فوجی عدالت کا فیصلہ پشاور ہائیکورٹ نے معطل کردیا

اپ ڈیٹ 25 اگست 2015
فائل فوٹو/ اے ایف پی—۔
فائل فوٹو/ اے ایف پی—۔

پشاور: پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالت کی جانب سے سزائے موت پانے والے طالب علم کی سزا معطل کردی ہے.

مالاکنڈ پبلک اسکول میں نویں جماعت کے طالب علم حیدر علی کو 2009 میں سیکیورٹی فورسز نے حراست میں لیا تھا اور اس پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام تھا.

طالب علم کے والد ظاہر شاہ کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ حیدر کو 2009 میں 14 سال کی عمر میں گرفتار کیا گیا تھا جبکہ فوجی حکام کے مطالبے پر حیدر علی کو پیش کیا گیا۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالت سے سزا،سپریم کورٹ میں پہلی اپیل دائر

درخواست کے مطابق حیدر علی کی گرفتاری کے 6 سال بعد معلوم ہوا کہ وہ لوئر دیر کی تیمرگرہ جیل میں قید ہے اور اسے فوجی عدالت کی جانب سے پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے، لہذا اس فیصلے پر عملدرآمد کو فی الفور روکا جائے.

منگل کو جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس یونس تھیم پر مشتمل پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے طالب علم کی سزائے موت پر عمل درآمد 8 ستمبر تک روکنے کا حکم جاری کردیا.

بعد ازاں عدالت نے وفاق، سیکرٹری دفاع، جی او سی مالاکنڈ اور سیکریٹری داخلہ کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی.

واضح رہے کہ اس سے قبل حیدر علی کے والد ظاہر شاہ نے رواں ماہ 8 اگست کو سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت ایک درخواست جمع کروائی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ حیدر علی کو ملنے والی سزا کا ریکارڈ فراہم کیا جائے تاکہ اس کے مطابق قانونی چارہ جوئی کی جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالت کا ریکارڈ فراہمی کی درخواست مسترد

تاہم سپریم کورٹ نے کیس کا ریکارڈ فراہم کرنے سے متعلق درخواست کو مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اس حوالے سے ہائیکورٹ یا قانون کے تحت دستیاب کسی دوسرے مناسب فورم سے رابطہ نہیں کیا گیا۔

سپریم کورٹ رجسٹرار کی جانب سے دیئے گئے حکم نامے میں کہا گیا کہ پٹیشنر براہ راست سپریم کورٹ سے رابطہ کرنے کا کوئی معقول جواز بھی پیش کرنے سے قاصر رہا ہے جبکہ اس حوالے سے ذیلی عدالتوں سے رجوع کیا جاسکتا تھا۔

حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ پٹشنر کی جانب سے پیش کیا جانے والا سرٹیفیکیٹ سپریم کورٹ کے رولز 1980ء کے حکم 25 کے رولز 6 پر پورا نہیں اترتا ہے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے فوجی عدالتوں کو برقرار رکھنے کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے ملزمان کو اپیل کا حق حاصل ہوگا۔

فیصلے کے مطابق 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں 11 ججوں نے فیصلہ دیا جبکہ 6 نے مخالفت کی، یوں اکثریت کی رائے پر فوجی عدالتوں کے حق میں فیصلہ سنایا گیا۔

پارلیمنٹ نے گزشتہ سال پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد خصوصی عدالتیں قائم کرنے کے لیے 21ویں ترمیم اور پاکستان آرمی ایکٹ 1952 منظور کیا تھا۔

بعدازاں، رواں سال 16 اپریل کو فوجی عدالتوں کی جانب سے 6 دہشت گردوں کو دی جانے والی پھانسیوں کو معطل کرتے ہوئے عدالت نے سپریم کورٹ بار کونسل کی وکیل عاصمہ جہانگیر کی دائر درخواست پر حکم امتناعی جاری کر دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں