پاکستان، ہندوستان شنگھائی تعاون کی تنظیم میں شامل

11 جولائ 2015
شنگھائی تعاون کی تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف روس کے صدر ولادی میر پیوٹن سے مصافحہ کررہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی
شنگھائی تعاون کی تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف روس کے صدر ولادی میر پیوٹن سے مصافحہ کررہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی

یو ایف اے (روس): کل روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے اعلان کیا کہ ہندوستان اور پاکستان شنگھائی تعاون کی تنظیم (ایس سی او) میں شامل ہوجائیں گے۔

یہ گروپ وسطی ایشیا کی سابق سوویت ریاستوں کے بشمول روس اور چین پر مشتمل ہے۔

یاد رہے کہ ایس سی او کی پندرہویں سربراہی کانفرنس کے موقع پر اس کی ریاستوں کے سربراہوں کی کونسل نے پاکستان کی مکمل رکنیت کی منظوری دی تھی۔

اس تنظیم کے 2001ء میں تشکیل پانے کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے کہ روس اس کو توسیع دینا چاہتا ہے، تاکہ اسے مغربی اتحادوں کے مدمقابل لایا جاسکے۔

اس گروپ میں ہندوستان کو رکنیت کی ممکنہ پیشکش سے اس کو وسطی ایشیا میں توانائی کے وسائل تک بہترین رسائی کے مواقع فراہم ہوں گے۔

روس کے صدر پیوٹن نے سالانہ سربراہی کانفرنس کے موقع پر ہندوستان اور پاکستان کی رکنیت منظور کیے جانے کا اعلان کیا۔

انہوں نے کہا کہ بیلاروس کو مبصر کا درجہ حاصل ہوگا، افغانستان، ایران اور منگولیا کی شمولیت جبکہ آذربائیجان، آرمینیا، کمبوڈیا اور نیپال کا بطور ’’مذاکراتی شراکت دار‘‘ کے خیرمقدم کیا جائے گا۔

روسی خبررساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق شنگھائی تعاون کی تنظیم نے امید ظاہر کی کہ ایران بھی جلد اس تنظیم کا رکن بن جائے گا، لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ تہران کو اپنے جوہری پروگرام کو روکنے کے کے لیے ایک بین الاقوامی معاہدے تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔

افغانستان سے پھوٹنے والے بعض ایسے بڑے خطرات جن سے اس خطے کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کو بیان کرتے ہوئے روسی صدر پیوٹن نے خودساختہ اسلامک اسٹیٹ گروپ کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا حوالہ دیا۔

انہوں نے کہا کہ انسدادِ دہشت گردی کے لیے تعاون کو مضبوط بنانے پر رہنماؤں نے اتفاق کیا ہے اور وہ افغانستان سے منشیات کی اسمگلنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے مشترکہ طور پر کام کرنے پر تیار ہیں۔

روسی صدر نے معاشی اور تجارتی تعلقات کو مزید گہرا کرنے کے منصوبوں کے بارے میں بھی بات کی۔

نواز شریف کا مطالبہ

اس سربراہی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے مطالبہ کیا کہ انتہاپسندی، دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے علاقائی سطح پر ایک مجموعی اور مضبوط ردّعمل کا مظاہرہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس خطے کو غیرمستحکم سیاسی و جغرافیائی ماحول کا سامنا ہے، اور انتہاپسندی کے خاتمے اور سرحدی سیکیورٹی میں اضافے کے حوالے سے پاکستان کے وہی مقاصد ہیں شنگھائی تعاون کی تنظیم کے اراکین ملکوں کے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شنگھائی تعاون کی تنظیم سے جنوبی ایشیا، افغانستان اور وسطی ایشیا میں امن اور استحکام کے فروغ کے لیے پاکستان کو ایک مفید فورم فراہم ہوگا۔

نواز شریف نے کہا کہ ’’شنگھائی تعاون کی تنظیم کی رکن ریاستوں کے ساتھ خوشگوار اور باہمی طور پر مفید اقتصادی تعلقات کا قیام ہماری خارجہ پالیسی کی ترجیح ہوگی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ’’ہم یقین رکھتے ہیں کہ علاقائی استحکام قوموں کی اقتصادی ترقی کے لیے اہم ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان اور وسطی ایشیا میں امن علاقائی روابط اور تجارتی تعاون کے لیے انتہائی اہم ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ شنگھائی تعاون کی تنظیم کے رکن ممالک کامیابی کے لیے ایک پُرعزم ایجنڈا رکھتے ہیں۔ انہوں نے ان مقاصد کی تکمیل کے لیے علاقائی استحکام کو یقینی بنانے اور اقتصادی تعاون میں مزید اضافے کا مطالبہ کیا۔

نواز شریف نے ہندوستان اور پاکستان کی شنگھائی تعاون کی تنظیم میں شمولیت کا اس تنظیم کے لیے تاریخ کا ایک اہم موڑ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ شنگھائی تعاون کی تنظیم کے خطے کے اندر اور باہر تجارت اور توانائی کے رابطے کے لیے پاکستان نے اہم زمینی اور بحری راستوں کی پیشکش کی ہے۔

ملاقاتیں

نواز شریف کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران چین کے صدر ژی جن پنگ نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات ’’چین کے انتہائی اہم ایجنڈے پر ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ چین پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے، اور صدر ممنون حسین کے چین کے آئندہ دورے کے دوران اس کو مزید آگے بڑھتا دیکھ رہا ہے۔

صدر ژی جن پنگ نے نواز شریف کو شنگھائی تعاون کی تنظیم کے اگلے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی، جو اگلے سال بیجنگ میں منعقد ہوگا۔

وزیراعظم نے چین کےساتھ دوستی کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد قرار دیا۔ انہوں نے صدر ژی کی جانب سے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے مقاصد میں ذاتی دلچسپی لینے پر ان کی تعریف کی۔

افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران وزیراعظم نواز شریف نے افغانستان کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانے اور اس کی مثبت تعمیر کی خواہش کا اظہار کیا۔

انہوں نے ان تعلقات کے اضافے کی رفتار پر اطمینان ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مضبوط تعاون ضروری ہے۔

امن اور مصالحت کے فروغ کے لیے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان سات جولائی کو منعقدہ اجلاس میں پیش رفت پر دونوں رہنماؤں نے اطمینان کا اظہار کیا۔

افغان صدر اشرف غنی نے افغانستان میں امن اور مصالحت کے فروغ کے لیے پاکستان کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس سے ان کے ملک میں پائیدار امن اور استحکام پیدا ہوگا۔

وزیراعظم نواز شریف نے صدر اشرف غنی کو ہارٹ آف ایشیاپروسس کی وزارتی کانفرنس کا مشترکہ طور پر افتتاح کرنے کی دعوت دی۔ اس کانفرنس کی پاکستان دسمبر میں میزبانی کرے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں