عراق: امام بارگاہ میں خود کش دھماکے سے 31 افراد ہلاک

بغداد: عراق کے دارالحکومت بغداد میں اہل تشیع کی مسجد میں نماز ظہر کے بعد ہونے والے دھماکے میں کم از کم 31 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
دھماکے میں ہلاک ہونے والوں میں قریب ہی واقع ایک یونیوسٹی کے متعدد طالبعلم بھی شامل ہیں جبکہ واقعے درجنوں طلبا زخمی بھی ہوئے۔
سیکیورٹی فورسز نے نواحی علاقوں کو ٹریفک کی آمد ورفت کے لیے معطل کر دیا ہے جبکہ ایک مشتبہ کار میں موجود بم کو ناکارہ بنا دیا گیا ہے۔
ابھی تک کسی نے ان حملوں کی ذمے داری قبول نہیں کی لیکن القاعدہ سے منسلک سنی عسکریت پسند، اکثرو بیشتر شیعوں کو اپنا مخالف سمجھنے کی وجہ سے نشانہ بناتے ہوئے مسلسل بڑے پیمانے پر بمباری بھی کرتے رہے ہیں-
منگل کو ہونے والا دھماکا شمالی بغداد میں واقع اہل تشیع کی عبادت گاہ حبیب ابن المظاہر حسینیہ میں ہوا جو نجی یونیورسٹی امام الصادق کے بالکل ساتھ واقع ہے۔
ہلاک ہونے والوں میں یونیورسٹی کے متعدد طالبعلم بھی شامل ہیں جو امتحانوں کے درمیان ہونے والے وقفے میں نماز پڑھنے کے لیے آئے تھے۔
ایک 20 سالہ طالبعلم نے زار وقطار روتے ہوئے بتایا کہ ہم یہاں نماز کے لیے جمع ہوئے تھے، کیا کوئی مذہب معصوم انسانوں کو مارنے کا حکم دیتا ہے؟
انہوں نے بتایا کہ کچھ لمحوں پہلے میں اپنے دوست کے ساتھ کھڑا تھا اور اس نے مجھ سے نماز پڑھنے کے لیے چلنے کو کہا تھا لیکن میں نے جواب دیا تھا کہ میں امتحانوں کی تیاری کے لیے مزید پڑھنا چاہتا ہوں۔
بیس سالہ نوجوان نے مزید بتایا کہ اس موقع پر میرے دوست نے کہا تھا کہ میں نماز پڑھنے جا رہا ہوں، خدا پاس ہونے میں میری مدد کرے گا، وہ یہ کہہہ کر چلا گیا لیکن اب وہ کبھی نہیں آئے گا۔
عینی شاہدین اور آفیشلزنے بتایا کہ بمباروں نے پہلے فائرنگ کرتے ہوئے عمارت کے محافظوں کو ہلاک کیا اور اس کے بعد پہلے حملہ آور نے ہال کے دروازے پر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
اس دوران دوسرا حملہ آور افرا تفریح کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہجوم میں جا گھسا اور اس نے حسینیہ میں خود کو دھماکا خیز مواد سے اڑا لیا۔
جائے وقوعہ پر موجود گارڈز نے بتایا کہ دھماکے میں بال بیرنگ کا استعمال کیا گیا جس سے موقع پر ہر جگہ خون ہی خون اور انسانی اعضا بکھرے پڑے ہیں۔
اس کے علاوہ صوبہ صلاح الدین میں ہونے والے دھماکے میں دو افراد ہلاک اور چھ زخمی ہو گئے۔
ایسے پرتشدد واقعات کا آغاز، عراق پر اتحادی فوجوں حملے کا بعد ہوا تھا تاہم پچھلے ماہ مئی میں مرنے والے افراد کی تعداد نے 2008 میں ہلاک ہونے والوں کو پیچھے چھوڑ دیا، اگرچہ اس قسم کے واقعات کے بعد سے یہ خدشات پیدا ہوگئے ہیں کہ کہیں یہ تشدد 2006ء اور 2007ء کی فرقہ وارانہ جنگ سے آگے نہ بڑھ جائے-
مبصرین نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شیعہ حکام کی قیادت کی ناکامی کے باعث سنی برادری کے عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں بڑھاوا دیا۔
اقوام متحدہ (یواین) کے عراقی سفیر مارٹن کوبلر نے پہلے ہی خبردار کردیا تھا کہ پرتشدد واقعات مزید خطرناک شکل اختیار کرسکتے ہیں اور ان میں تیزی آ سکتی ہے-
وزیراعظم نوری المالکی نے کشیدگی کم کرنے کے لئے حال ہی میں اپنے کٹر مخالفین سے بھی ملاقات کی ہے جن میں پارلیمینٹ کے سنی اسپیکر اور علاقہ کرد کے خودمختار صدر شامل ہیں-
ملک کے بڑے سیاستدان مسلسل سیاسی تنازعات کو حل کرنے کا وعدہ کر رہے ہیں تاہم تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ سب پرتشدد حادثات سے منسلک ہیں اور اس معاملے میں ابھی تک کوئی نمایاں پیشرفت سامنے نہیں آئی ہے-