اردو ادب کا داستان گو
اردو ادب میں جب کسی داستان گو کا ذکر ہو تو فوری طور یر جس شخصیت کا خیال ذہن میں آتا ہے وہ اشفاق احمد ہیں اور اس صاحب طرز نثر نگار، دانشور، ڈرامہ نگار، تجزیہ نگار، براڈ کاسٹر کو دنیا سے گزرے آج گیارہ برس بیت گئے۔
پاکستانی ادب کے نابغہ روزگار میں شامل اشفاق احمدبائیس اگست 1925 کو لاہور میں پیدا ہوئے اور والد ڈاکٹر محمد خان کا تبادلہ فیروز پور ہونے کے بعد ابتدائی تعلیم اور بی اے کا امتحان امتیازی نمبروں کے ساتھ وہاں سے کیا۔
قیام پاکستان کے بعد اشفاق احمد اپنے خاندان کے ہمراہ فیروز پور سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے اردو میں ایم اے کیا، اس زمانے میں بانو قدسیہ (اہلیہ اشفاق احمد ) نے بھی ایم۔ اے اردو میں داخلہ لیا۔جب بانو نے پہلے سال پہلی پوزیشن حاصل کی تو اشفاق احمد کے لیے مقابلے کا ایک خوشگوار ماحول پیدا ہوا۔ انھوں نے بھی پڑھائی پر توجہ مرکوز کر لی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سالِ آخر میں اشفاق احمد اوّل نمبر پر رہے۔ جبکہ بانو قدسیہ نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔
اشفاق احمد نے اٹلی کی روم یونیورسٹی اور گرے نوبل(Grenoble) یونیورسٹی فرانس سے اطالوی اور فرانسیسی زبان میں ڈپلومے کیے، اور نیویارک یونیورسٹی سے براڈکاسٹنگ کی خصوصی تربیت حاصل کی۔
زمانہ طالبعلمی کے دوان اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے درمیان اتنی ذہنی ہم آہنگی ہوگئی کہ انہوں شادی کا فیصلہ کر لیا۔ تاہم اشفاق احمد کے والد ایک غیر پٹھان لڑکی کو بہو بنانے کے حق میں نہ تھے، اسی وجہ سے شادی کے بعد انہیں مجبوراً گھر چھوڑنا پڑا۔
وطن واپس آکر انہوں نے ادبی جریدہ داستان گو جاری کیا۔جبکہ انہوں نے دو سال ہفت روزہ لیل و نہار کی ادارت بھی کی۔اشفاق احمد 1967 میں مرکزی اردو بورڈ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جو بعد میں اردو سائنس بورڈ میں تبدیل ہوگیا۔
اشفاق احمد ان نامور ادیبوں میں شامل ہیں جو قیام پاکستان کے فورا بعد ادبی افق پر نمایاں ہوئے اور 1953 میں ان کا افسانہ گڈریا ان کی شہرت کا باعث بنا۔ انہوں نے اردو میں پنجابی الفاظ کا تخلیقی طور پر استعمال کیا اور ایک خوبصورت شگفتہ نثر ایجاد کی،جو ان ہی کا وصف سمجھی جاتی ہے۔ اردو ادب میں کہانی لکھنے کے فن پر اشفاق احمد کو جتنا عبور تھا وہ کم لوگوں کے حصہ میں آیا۔ایک محبت سو افسانے اور اجلے پھول ان کے ابتدائی افسانوں کے مجموعے ہیں۔ بعد میں سفردر سفر ، کھیل کہانی ،ایک محبت سو ڈرامے اور طوطا کہانی ان کی نمایاں تصانیف ہیں۔
1965 سے انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور پر ایک ہفتہ وار فیچر پروگرام تلقین شاہ کے نام سے کرنا شروع کیا جو اپنی مخصوص طرز مزاح اور دومعنی گفتگو کے باعث مقبول عام ہوا اور تیس سال سے زیادہ چلتا رہا۔
ستر کی دہائی کے شروع میں اشفاق احمد نے معاشرتی اور رومانی موضوعات پر ایک محبت سو افسانے کے نام سے ایک ڈرامہ سیریز لکھی، جو پاکستان ٹیلی ویژن سے نشرہوئی۔اسی طرح اسی کی دہائی میں ان کی سیریز توتا کہانی اور من چلے کا سودا نشر ہوئی۔ اشفاق احمد پاکستان ٹیلی وژن پر زاویہ کے نام سے ایک پروگرام بھی کرتے تھے جس میں وہ اپنے مخصوص انداز میں قصے اور کہانیاں سناتے تھے۔ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں تمغہ حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز جیسے اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
داستان سرائے (ان کی رہائش گا کا نام)کا یہ مسافر جگر کے عارضہ کے باعث سات ستمبر 2004ءکو لاہور میں انتقال کرگیا۔