خلا میں اُگائے گئے سلاد کا پہلا لقمہ " مزیدار"

11 اگست 2015
خصوصی باکس میں اُگائے گئے سرخ رومین سلاد کے پتے کو کھاتے ہی ناسا کے خلاباز نے خوشی سے نعرہ لگایا: "یہ بہت زبردست ہے"۔ فوٹو/ اے پی
خصوصی باکس میں اُگائے گئے سرخ رومین سلاد کے پتے کو کھاتے ہی ناسا کے خلاباز نے خوشی سے نعرہ لگایا: "یہ بہت زبردست ہے"۔ فوٹو/ اے پی

میامی: بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر مقیم خلابازوں نے پیر کو خلا میں اگائے گئے سلاد کے پتے کا پہلا لقمہ لیا، اس طرح اسے مریخ تک انسان کی پیش قدمی کا ایک اور اہم قدم قرار دیا جارہا ہے.

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق خصوصی باکس میں اُگائے گئے سرخ رومین سلاد کے پتے کو کھاتے ہی ناسا کے خلاباز جیل لنڈگرن نے خوشی سے نعرہ لگایا: "یہ بہت زبردست ہے".

ایک دوسرے خلا باز اسکاٹ کیلی نے بھی اتفاق کیا: "اس کا ذائقہ مزیدار ہے"، ساتھ ہی انھوں نے اس پر زیتون کا تیل اور سرکہ بھی چھڑکا، بالکل اسی طرح جیسے وہ اپنے ہاٹ ڈاگ برگر پر کیچپ لگا کر کھا رہے ہوں.

ناسا کا کہنا ہے کہ اگر خلا باز اپنی خوراک خود ہی اُگانے کے قابل ہو جائیں تو خلا میں مزید تحقیق کے لیے کئی مہینوں بلکہ سالوں تک ان کےزندہ رہنے کےامکانات پیدا ہوسکتے ہیں.

کیلی کا کہنا تھا کہ مریخ کے طویل سفر کے دوران خلائی جہاز کو ری سپلائی کرنے کا کوئی اور طریقہ نہ ہونے کی وجہ سے خلائی سفر کے دوران خوراک کی کاشت خلابازوں کی بقاء کے لیے نہایت اہم ثابت ہوگی.

ان کا کہنا تھا کہ اپنا کھانا خود اُگانا اس سمت میں ایک نہایت اہم قدم ہے.

کینیڈی اسپیس سینٹر، فلوریڈا میں ناسا کی ایڈوانسڈ لائف سپورٹ ایکٹیویٹیز کے اہم سائنسدان رے وہیلر کا بھی کہنا ہے کہ تازہ سبزیاں (جن میں اینٹی آکسیڈنٹس موجود ہوتے ہیں)، جیسے ٹماٹر، بلیو بیریز اور سرخ سلاد، لوگوں کے موڈ پر اچھے اثرات مرتب کرسکتی ہیں اور خلا میں موجود تابکار شعاعوں سے بچانے میں کچھ حد تک مددگار ثابت ہوسکتی ہیں.

ریڈ رومین سلاد کو پودے لگانے والے ایک خصوصی باکس میں اُگایا گیا جسے آربیٹل سائنسدانوں نے تیار کیا اور پھر اسے اسپیس ایکس ڈریگن کارگو جہاز پر لایا گیا.

جبکہ اس کے بیجوں کے ساتھ مٹی اور کھاد بھی موجود تھی اور چونکہ خلاء میں پانی کا چھڑکاؤ نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا اسے ایک خصوصی اریگیشن سسٹم کے ذریعے پانی دیا گیا.

اس بیج کو کیلی نے 8 جولائی کو لگایا اور 33 دن میں پودے کی نشوونما ہوئی، جس کے بعد نیلے دستانے پہنے لنڈگرن نے سلاد کے پتوں کو نکالا اور انھیں ایک ٹرے پر رکھا۔

اسے سٹرک ایسڈ کی مدد سے صاف کر کے انہوں نے اسے ایک زپ والے بیگ میں ڈالا، اور کیلی اور جاپانی خلا نورد کمیا یوئی کے حوالے کیا۔

ان خلا بازوں نے سلاد کے کچھ پتے روس سے تعلق رکھنے والے میخائیل کورنینکو اور گینیڈے پاڈلکا کے لیے بھی بچائے جو خلا میں چہل قدمی کے لیے اسٹیشن سے باہر گئے ہوئے تھے۔

ناسا کا اپنی ویب سائٹ پر کہنا ہے کہ یہ خلا نورد اپنا آدھا ذخیرہ استعمال کر چکے ہیں جبکہ اسٹیشن پر منجمد کیا گیا بقیہ ذخیرہ اُس وقت تک ختم ہوجائے گا جب وہ سائنسی تجزیے کے لیے زمین پر واپس آئیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں