پر کام کررہی ہیں جو خالص مردوں کا شعبہ سمجھا جاتا ہے۔