دوسروں کے اشاروں پر زندگی مت جیئں

اپ ڈیٹ 21 ستمبر 2015
آدھی سے زیادہ زندگی گزار لینے پر لوگوں کو خیال آتا ہے کہ انہوں نے دوسروں کے اشاروں پر ایک مشینی زندگی جی ہے. — Creative Commons.
آدھی سے زیادہ زندگی گزار لینے پر لوگوں کو خیال آتا ہے کہ انہوں نے دوسروں کے اشاروں پر ایک مشینی زندگی جی ہے. — Creative Commons.

جب میں 12 سال کی تھی تو ایک شفیق رشتے دار نے مجھے سے پوچھا کہ میں بڑے ہو کر کیا بننا چاہتی ہوں۔ میں نے کہا کہ میں رائٹر بننا چاہتی ہوں اور وہ مجھ پر طنزیہ انداز میں ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ لکھاری عام طور پر کنگال ہوتے ہیں جن کے پاس خوشحال زندگی کا کوئی آسرا نہیں ہوتا۔

میں نے انہیں ہیری پوٹر کی مصنفہ جے کے رولنگ کے بارے میں بتایا جو اپنی کتابوں سے امیر ہو چکی ہیں، تو انہوں نے کہا کہ وہ صرف ایک شخصیت ہیں، اور ایسے لاتعداد لوگ ہیں جن کو کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔

اس وقت ان کے الفاظ مجھے نشتر کی طرح لگے، پر انہوں نے میری آنکھیں بھی کھول دیں۔ تو اب بھلے ہی میں نے لکھاری بننے کی کوشش کبھی نہیں چھوڑی، اور اس خواب کو تکمیل تک پہنچانے کی خواہش اب بھی جاری ہے، مگر یہ روز مرہ کے اخراجات کی وجہ سے تھوڑی ماند ضرور پڑ گئی ہے۔

میرے پاس پیسے کمانے کے لیے ایک اور نوکری ہے، کیونکہ وہ رشتے دار درست تھے: لکھنا ہر کسی کو جے کے رولنگ کی طرح امیر نہیں بنا سکتا۔ لیکن پھر بھی لکھنا میرا جنون ہے اور ایک ایسی چیز ہے جو میں ہمیشہ جاری رکھوں گی۔

مجھے لگتا ہے کہ ہم ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں زیادہ تر لوگوں کی پسند پر دوسرے لوگوں کی رائے اثر انداز ہو جاتی ہے۔

"میرے ابو چاہتے ہیں کہ میں سی ایس ایس کروں۔ مجھے یہ پسند تو نہیں پر ان کے لیے کر رہا ہوں۔"

"میرے والدین کہتے ہیں کہ اگر میں نے کمپیوٹر سائنس کے علاوہ کوئی شعبہ منتخب کیا تو وہ میری یونیورسٹی کی فیس نہیں ادا کریں گے۔ اس لیے میں اس شعبے میں ہوں۔"

"مجھے معلوم نہیں تھا کہ مجھے کیا پڑھنا چاہیے اس لیے ایم بی اے میں داخلہ لے لیا، کیونکہ میرے بڑے بھائی نے بھی یہی کر رکھا ہے۔"

میں نے آج تک جتنے بھی لوگوں سے پوچھا ہے، انہوں نے اپنی زندگی کے سنجیدہ فیصلے اسی طرح کیے ہیں۔ اس سے ہم لوگ فیصلہ کرنے کے بوجھ سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ اور ہمیں ہمیشہ کے لیے ایک بہانہ مل جاتا ہے۔ کسی شخص نے کوئی کام کیوں کیا یا کیوں نہیں کیا، اس کا بہت بہتر جواز یہ عام طور پر کہے جانے والے جملے ہوتے ہیں: 'میرے والدین نے کہا تھا'، 'سب لوگ یہی کر رہے تھے'، 'لوگ کہتے ہیں کند ذہن بچے آرٹس پڑھتے ہیں'، وغیرہ وغیرہ۔

زندگی کا ایک اہم حصہ بلوغت کا ہوتا ہے جب انسان اپنی زندگی کے اہم فیصلے کرتا اور پھر ان کے نتائج کی ذمہ داری لیتا ہے۔ لیکن ہم پاکستانیوں کے لیے زندگی کا یہ حصہ کبھی نہیں آتا۔

ہم میں سے زیادہ تر لوگ اسی پرانی زندگی میں جیتے ہیں، امی کے ہاتھ کا پکایا ہوا کھانا کھاتے ہیں، ابو کو اپنی تنخواہیں تھماتے ہیں، اور گھر کے چھوٹے موٹے کام کرتے رہتے ہیں۔

خواتین کے لیے چیزیں تھوڑی مختلف ہوتی ہیں کیونکہ انہیں اپنا گھر چھوڑ کر اپنے شوہر کے گھر جانا ہوتا ہے، اور اپنی والدین کی سرپرستی سے نکل کر اپنے سسرال کی سرپرستی میں جانا پڑتا ہے۔ اور کئی لوگوں کے لیے یہی ایک بہترین زندگی ہے۔

آپ کو ایک فرمانبردار بچہ کہا جاتا ہے (جبکہ آپ کا بچپن کب کا ختم ہو چکا ہوتا ہے) اور اگر کچھ غلط ہو جائے تو آپ پر کسی چیز کا الزام نہیں آتا کیونکہ آپ کے کریئر سے لے کر آپ کی شادی کا فیصلہ دوسروں نے ہی تو کیا ہوتا ہے۔

اس طرح جینے میں کچھ غلط نہیں ہے اگر آپ کو اس سے خوشی ملتی ہے۔ لیکن اسی راستے پر چلتے چلتے زیادہ تر لوگوں کو آخر یہ خیال آتا ہے کہ زندگی نے انہیں گزارا ہے جبکہ ہونا دوسری طرح چاہیے تھا۔ انہوں نے دوسروں کے اشاروں پر ایک مشینی زندگی جی ہے اور اب کچھ کرنے کے لیے بہت دیر ہوچکی ہے۔

آزادی کی خواہش ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے لیکن بچپن سے ہی ہمارے ذہنوں میں اتنا ڈر بٹھا دیا گیا ہوتا ہے کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ آزادی سے فیصلہ لینے اور پھر ان کے نتائج برداشت کرنے کا خیال بھی ہمارے لیے بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

اس کے علاوہ وہی گھسا پٹا سوال، کہ "لوگ کیا کہیں گے؟"

لہٰذا ہم ساری خواہشوں اور سارے خوابوں کا گلا دبا کر چلتے جاتے ہیں۔ ہمیں خود پر رحم آتا ہے کہ ہم نے اپنے خوابوں کی تکمیل نہیں کی، مگر دوسروں کی زندگی جینے پر فخر بھی کرتے ہیں۔

لیکن کیا ہر کوئی طویل مدت میں ایسی زندگی جی کر خوش رہتا ہے؟ اگر آپ اپنی زندگی سے ناخوش ہیں، تو اس کی جھلک آپ کے ہر کام میں نظر آتی ہے۔

آپ تلخ مزاج ہو جاتے ہیں، آپ کا کام اور آپ کے تعلقات متاثر ہوتے ہیں، اور آپ اپنے خوف اپنی آنے والی نسلوں کو منتقل کرتے ہیں۔ اس طرح وہ بھی اسی چکر میں پھنس جاتے ہیں جس میں آپ نے اپنی زندگی گزاری ہوتی ہے۔

بولیں۔ یہ آپ کی زندگی ہے اور آپ کو اس کے بارے میں رائے دینے کا پورا حق ہے۔ یہ بدتمیزی نہیں اور نہ ہی غلط بات ہے۔ مگر پھر اتنی ہمت بھی رکھیں کہ اپنے کیے گئے فیصلوں کے نتائج کا سامنا کر سکیں، پھر چاہے ناکامی ہی کیوں نہ ہو۔

خواب دیکھیں، مگر اپنے مقاصد کو ایسا آسمانی قلعہ نہ بنائیں جس تک کبھی پہنچا نہیں جا سکتا۔

اپنے پسندیدہ مقام تک پہنچنے کا راستہ کبھی بھی آسان اور سیدھا نہیں ہوتا، مگر کوشش تو کرنی ہی چاہیے۔ اگر آپ اپنے فیصلے خود کرنے جتنا آزاد بننا چاہتے ہیں، تو آپ کو اپنا خیال خود رکھنے جتنا آزاد بھی ہونا چاہیے۔

جہاں بلوغت کے اپنے فائدے ہیں، وہیں چند ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ مگر اپنی مرضی سے کچھ کرنے پر جو اندرونی تسکین حاصل ہوتی ہے، اس کے لیے کوشش ضرور کی جانی چاہیے۔

اپنا شوق تلاش کریں۔ اگر آپ کو ابھی تک معلوم نہیں ہے کہ آپ کو کس چیز کا شوق ہے، تو اپنے اندر جھانکیں۔ ضرور ایسی چیزیں موجود ہوتی ہیں جنہیں کرنے میں ہمیں مزہ آتا ہے لیکن ہم دوسری چیزوں میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ انہیں بھول جاتے ہیں۔

یاد رکھیں کہ آپ کو اپنی پسند کی زندگی کسی جادو کے ذریعے فوراً نہیں مل جائے گی، ہاں مگر تب جب آپ وہ جادو خود کر دکھائیں۔

انگلش میں پڑھیں.

تبصرے (9) بند ہیں

Tahir Sep 19, 2015 02:38pm
very nice your column is reflecting my thoughts and life
uzair Sep 19, 2015 03:22pm
اس کے علاوہ وہی گھسا پٹا سوال، کہ "لوگ کیا کہیں گے؟" لہٰذا ہم ساری خواہشوں اور سارے خوابوں کا گلا دبا کر چلتے جاتے ہیں۔ ہمیں خود پر رحم آتا ہے کہ ہم نے اپنے خوابوں کی تکمیل نہیں کی، مگر دوسروں کی زندگی جینے پر فخر بھی کرتے ہیں۔ Very well analysed awesome written beautiful column
نجیب احمد سنگھیڑہ Sep 19, 2015 07:49pm
رائٹرز جس قدر وہ مغز ماری کرتے ہیں اس کے بدلے میں اونٹ کے منہ میں زیرہ جتنا ملتا ہے۔ رائٹرز کا حق پبلشرز اور دکاندار کھا جاتے ہیں۔ میرے ابا جی کالج لائف سے ہی رائٹر ہیں مگر پیشہ وارانہ نہیں۔ یہ ان کا شوق ہے اور اس شوق کی خاطر وہ ایوب دور سے لیکر آج تک ہزاروں تحریریں، کالمز مختلف اخبارات میں لکھ چکے ہیں لیکن یہ سب فری لانس کے تحت۔ چند سال قبل ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا “پاکستان میں قوم سازی کا عمل“۔ اس کتاب کی پبلشر نے چھپوائی کا خرچہ بھی ابو جی سے لیا۔ رائلٹی اتنی بھی نہیں دی گئی جتنا چھپوائی پر خرچہ ہوا۔ مطلب یہ کہ رائٹرز کا پاکستان میں بہت مندہ حال ہے۔ البتہ درباری رائٹر تو راتوں رات محل ماڑیاں پا لیتے ہیں۔ آج کل زیادہ تر کالم نگارز , اینکر پرسنز اسی کیٹیگری میں آتے ہیں۔دوسروں کی زندگی گذارنا اپنی نفی کرنا ہوتا ہے۔ جب بندہ دنیا میں اکیلا آتا ہے اور اکیلا ہی جاتا ہے تو پھر اسی بندے کو مکمل حق ہےکہ وہ اکیلا اپنی زندگی گزارے۔ اکیلے زندگی گزارنے کا مقصد اپنے نظریات، سوچوں، تاثرات اور فلسفہ حیات کو دوسروں کے تابع نہ ہونے دے جب تک کہ دوسرے ایسے فلسفہ حیات کو منطقی طور پر رد نہ کر دیں۔
umair chaudhry Sep 19, 2015 08:07pm
yaara...you wrote whatever happens with majority of kids/ teens in our society. In my childhood/teen years this was a very common practice which I am sure still exists in our society. However new generation is better than ours as it has the ability to present their thought and vision in better way than us.
Wasim Daudpota Sep 19, 2015 10:42pm
nice efforts but plz improve more ur writing skills and style.
Hassan Sep 19, 2015 10:45pm
I just loved that article. A fair image of my life "LOG KIA KAHEN GE?"
Razzak Abro Sep 21, 2015 09:57pm
"آپ تلخ مزاج ہو جاتے ہیں، آپ کا کام اور آپ کے تعلقات متاثر ہوتے ہیں، اور آپ اپنے خوف اپنی آنے والی نسلوں کو منتقل کرتے ہیں۔ اس طرح وہ بھی اسی چکر میں پھنس جاتے ہیں جس میں آپ نے اپنی زندگی گزاری ہوتی ہے" It is a fact
Saqib Ali Sep 23, 2015 05:29pm
Sach Kaha apne it`s The reality of our Life. Meri bhi Zindagi kuch Aesi hi hai
Saqib Ali Sep 23, 2015 05:31pm
It`s the reality of our life. Meri zindagi bhi kuch aesi hi hai is liye Main bhi aj tak kuch nhi kar paya...........