قصور اسکینڈل: مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل

اپ ڈیٹ 11 اگست 2015
قصور واقعے کا ایک متاثرہ بچے حسین خان والا گاؤں میں اپنے گھر میں کھڑا ہے—۔فائل فوٹو/ اے پی
قصور واقعے کا ایک متاثرہ بچے حسین خان والا گاؤں میں اپنے گھر میں کھڑا ہے—۔فائل فوٹو/ اے پی

لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نوید رسول مرزا، انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب مشتاق سکھیرا اور ہوم سیکریٹری پنجاب اعظم سلطان سے اس بات کا تعین کرنے کے لیے رپورٹ طلب کرلی ہے کہ قصور اسکینڈل کیس کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جاسکتا ہے یانہیں.

دوسری جانب قصور پولیس نے بچوں سے ریپ کے مقدمے میں دہشتگردی کی دفعات 7 اے ٹی اے شامل کرلیں ہیں.

منگل کو لاہور ہائی کورٹ میں قصور زیادتی کیس کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلانے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی.

آفتاب احمد باجوہ ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ قصور میں بچوں سے ریپ کا معاملہ انتہائی سنگین نوعیت کا ہے،لہذا عدالت سے استدعا ہے کہ اس کیس میں دہشت گردی کی دفعات شامل کرنے کا حکم جاری کیا جائے.

سماعت کے دوران چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ منظور احمد ملک نے درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے متعلقہ ایس پی انوسٹی گیشن اورایس ایچ اوز کو ریکارڈ سمیت پیش ہونے کا حکم دے دیا.

اس کے ساتھ ہی عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل، انسپکٹر جنرل پولیس اور ہوم سیکریٹری پنجاب سے بھی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی۔

قصور اسکینڈل کے سلسلے میں اب تک 15 افراد کے خلاف 7 ایف آئی آردرج کی جاچکی ہیں جن میں سے 12 ملزمان گرفتار اور ایک ضمانت پر ہے.

مزید پڑھیں:قصور: 'بچوں کے ساتھ میرے سامنے زیادتی کی گئی'

خیال رہے کہ گذشتہ دنوں میڈیا میں آنے والی خبروں میں کہا گیا تھا کہ قصور سے 5 کلو میٹر دور قائم حسین خان والا گاؤں کے 280 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ اس دوران ان کی ویڈیو بھی بنائی گئی، ان بچوں کی عمریں 14 سال سے کم بتائی گئی ہیں.

رپورٹس کے مطابق ان بچوں کے خاندان کو بلیک میل بھی کیا جاتا رہا ہے۔

واقعے کی تحقیقات کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے 5 رکنی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم(جے آئی ٹی ) بھی تشکیل دے دی ہے جو 14 دن میں رپورٹ وزیراعلیٰ کو دے گی.

قصور اسکینڈل: مزید چار متاثرہ خاندان سامنے آگئے

قصور کے گاؤں حسین خان والا میں زیادتی کا شکار ہونے والے مزید چار متاثرہ بچوں کے عزیزوں نے قصور کی مقامی عدالت میں زیادتی کی شکایات درج کروادیں، جس کے بعد اب تک متاثرہ بچوں کی تعداد 11 ہوگئی ہے۔

خیال رہے کہ قصور میں بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی اور اس کی فلم بندی کے واقعات کے منظر عام پر آنے کے بعد 7 متاثر بچوں کے عزیزوں کی جانب سے ایف آئی آر درج کروائی گئی تھی۔

قصور کی مقامی عدالت میں آج جمع کروائی جانے والی درخواستوں میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے ان کے بچوں کو بندوق کی نوک پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

5 ملزمان انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش

اس واقعے میں گرفتار ہونے والے 12 میں سے 5 ملزمان تنزیل الرحمٰن، عتیق الرحمٰن، عبیدالرحمٰن، وسیم اور یحیٰ کو آج لاہور کی انسداد دہشت گردی (اے ٹی سی) کی عدالت نمبر چار میں پیش کیا گیا۔

گنڈا سنگھ پولیس اسٹیشن کے تحقیقاتی افسر انسپکٹر شاہ والی اللہ نے ملزمان کو سید مظفر علی شاہ کی عدالت میں پیش کیا۔

جہاں پولیس کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی کہ بچوں پر تشدد میں استعمال ہونے والے ہتھیار، آلات اور جرم میں استعمال ہونے والی دیگر اشیاء برآمد کروانے کے لیے ملزمان کا ریمانڈ دیا جائے۔

عدالت نے پانچوں ملزمان کو 28 روز کے جوڈیشل ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا ہے۔

تبصرے (4) بند ہیں

Ashian Ali Aug 11, 2015 02:16pm
میں کوئی وکیل نہیں ہوں مجھے بھی پتا ہے اس واقعہ میں اغوا ، تشدد، بدفعلی، بلیک میلنگ، لوٹ ، فحاشی ، اور سائبر کرائم کی دفعات کے تحت مقدمہ بنتا ہے ۔ لیکن ن لیگ کی وفاقی اور صوبائی حکومت ملزمان کو فائدہ پہنچانے کے لیے متنازعہ دفعات شامل کر کے کیس کو کمزور کرنے پر عمل پیرا ہے۔
Ahmed Zarar Aug 11, 2015 02:42pm
Can MILITARY COURTS take a SUO MOTO ACTION ????? Or they also believe in old blind classic justice .They have to proof there worth. At least I am missing JUSTICE IFTAKHAR's SUO MOTO ACTION which is present some were in our law rule books.
Mohammad Ayub Khan Aug 11, 2015 03:52pm
samajh meyN naheyin aata Rana sanaullah sahib kiya sarey jhoot bol rahey heyN aor sirf aap sach bol rahey heyN----
Mohammad Ayub Khan Aug 11, 2015 05:46pm
@Ashian Ali