'کوئی سیکھ کر جوگی نہیں بن سکتا'

اپ ڈیٹ 27 جولائ 2015
استاد مصری جوگی
استاد مصری جوگی

یہ دوپہر کا وقت تھا جب ہم کالونی میں داخل ہوئے اور ہم استاد مصری جوگی کی ان کے چھوٹے مندر کے باہر موجود احاطے میں کلاس کو دیکھنے کے لیے بروقت پہنچ گئے۔ استاد نے نارنجی جوگہ پہن رکھا تھا جبکہ کانوں میں بڑی بالیوں کو دیکھا جاسکتا تھا۔ احاطے میں موجود بچوں کے گروپ کے لیے کوئی ڈیسک یا بلیک بورڈ نہیں تھا اور ہر ایک زمین پر بیٹھا اپنی کلاس شروع ہونے کا منتظر تھا۔

استاد مصری نے دو پٹاریاں نکالیں جن کے اندر دو بلیک کوبرا سو رہے تھے جو آہستہ آہستہ بیدار ہونے لگے۔ استاد نے اپنی بین اپنے پہلو سے لگا رکھی تھی اور پھر انہوں نے بھیڑ کی پائپ جیسی ایک خشک ہڈی اور پانی سے بھرا ایک پیتل کا لوٹا اٹھایا۔ انہوں نے ایک پٹاری کو کھولا اور ایک کوبرا کو باہر نکال کر اس کا سر اپنے ایک ہاتھ سے پکڑ کر کھولا۔ خشک ہڈی کو اس میں داخل کیا اور پھر استاد نے لوٹے سے سانپ کے منہ میں پانی بھرنا شروع کردیا۔

استاد مصری نے طالبعلموں کے گروپ کے سامنے وضاحت کی " جنگلوں میں سانپ اپنی خوراک خود حاصل کرلیتے ہیں مگر جب وہ ہماری تحویل میں ہوتے ہیں تو ہم انہیں دودھ اور پانی اس طریقے سے پلاتے ہیں"۔

اپنے طالبعلموں میں استاد کی حیثیت معروف استاد مصری کالونی میں رہائش پذیر اپنے قبیلے کے بھی قائد ہیں۔ اس طرح کے سبق کا انعقاد روزانہ کی بنیاد پر نہیں ہوتا، بلکہ کبھی کبھار استاد کی جانب سے بچوں سے وقت طلب کیا جاتا ہے تاکہ انہیں سانپ کو بس میں کرنے کے کچھ طریقے سیکھا سکیں جو ہر جوگی کے لیے جاننا لازمی ہے۔ تربیت کے دوران کچھ حیران کردینے والے لمحات بھی آتے ہیں جیسے استاد نے بچوں کے گروپ کے سامنے سانپ کی کینچلی (اتری ہوئی کھال) پیش کی جو کہ گرمیوں میں سخت درجہ حرارت کے باعث اتری تھی۔

جوگی کالونی کا ایک نوجوان ناگن ڈانس سیکھ رہا ہے
جوگی کالونی کا ایک نوجوان ناگن ڈانس سیکھ رہا ہے

یہ کوئی معمول کی کلاس نہیں مگر اس کالونی میں کسی قسم کے معمول کا تصور تک نہیں۔ یہ سپیروں کا گھر جوگی دارو ہے جو کبھی عمر کوٹ شہر سے ڈیڑھ کلو میٹردور واقع تھا۔ عمر کوٹ کی آبادی پھیلنے اور نئی رہائشی اسکیموں کے قیام کے بعد اب یہ جوگی دارو بھی شہر کے اندر آگیا ہے۔

یہاں ہر گھر میں کم از کم سیاہ ہندوستانی کوبرا موجود ہے مگر بیشر افراد کے پاس کوبرا، کرایت اور وائپر جسے مقامی طور پر لنڈی بلا کہا جاتا ہے، سمیت متعدد سانپ موجود ہیں۔ کسی بھی سانپ کے زہریلے دانت نکالے نہیں گئے مگر بچے انہیں کھلونا سمجھ کر کھیلتے ہیں۔ استاد کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ جوگیوں اور ان کے ساتھ رہنے والے سانپوں کے درمیان ایک خاص تعلق قائم ہوجانا ہے۔

استاد مصری کا دعویٰ ہے " ایک سانپ کسی جوگی بچے کو ڈنک نہیں مارا سکتا اور اگر وہ ایسا کرتا بھی ہے تو بھی وہ ہمارے بچے کو نقصان نہیں پہنچاتا کیونکہ سانپ کے زہر کے تریاق کا ایک قطرہ پہلی غذا کے ساتھ ہی نومولود کو دے دیتے ہیں، جس سے ان کے اندر سانپ کے زہر کے خلاف پوری زندگی کے لیے مدافعی طاقت پیدا ہوجاتی ہے"۔

جوگی یا سپیرے سندھ کی ایک خانہ بدوش برادری ہے۔ ان میں سے بیشتر پورا سال ایک سے دوسری جگہ روزگار یا سانپ کی تلاش میں گھومتے رہتے ہیں۔ عارضی جوگی بستیاں سندھ بھر میں دیکھی جاسکتی ہیں جیسے ضلع عمر کوٹ کے علاقوں تھر نبی سر اور چیلھ بن، سکھر کا روہڑی، ٹھٹھہ کا جھمپیر اور مالکی جبکہ کراچی کا گڈاپ ٹاﺅن۔

جوگی کالونی کا قیام ایک پلاٹ پر عمل میں آیا جو ان جوگیوں کو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے الاٹ کیا
جوگی کالونی کا قیام ایک پلاٹ پر عمل میں آیا جو ان جوگیوں کو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے الاٹ کیا

مگر جوگی داو میں ان خانہ بدوشوں کے مستقل رہائشی گھر ہیں اور استاد مصری بتاتے ہیں " ستر کی دہائی کے آخر میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں ہماری برادری کی ایک لڑکی اغوا ہوگئی۔ ہم نے اس وقت کے ایم این اے رانا چندر سنگھ سے مدد کے لیے رابطہ کیا۔ انہوں نے لڑکی کو بازیاب کروایا اور بھٹو سے ہمارے لیے زمین کی درخواست کی، اس وقت سے ہم یہاں رہ رہے ہیں"۔

اس کالونی میں سو کے لگ بھگ خاندان آباد ہیں۔ کالونی کے بیشتر گھر کسی ترتیب کی بجائے عجیب انداز سے تعمیر کیے گیے ہیں۔ کچھ گھر تو درحقیقت عارضی جھونپڑیاں ہیں جبکہ دیگر سیمنٹ سے بنے گھروں میں چار دیواری ہی نہیں۔ اسی طرح یہاں گلیوں کا تصور تک موجود نہیں۔

کالونی کے ہر بچے کے چھ سے آٹھ بہن بھائی ہیں، لگ بھگ ہر بچہ اپنے بالوں کا رنگ سیاہ سے گولڈن ہوتے دیکھتا ہے جو ان کے اندر پروٹین کی شدید کمی کی تصدیق کرتا ہے۔ خواتین سونے و چاندی کے پرانے انداز کے زیورات پہنتی ہیں اور لگ بھگ ہر خاتون کی کہنی، گردن یا ہاتھوں پر روایتی ٹیٹوز موجود ہوتے ہیں۔ برادری کی کم سن بچیوں کے جسموں پر یہ ٹیٹوز کم عمری میں ہی بنا دیئے جاتے ہیں۔

ماضی میں سندھی جوگیوں میں ہندو اور مسلمانوں دونوں شامل ہوتے تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ بیشتر مسلمان جوگیوں نے سانپوں کو پکڑنے کا آبائی پیشہ ترک کردیا، تعلیم حاصل کی اور سرکاری و نجی ملازمتیں حاصل کرلیں۔ کچھ مسلمان جوگی اب بھی موجود ہیں مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔

سانپ کی کینچلی
سانپ کی کینچلی

یہ رجحان ہندو جوگیوں کو بھی اپنی گرفت میں لیتا نظر آتا ہے۔ ماحولیاتی تنزل، بڑھتی آبادی، جنگلات کا کٹائی اور جنگی حیات میں ناپسندیدہ انسانی مداخلت کے باعث یہ جوگی اس طرح آسانی سے ڈھونڈ نہیں پاتے جیسے پہلے پکڑ لیتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں کے اندر بھی سانپوں اور سپیروں میں دلچسپی کم ہوئی ہے جس کے نتیجے میں جوگیوں کی نئی نسل بھی اپنے آبائی پیشے کو ترک کرنے لگی ہے۔

جوگی دارو کی روایت کے مطابق جو سپیرے عارضی طور پر رواں برس دیگر شہروں میں روزگار کی تلاش کے لیے کالونی چھوڑ کر جانے والے ہیں، اپنی جھونپڑوں کے داخلی دروازوں کو کانٹے دار شاخوں سے کور کررہے ہیں۔ کالونی میں موجود افراد نے وضاحت کی کہ دیگر شہروں میں ایک مرد جوگی اپنی بین کے سروں سے سانپوں کو رقص کرواکے پیسہ کماتا ہے۔

خواتین جوگی عام طور پر پامسٹ یا دست شناس ہوتی ہیں جو گھر گھر جاکر قسمت کا حال جاننے میں دلچسپی رکھنے والوں کو اپنی خدمات فراہم کرتی ہیں۔ کئی بار وہ کانوں کی صفائی کرکے بھی پیسے کماتی ہیں، یہ کام بھی شہر میں مارکیٹ رکھتا ہے۔

ایسے افراد جو اب بھی اپنے آبائی پیشے سے جڑے ہوئے ہیں، کو استاد کی جانب سے سانپوں کو مسحور کرنے کی کلاس کی پیشکش کی جاتی ہے۔ اس طرح نہ صرف یہ تاریخی ہنر خود کو محفوظ رکھے ہوئے ہے بلکہ استاد کے مطابق یہ وہ " لازمی ہنر ہے جو ان کے بالغ ہونے کے بعد کام آتا ہے"۔

بچے اور بچیاں سانپوں اور دیگر حشرات سے ایسے کھیلتے ہیں جیسے وہ کھلونے ہو
بچے اور بچیاں سانپوں اور دیگر حشرات سے ایسے کھیلتے ہیں جیسے وہ کھلونے ہو

خود کو "اصل جوگی" ثابت کرنے کے لیے کالونی میں بیشتر افراد اپنے پاس متعدد چیزیں رکھتے ہیں جن کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ جادوئی اثرات رکھتے ہیں۔ استاد مصری وضاحت کرتے ہیں " ایسی تین اشیاء ہیں جو جادوئی اثرات رکھتی ہیں، منکا، گیدڑ سنگھی اور ہاتھا جوڑی۔ ان کی خاصیتوں کے پیش نظر ہم انہیں بہت مددگار تصور کرتے ہیں اور اکثر اپنے پاس رکھتے ہیں اور انہیں اپنی بیٹیوں کو شادی کے وقت بطور جہیز دینے کی کوشش کرتے ہیں"۔

منکا ایک سیاہ رنگ کے پتھر جیسا دانہ ہوتا ہے جس کے بارے میں جوگیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ درحقیقت کسی سانپ کے سر کے اندر سے نکالا گیا ہے۔ ایک گیدڑ سنگھی ایک ایسے خاص گیدڑ کا سینگ ہوتا ہے جو کہ ایک گلہری جتنا چھوٹا اور پہاڑی یا چٹانی علاقوں میں رہتا ہے۔ بیشتر سندھی جوگی کیرتھر، بھت جبل، دادو کی پہاڑیوں اور سندھ کے ضلع جامشورو سمیت بلوچستان کے کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں جاکر قیمتی گیدڑ سنگھی کی تلاش کرتے ہیں۔ ہاتھا جوڑی ایک خاص پودے کی جڑ ہوتی ہے جو کہ کسی بند مٹھی والے انسانی ہاتھ جیسی شکل کی ہوتی ہے۔

جوگیوں کا خانہ بدوش قبیلہ اپنے بیماروں کو اکثر ہسپتال نہیں لے جاتے بلکہ بیشتر روایتی طریقہ نسخوں اور علاج پر انحصار کرتے ہیں۔ مقدس الفاظ کے کاغذ اور سیاہ دوڑی میں بندھا تعویز کو متعدد امراض کا بہترین علاج تصور کیا جاتا ہے۔

کالونی کے ایک بزرگ رہائشی دھرمون جوگی شکایت کرتے ہیں " سندھ حکومت کی جانب سے جوگی دڑو کے سپیروں کو زمین الاٹ کیے چار دہائیوں سے زائد عرصہ گزر چکا ہے مگر آج بھی کالونی میں بنیادی سہولیات دستیاب نہیں، یہاں نکاسی آب کا کوئی مناسب نظام نہیں،پانی کی سپلائی نہیں، اسٹریٹ لائٹس اور گلیاں وغیرہ موجود نہیں۔ ہم حکومت سے ان بنیادی سہولیات کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہیں"۔

ان تمام تر مشکلات کے باوجود استاد مصری پرعزم ہیں کہ وہ سانپ پکڑنے کے فن کو اس وقت تک مرنے نہیں دیں گے جب تک بچے اسے سیکھنے کے خواہشمند ہیں " آپ کو ان صدیوں پرانے سانپ پکڑنے کے فن کو سیکھنے کے لیے پیدائشی جوگی ہونا پڑتا ہے کوئی بھی سیکھ کر جوگی نہیں بن سکتا"۔


امر گرڑو کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک سنیئر ماحولیاتی صحافی ہیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

tarique khan Jul 27, 2015 10:25pm
I am belonging to UMERKOT, I left umerkot after college education and presently I am working as Government Officer. Today after reading this news, I talked my friend at Umerkot, who confirmed that each & every word of this story is true & fact. I solute Amar Gurriro, who invented this story from my village, whereas I was unaware Mohammad Tarique D. Khan
Aijaz Shaikh Jul 28, 2015 12:52pm
امر گرڑو نے بہت اچھی اسٹوری کی ہے۔ ان کی دیگر اسٹوریز کے ساتھ اس میں بھی بہت معلومات ہے۔ تاہم منکا، گیدڑ سنگھی اور ہاتھا جوڑی پر مزید لکھنے کی ضرورت تھی۔ یا تو امر گرڑو ان اشیاء پر ایک اور اسٹوری فائل کریں۔
Aijaz Shaikh Jul 28, 2015 01:08pm
امر گرڑو کی اس اسٹوری میں ان کی دیگر اسٹریز کی طرح بہت معلومات ہے۔ جوگی سندھ کی تہذیب کا ایک حصہ ہے۔ جس کو شاہ عبداللطیف بھٹائی نے بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔ اسٹوری میں کئی پہلو بیان کیے گئے تاہم منکا، گیدڑ سنگھی اور ہاتھا جوڑی پر کچھ مزید لکھنے کی ضرورت تھی۔ لیکن امید ہے کہ امر اس پر مزید اسٹوری کریں گے۔