دوحہ میں نیا طالبان دفتر، امریکا سے مذاکرات متوقع

شائع June 18, 2013

دوحہ میں افغان طالبان کے نئے سیاسی دفتر کے افتتاح کے موقع پر دفتر کے نمائندے پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔ فوٹو رائٹرز

واشنگٹن: افغان شدت پسندوں نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں نیا دفتر کھول لیا ہے جہاں امریکی نمائندے امن مذاکرات کے لیے طالبان کے وفد سے ملاقات کریں گے۔

امریکہ کی زیر قیادت نیٹو افواج طالبان کے جنگجوؤں سے لڑ رہے ہیں لیکن دوحہ میں آفس کھولے جانے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پس پردہ دونوں فریقین اس معاملے کو حل کرنے کے لے سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں۔

یہ اعلان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب امریکہ کی جانب سے منگل کو افغانستان کی سیکیورٹی کی تمام تر ذمے داریاں افغان افواج کے سپرد کر دی گئی ہیں۔

ایک امریکی آفیشل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بتایا کہ میرے خیال میں آئندہ دو روز میں امریکہ دوحہ میں طالبان سے جلد باقاعدہ ملاقات کرے گا جو گزشتہ کچھ سالوں میں دونوں کے درمیان پہلی باضابطہ ملاقات ہو گی۔

سینئر امریکی آفیشل نے مزید کہا کہ مجھے امید ہے کہ اس کے بعد طالبان اور افغان اعلیٰ امن کونسل کے درمیان بھی میٹنگ ہو گی اور مذاکرات کے لیے یہ حکمت عملی افغان صدر حامد کرزئی نے ترتیب دی ہے۔

امریکی سیکریٹری اسٹیٹ جان کیری نے طالبان اور امریکی حکام کے درمیان مذاکرات پر کسی بھی قسم کا بیان دینے سے انکار کر دیا تاہم انہوں نے افغان شدت پسندوں کی جانب سے آفس کھولنے کو خوش آئند قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ بہت اچھی خبر ہے اور ہم اس تمام پیش رفت پر بہت خوش ہیں۔

طالبان کی جانب سے آفس کھولنے کا مقصد افغان صدر کی حکومت سے جنگ کے خاتمے پر مذاکرات کرنا ہے جس کا آغاز 2001 میں 9/11 حملوں کے بعد ہوا تھا۔

ایک اعلان میں طالبان نے کہا ہے کہ وہ افغان سرزمین سے دوسرے ملکوں پر حملوں کی کسی بھی کوشش کی بھرپور مخالفت کریں گے۔

امریکہ نے اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ایک عرصے سے اس طرح کے بیان کا مطالبہ کر رہے تھے اور اس سے دوحہ میں بات چیت کی راہ ہموار ہو گی۔

تاہم انتظامی آفیشلز نے مذاکرات کی کامیابی کے حوالے سے متنبہ کیا ہے کہ مذاکرات کا مرحلہ انتہائی دشوار گزار اور آہستہ ہو گا جہاں کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی جس کی وجہ افغان حکومت اور شدت پسندوں کے درمیان قائم عدم اعتماد کی فضا ہے۔

تاہم انہوں نے اسے انتہائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بیان مفاہمت کی جانب انتہائی پہلا اہم قدم ہے۔

امریکہ اس سے قبل بھی طالبان پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ عالمی طور پر دہشت گرد قرار دیے گئے گروپ القاعدہ سے تعلقات ختم کرنے کا اعلان کرے تاہم منگل کو طالبان کی جانب سے دیے گئے بیان کو اس حوالے سے اہم عملی اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔

ایک اور امریکی آفیشل نے کہا کہ ہم ایک عرصے سے طالبان سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ وہ عالمی دہشت گردی میں کوئی تعلق نہ ہونے کے حوالے سے واضح بیان جاری کریں تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ہمیں فوری ور پر اس بات کی توقع نہیں کہ وہ القاعدہ سے اپنے تعلقات کو ختم کر لیں گے اور اس کا نتیجہ مفاہمتی عمل پر منحصر ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے پہلی میٹنگ میں دونوں فریقین اپنے اپنے ایجنڈے کے حوالے سے ایک دوسرے کو آگاہ کریں گے اور پھر دو ہفتے بعد ایک اور میتنگ کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم انہیں بتائیں گے کہ ہم کیا بات چیت کرنا چاہتے ہیں اور اسی طرح وہ ہمیں بتائیں گے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور پھر ہم آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کریں گے اور پھر تقریباً دو ہفتے بعد ایک اور میٹنگ کریں گے۔

امریکی آفیشل نے کہا کہ امریکہ کی پہلی ترجیح طالبان سے اس بات کی ضمانت لینا ہے کہ وہ القاعدہ سے اپنے تمام تعلقات ختم کر دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں فریقین کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے بھی گفتگو کی جائے گی جس میں ایک امریکی قیدی بھی شامل ہے جسے چار سال سے قید میں رکھا ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تاہم امریکا کا ماننا ہے کہ دراصل یہ مذاکرات دو افغان فریقین کے درمیان ہیں جہاں اہم معاملات افغان حکومت اور شدت پسندوں کے درمیان بات چیت سے ہی حل ہو سکتے ہیں۔

آفیشل نے کہا کہ ہم ان پر زور دیں گے کہ وہ اپنے افغان ہم منصبوں سے اس حوالے سے سنجیدہ مذاکرات کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر بارک اوباما نے شمالی آئرلینڈ میں ہونے والی جی ایٹ کانفرنس کے موقع پر عالمی رہنماؤں کو مذاکرات کے حوالے سے اپنی منصوبہ بندی سے آگاہ کیا جس کو کافی سراہا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 19 جون 2025
کارٹون : 18 جون 2025