پاکستان نبرد آزما ہے، مگر کس سے؟

13 اگست 2015
ایک روشن اور پر امن پاکستان کے لیے نوجوانوں کا کردار بہت اہم ہے اور انہی کے ذریعے تبدیلی آ سکتی ہے۔ — Jacob Lund/Creative Commons
ایک روشن اور پر امن پاکستان کے لیے نوجوانوں کا کردار بہت اہم ہے اور انہی کے ذریعے تبدیلی آ سکتی ہے۔ — Jacob Lund/Creative Commons

جب آپ ٹیلی ویژن آن کرتے ہیں تو دن بھر سیاسی بھیڑ چال، قتل و غارتگری کی خبروں، بے سر و پا پبلک شوز اور غیر حقیقی ڈرامے دیکھ کر دماغ جیسے پھٹنے سا لگ جاتا ہے۔ گھر سے باہر نکلیں اپنے اطراف پھیلی گندگی، لاقانونیت، رشوت ستانی آپ کو اپنے ہی وطن، اپنے ہی لوگوں سے متنفر کر دیتی ہے۔

کسی محفل میں بیٹھیں، ایک سے بڑھ کر ایک تجزیہ کار ملکی حالات پر تبصرہ کرتا نظر آئے گا۔ تبصرے تو بہت، مگر حل کوئی نہیں، کیونکہ آپ کو یقین ہے کہ اب اس ملک کا کچھ نہیں ہوسکتا۔ مذہبی و لسانی بنیادوں پر بڑھتی ہوئی نفرتوں نے اس کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں۔ تعلیم، صحت، توانائی اور شہری حقوق جیسے مسائل اداروں کی ترجیحات میں تو کیا فہرست میں ہی سرے سے نہیں ہیں۔ انسانیت، معیشت کی طرح زوال پذیر ہے۔ جب ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہو تو آپ کا رویہ ارد گرد موجود لوگوں سے تلخ، اور قوّت برداشت ختم ہو جانا قدرتی بات ہے۔

مجھ سمیت بہت سے ایسے ہیں جو وطن عزیز کے مستقبل سے تقریباً ناامید ہیں اور اس بات سے بے خبر ہیں کہ اسی ملک میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ہر طرح کے مذہبی و علاقائی و لسانی اختلاف سے بالاتر ہو کر مسلسل ملک میں امن و آشتی کے فروغ کے لیے سرگرم ہیں۔ ایسے ہی نوجوانوں کے ایک گروپ سے میری ملاقات چند دن پہلے کراچی کے رنگون والا سینٹر میں ہوئی۔ HIVE Karachi کے زیرِ انتظام Pakistan Fights Back (پاکستان نبرد آزما ہے) کےعنوان سے اس پروگرام میں شہر بھر کے نوجوانوں کو مدعو کیا گیا تھا۔

اس مختصر ملاقات کے دوران مجھے پتا چلا کہ اس گروپ میں شامل نوجوان مختلف مذہبی و علاقائی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنے ارادوں میں سنجیدہ اور کسی بھی قسم کے تصنع سے عاری ان نوجوانوں کا عقیدہ انسانیت اور امن و محبّت کا پرچار ان کی عبادت ہے اور اس کے لیے انہوں نے بڑے منفرد طریقے اپنا رکھے ہیں۔

کہیں یہ شہر کی نفرت اگلتی دیواروں کو پھول بوٹوں سے سجا کر گل و گلزار بنا رہے ہیں تو کہیں صوفی شاعری کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں پیار کے بیج بوتے پھر رہے ہیں اور حد یہ کہ کراچی والوں کے اداس چہروں پر ایک مدھم سی مسکراہٹ لانے کے لیے چلچلاتی دھوپ میں ہاتھوں میں سرخ گلاب تھامے نکل پڑتے ہیں۔

کیدارناتھ بھی شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے کہہ گئے ہیں:

اُن کا جو کام ہے وہ اہلِ سياست جانيں

’ميرا پيغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر پاکستان کس سے نبرد آزما ہے؟ ہمارے روایتی دشمنوں ہنود و یہود و نصارا سے؟ جن کے خلاف بچپن سےہمارے ذہنوں میں زہر بھرا جاتا ہے؟ جی نہیں۔ پاکستان نبرد آزما ہے عدم برداشت، مذہبی و لسانی و صنفی نفرت، غربت، اور جہالت نامی دشمنوں سے جس نے اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر کے رکھ دی ہیں۔

Pakistan Fights Back کا مقصد نوجوانوں کو ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے جو ملک سے انتہا پسندی اور دیگر معاشرتی خامیوں کا پر امن خاتمہ چاہتے ہیں۔ اس پروگرام کا مقصد نا صرف ایسے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے بلکہ رہنمائی اور ہر طرح کی سپورٹ کرنا بھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں بڑے منفرد آئیڈیاز دیکھنے اور سننے کو ملے۔

ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں رہا ہوگا کہ اپنی ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں بیٹھے جن رکشوں پر لکھی تحریروں کو پڑھ کر ہم اکثر ہنستے ہیں، کبھی انہی رکشوں کو عوام میں شہری شعور بیدار کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ لیاری سے تعلق رکھنے والے فہیم شاد نے یہ بھی کر دکھایا۔ اسی طرح ایک اور پروجیکٹ Minority Helpline کا ہے جس کے خالق وشال آنند مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اور فوری انصاف کا حصول چاہتے ہیں۔

— فوٹو بشکریہ ہائیو کراچی آفیشل فیس بک پیج۔
— فوٹو بشکریہ ہائیو کراچی آفیشل فیس بک پیج۔
— فوٹو بشکریہ ہائیو کراچی آفیشل فیس بک پیج۔
— فوٹو بشکریہ ہائیو کراچی آفیشل فیس بک پیج۔
— فوٹو بشکریہ ہائیو کراچی آفیشل فیس بک پیج۔
— فوٹو بشکریہ ہائیو کراچی آفیشل فیس بک پیج۔

ہائیو کراچی کی سوشل انوویشن لیب کوآرڈینیٹر محمّد امان کا کہنا تھا کہ "ہمارا مقصد انفرادیت کا خاتمہ نہیں ہے۔ ہم تو ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جہاں ہر انسان اپنی انفرادی شناخت کے ساتھ محفوظ زندگی گزارے اور اس کی انفرادیت کو قبول اور برداشت کیا جائے"۔

صرف آزاد سوچ، متحمل مزاج، اور انفرادیت کو قبول کرنے والے ذہن ہی اس نفرتوں سے بنجر ہوتی سوہنی دھرتی کو واپس زرخیز بنا سکتے ہیں۔ اور اس سب کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں میں شہری شعور بیدار کیا جائے۔ اس کے لیے فن و ثقافت سے بہتر اور آسان فہم زبان اور کوئی نہیں۔ انتہا پسندی اور عدم برداشت کا جو روگ اس سر زمین کو اندر ہی اندر برباد کر رہا ہے، اس ناسور کے لیے محض نشتر ہی نہیں بلکہ مرہم کی بھی ضرورت ہے اور ہائیو کراچی کے پرعزم ممبران ہر طرح کے اختلاف و انفرادیت سے بالاتر ہوکر زخمی پاکستان کی مرہم پٹی میں مصروف ہیں۔

سوشل میڈیا پر اس پروگرام کے بارے میں سن کر اکثر دوستوں کا یہ بھی سوال تھا کہ آخر یہ سب کر کے ملے گا کیا؟ اس طرح کے پروجیکٹس آخر کتنے مؤثر ہیں؟

یقیناً انفرادی طور پر دیکھا جائے تو ایسے پروگرامز زیادہ مؤثر نظر نہیں آتے لیکن نفرتوں کا جو زہر پچھلی کئی دہائیوں سے قطرہ قطرہ ہماری رگوں میں شامل کیا گیا ہے اس کے لیے ایسی ہی کیمیاگری کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کا شعور دوبارہ مثبت راہ پر لایا جاسکے۔

ممکن ہے ان کاوشوں کے ثمرات ہمیں اپنی زندگی میں دیکھنا نصیب نہ ہوں لیکن اگر پاکستانی اسی طرح اندرونی دشمنوں سے نبرد آزما رہے تو ہماری آنے والی نسلیں ضرور ان سے مستفید ہوں گی اور ایک دن اس ارض پاک پر بھی امن و آشتی کی صبح طلوع ہوگی۔

تبصرے (3) بند ہیں

نجیب احمد سنگھیڑہ Aug 13, 2015 06:50pm
میں بھی ان میں شامل ہوں جو وطن عزیز کے مستقبل سے ناامید ہیں۔ بس جیسے تیسے بچ بچا کر زندگی کے چار دن نکال لینا ہی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ زبانی جمع خرچ کے سوا مستقبل کو سنوارنے کے لیے کوئی کچھ نہیں کر رہا۔ حکومتیں اپنے پانچ سال پورے کرنے کے لیے زور مارتی ہیں۔ ادارے اپنا الو سیدھا کرتے رہتے ہیں۔ اداروں کے ملازمین چھوٹی سے بڑی کرپشن میں مبتلا ہیں۔ بیروزگاری کا کوئی حل نہیں نکالا گیا۔ راتوں رات لکھ پتی بننے کی خواہش ہر کسی میں پیوست ہے اور اس خواہش کی تکمیل کے لیے ناجائز اور غیرقانونی کام کیے جاتے ہیں۔ بس اللہ کے سہارے عوام فانی زندگی کے دن پورے کر رہی ہے۔ ستر سال تک ملک کی حالت نہیں بدلی تو آج روشن مستقبل کی امید رکھنا خود کو دھوکے میں رکھنا ہے۔ اس لیے میں امید نہیں رکھتا۔ امیدوں پر پانی آپ پھیر دیا ہے۔ حقیقت پسندی کا دامن اچھا ہوتا ہے امید پرستی کا دامن حقیقت سے فرار ہوتا ہے۔
smazify Aug 13, 2015 07:01pm
بہت عمدہ ناہید۔ سدا سلامت رہو۔ نہ سنگ ہو، نہ جنگ ہو، نہ ہی کوئی تفنگ ہو۔۔۔ خوشحال ہر اک رنگ ہو۔۔۔ سرور ہو ، اّمنگ ہو، امن کے سب ملنگ ہو، محبتوں میں ننگ ہو، خلوص کی ترنگ ہو، ہر ایک کے پتنگ ہو، خوشحال ہمہ رنگ ہو۔۔۔ خوشحال ہمہ رنگ ہو۔۔۔
Inder Kishan Aug 14, 2015 01:12am
اگر طالب علم لکیر کا فقیر اور رٹّوُ طوطا بننے کی بجائے ریسرچ کا عنصر ذہن میں رکھ کر صرف خود یہ سوچیں کہ 17 سال کی عمر میں سندھ فتح کرنے والی اس شخصیت کی موت کیسے ہوئی تھی جس کا نام چوم چوم کر پڑھایا جاتا ہے تو شاید کافی مسئلے خود بہ خود ایسے ہی حل ہوجائے گا جیسے ایک پاجامے سے ایک سرا نکلتا ہے تو وہ خود ہی ادھڑتا چلا جاتا ہے۔