نفاذِ اردو میں دشواری کیا ہے؟

اپ ڈیٹ 23 ستمبر 2015
انگریزی کے عاشق کہتے ہیں ساری عمر انگریزی میں تعلیم حاصل کی اب اتنے دقیق اور ثقیل الفاظ کیونکر منہ سے ادا کر پائیں گے۔ — Thomas Koch / Shutterstock.com
انگریزی کے عاشق کہتے ہیں ساری عمر انگریزی میں تعلیم حاصل کی اب اتنے دقیق اور ثقیل الفاظ کیونکر منہ سے ادا کر پائیں گے۔ — Thomas Koch / Shutterstock.com

نفازِ اردو کا فیصلہ کیا آیا، ثقہ اہل قلم اپنے قلم کو برہان تصور کرتے ہوئے اردو اور نفاذِ اردو کے حامیان پر چڑھ دوڑے۔ ایسے ایسے کالم نگار جو خود بھی اردو زبان کے فروغ کے لیے کوشاں رہے ہیں وہ بھی حسبِ مقدور اس میں اپنا حصہ ڈالنے لگے۔

اردو کے نفاذ میں جو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دی جا رہی ہے وہ انگریزی زبان کے دخیل الفاظ کا مستعمل ہونا بتایا جا رہا ہے۔ فرماتے ہیں بسکٹ تو انگریزی کا لفظ ہے، اچھا کار کو کیا بولیں گے؟ پھر بینک جس میں اپنا پیسہ جمع کرواتے ہیں اس بینک کو پہلے اسلامی کرنے میں اتنے جتن کیے، اب اردو میں کیسے داخل کرو گے؟

بظاہر تو انگریزی اور اردو کی بات ہے مگر پسِ پردہ یہ بھی غیر محسوس طریقے سے باور کروایا جا رہا ہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ پھر نکتہ چیں اپنے پھیلائے ہوئے نکتوں میں رس بھرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں تعلیم اگر اردو میں دی جائے گی تو ہم کیسے ترقی کریں گے؟ جدید علوم تو سب کے سب انگریزی زبان میں ہیں۔ ہمیں دنیا میں اگر ترقی کرنی ہے تو انگریزی کے بغیر یہ ترقی ممکن ہی نہیں۔

مزید براں کچھ انگریزی زبان کے عاشق فرماتے ہیں ساری عمر تو انگریزی میں ہی تعلیم حاصل کی اب اتنے دقیق اور ثقیل الفاظ کیونکر منہ سے ادا کر پائیں گے۔ بھلا فائل کو مِسل بولتے وقت جو زبان پر خفیف سی لہر بنتی ہے وہ ان کو گوارا نہیں۔ ہاں انگریزی زبان کے مشکل الفاظ جیسے Pseudo liberal بولتے وقت وہ خفیف لہر انہیں گوارا ہے۔

خیر جناب صرف موجودہ دور کے دانشور ہی نہیں بلکہ ماضی کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو ایسی کئی امثال موجود ہیں۔ کبھی اردو رسم الخط کو نشانہ بنایا گیا تو کبھی کہا گیا کہ صاحب آپ کے تو قومی ترانے میں ایک لفظ بھی اردو کا نہیں۔ بات تو سچ ہے مگر ذرا یہیں رک جائیں۔ قومی ترانے میں کئی الفاظ فارسی، اور عربی کے علاوہ پرکراتی کے بھی ہیں جو اردو کی اصل ہے۔ پھر جتنے بھی فارسی سنسکرت اور عربی کے لفظ استعمال کیے گئے ہیں وہ اب اردو کا ہی اثاثہ ہیں۔

اس حوالے سے میں پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں کہ غیر زبان کا کوئی بھی لفظ جب اردو زبان میں داخل ہوتا ہے تو اردو اس کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے، اس پر اپنے قواعد لاگو کرتی ہے، اس کی تذکیر و تانیث پر نظر کی جاتی ہے، اس کا املا اور تلفظ بناتی ہے، اور وہ لفظ مکمل طور پر اردو کا بن جاتا ہے۔ لفظ کی اصل یا ماخذ چاہے انگریزی زبان ہو، فارسی ہو، عربی ہو یا ترکی، اب وہ لفظ اردو کا ہے۔

ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب کی پیش کردہ چند امثال دیکھیں۔ فرماتے ہیں "اردو اپنے لب و لجہ، رکھ رکھاؤ، روز مرہ محاوروں، اندازِ بیان، موضوع و مواد اور مختلف الفاظ کے استعمال اور ایجاد کے لحاظ سے ایک مکمل زبان ہے۔ اس نے اپنی ساخت، مرکبات کے اصول اور قواعد میں ہر زبان سے فائدہ اٹھایا ہے لیکن بحیثیت مجموعی وہ کسی کی پابند نہیں ہوئی، بلکہ اس نے اپنی لغت، اپنا اسلوب، صرفی و نحوی قاعدے واحد جمع، تذکیر و تانیث کے اصول الگ بنا لیے ہیں اور انہی کی پابندی اردو کی فصاحت و بلاغت اور حسن کا معیار متعین کرتی ہے۔

"اردو نے غیر زبانوں کے دخیل الفاظ کے سامنے اپنا سر نہیں جھکایا بلکہ پوری آزادی کے ساتھ دیکھا بھالا، جانچا پرکھا ہے۔ جو اس کے مزاج کے موافق تھے انہیں ویسے ہی رہنے دیا اور جو مزاج کے خلاف پڑے، انہیں بے دھڑک کاٹا پیٹا چھانٹا گھسا گھسایا اور چھیل چھال کر اپنی پسند کا بنا لیا۔

"مثلاً مزدور (میم پر پیش ہے) فارسی زبان کا لفظ ہے، مگر اردو میں آنے کے بعد مَزدور ہو گیا (میم پر زبر) اور اب یہ ہی اس کا اردو تلفظ اور املا ہے۔ تلفظ کی طرح الفاظ کے معنی میں بھی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ عربی میں وقت کی جمع اوقات ہے اور اوقات کا لفظ زمانہ اور مدت کے معنی دیتا ہے۔ لیکن اردو والے یوں بھی بولتے ہیں کہ انسان کو اپنی اوقات سے آگے نہ بڑھنا چاہیے۔ یہاں اوقات کے معنیٰ حیثیت کے ہیں۔ یہ خاص طور پر ان لوگوں کے لیے ہے جو اس بات پر نالاں و پریشاں ہیں کہ انگریزی کے متبادل کہاں سے آئیں گے اور انگریزی کے الفاظ کیوں مستعمل ہیں۔

"انگریزی میں ریل کے معنی لوہے کی پٹری کے ہیں، اردو میں ریل کو ٹرین کے معنی پہنا دیے گئے۔ بعد میں ایک سنسکرت کا لفظ گاڑی لگا کر ریل گاڑی بنا لیا۔ ڈاک خانہ، بیرنگ ٹکٹ، بسکٹ انگریزی سے نکل کر اب اردو کے لفظ ہیں اور اب اردو تلفظ کے ساتھ ہی بولے جاتے ہیں۔"

برسبیلِ تذکرہ دخیل الفاظ صرف اردو میں ہی نہیں خود انگریزی زبان میں بھی ہیں۔ کئی ایسے الفاظ ہیں جو لاطینی، اطالوی اور دیگر زبانوں سے ہیں مگر انگریزی میں انگریزی زبان کے اصول کے مطابق استعمال ہوتے ہیں۔ امید ہے کہ احباب اپنی کم علمی اور کم فہمی کو اردو پر بندوق کی طرح تان کر انگریزی اور اردو کی جنگ نہیں چھیٹریں گے۔ میری درخواست ہے کہ سوشل میڈیا یا قومی ابلاغ کے ذرائع استعمال کرتے وقت ذمہ داری کا ثبوت دیں، لکھنے سے پہلے دیکھ لیں، پڑھ لیں، جان لیں، کیونکہ جس قسم کے سوالات آپ اردو پر اٹھا رہے ہیں ان کے جوابات موجود ہیں، آپ نے ابھی تک حاصل نہیں کیے، تو یہ سراسر آپ کی ناکامی ہے۔

اب کچھ بات کہ دفتری زبان اردو کو بنا دیا مگر دفتری زبان تو ثقیل ہو جائے گی۔ پھر وہ ہی بات۔ ایک صاحب نے سوشل میڈیا پر کہا کہ اب فدوی بولنا اور لکھنا پڑے گا ہر درخواست کے آخر میں۔ بھائی کوئی قیامت ٹوٹ جائے گی یا آسمان آپ کے سر پر آن گرے گا جو آپ فدوی لکھ اور بول دیں گے؟ مقتدرہ قومی زبان بورڈ نے دفتری، عدالتی نظام میں رائج انگریزی الفاظ کے متبادل پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔ اسلوب دفتری زبان، خلاصی نویسی اور بھی کئی ہیں آپ پڑھیں تو سہی، تسلیم ہے کئی جگہ ترجمہ بر محل نہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ متبادل لفظ دقیق ہو۔ مگر محترم یہ بھی تو دیکھیے کہ کام تو ہو رہا ہے نا۔ آپ ان الفاظ کو استعمال تو کیجیے، وقت کے ساتھ بہتری آتی جائے گی اور پھر وقت سے بہتر زبان کی پرورش اور کون کر سکتا ہے؟

اب کچھ بات اس پر کہ کچھ لوگ زبان کو رنگ و نسل کا لبادہ پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عرض ہے کہ میں اہلِ زبان ہوں مگر اس سے کیا اردو کی شان میں کوئی کمی یا اضافہ ہو سکتا ہے؟ نہیں۔ اردو کو اردو پر کام کرنے والوں نے دوام بخشا ہے۔ اس کے عروج میں اپنا حصہ ڈالنے والوں کا تعلق ہر جگہ سے ہے، چاہے وہ پنجاب ہو سندھ ہو یا ہندوستان۔

اسی طرح کچھ لوگ اردو کو مذہب کا لبادہ پہنانے کی کوششوں میں ہیں۔ ان کے لیے عرض ہے کہ زبان کا مذہب نہیں ہوتا۔ جب دلوں کے دروازے وا ہوتے ہیں، وصل کے در کھلتے ہیں، ایسے میں زبان قوموں اور نسلوں کو جوڑنے کا کام کرتی ہے اور محبت اور یگانگت کے رشتے استوار ہوتے ہیں۔ ہندوستانی تاریخ کے ایسے ہی لمحے میں اردو زبان وجود میں آئی۔ اردو محض ایک زبان نہیں، بلکہ ہماری ایک ہزار برسوں کی تہذیبی کمائی بھی ہے۔

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب فرماتے ہیں "اپنی زبان کس کو پیاری نہیں لگتی؟ اس بارے میں طرف داری برحق، لیکن سخن فہمی بھی ضروری ہے۔ اردو کی زلف گرہ گیر کے ہم سب اسیر ہیں۔ اردو کے حسن و خوبی کا تذکرہ کون نہیں کرتا۔ اس کے لطف و اثر اور شیرنی اور دل نشینی کی کشش کون محسوس نہیں کرتا، کون نہیں جانتا کہ اردو برِ صغیر کی یا جنوبی ایشیا کی ایسی زبان ہے جس میں اخذ و قبول کا حیرت انگیز ملکہ ہے اور جس کا دامن طرح طرح کے پھولوں سے بھرا ہوا ہے، جس کی جادو اثری میں شکوہ ترکمانی، ذہنِ ہندی، نطقِ عربی، تینوں کا ہاتھ ہے۔

"کون نہیں جانتا جب نئی تاریخی حقیقتیں ابھرتی ہیں تو نئے سماجی تقاضے پیدا ہوتے ہیں اور نئی سچائیاں وجود میں آتی ہیں۔ اردو ایسی ہی ایک سچائی ہے۔ لسانی، سماجی، اور تہذیبی سچائی جو ہندوؤں اور مسلمانوں کے صدیوں کے سابقے اور اختلاط و ارتباط سے وجود میں آئی۔ اس وقت اس کا کوئی نام نہیں تھا۔ کوئی بھی سچائی جب جنم لیتی ہے، اس کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ سچائیوں کو نام تو اس وقت ملتا ہے جب وہ خانہ زاد ہوجاتی ہیں۔ پراکرتوں کی دھرتی سے جب نیا اکھوا پھوٹا اور اس میں عربی، فارسی اور ترکی اثرات کا پیوند لگا تو اس کا کوئی بھی نام نہیں تھا۔ امیر خسرو نے اسے ہندوی بھی کہا اور دہلوی بھی، اسے ریختہ بھی کہا گیا دکنی بھی، کہیں گجری کہلائی پھر کسی نے اردو کہا۔ تاریخ کے ایسے لمحوں میں جب تہذیب کی ہوا میں شراب کی تاثیر اور لطافت اور رس پیدا ہو جاتا ہے، تو مختلف فرقوں، گروہوں اور طبقوں میں ربط پیدا کرنے کے لیے کوئی اردو زبان پیدا ہوتی ہے۔"

مجھے احساس ہے کہ مضمون طوالت اختیار کر گیا ہے ابھی بھی کئی ایسے پہلو ہیں جن پر روشنی ڈالنی ہے۔ کئی ایسے نکتے ہیں جنہیں اٹھانا باقی ہے۔ سر دست جاتے جاتے ایک بار پھر کہوں گا کہ اردو اور انگریزی کو ایک دوسرے کے مقابل مت لائیں۔ انگریزی زبان کی اپنی ایک اہمیت ہے، اردو کی اپنی۔ اردو ہماری قومی زبان ہے اور رابطہ بھی اگر اسی زبان میں رکھا جائے تو اچھا ہے، تعلیم بھی اگر اردو میں دی جائے تو کیا قباحت ہے؟

آپ جدید علوم کی کتابوں کو اردو میں ترجمہ کروائیں۔ بر محل اور آسان ترجمہ۔ اپنی زندگی میں اردو کو شامل کرنے کی کوشش تو کریں، یقین کریں یہ بہت آسان اور حسین ہے، مگر ساتھ ساتھ دیگر زبانوں سے نفرت نہ کریں۔ زبانیں تو سر تا پا پیار ہوتی ہیں اور مختلف قوموں کو نزدیک لاتی ہیں۔


متعلقہ مضامین

میڈیا میں اردو زبان کا غلط استعمال

اردو زبان کے بارے میں چند غلط تصورات

میری اردو بہت خراب ہے!

ضرور پڑھیں

تبصرے (20) بند ہیں

Makhfi Sep 19, 2015 05:52pm
Sorry for writing in English as Roman Urdu is not my cup of tea. You deserve accolades for such excellent article . Those people who are against enforcement of Urdu as a language of education clearly need to step out of their bubble . I still remember I was trying to teach certain math concepts to little girl hailing from village and she was in 4th class . Her problem was English she couldn't understand the problem statement and just imagine how it hinders her performance and self-confidence in these formative years of her life . You can teach English as a subject in schools & college and if those people are so concerned about research and progress , courses should be offered in English in Universities as this is where research takes place not in schools and colleges . I am studying Masters in Electrical Engineering in Germany and they teach in german , if there are some new concepts and developments in science, they just use the English scientific term but they explain it in german .
عائشہ بخش Sep 19, 2015 05:55pm
کیا انگریزی کے بغیر کس شخص کو اچھی جاب مل سکتی ہے ؟ اس وقت آپ کی جیب میں یا میز پر کتنے وزٹنگ کارڈ اردو زبان میں ہے ؟ ہم نے مجموعی طور پر اردو کو طلاق دے دی ۔
MUHAMMAD AYUB KHAN Sep 19, 2015 06:41pm
@عائشہ بخش YES I AM ON JOB BECAUSE I KNOW ANOTHER LANGUGAGE THAT IS NO ENGLISH. mY VISITING CARD IS NOT IN ENGLISH. ALL VISITING CARDS ON MY TABLE ARE NOT IN ENGLISH. ı AGREE THAT WE FEEL SHY TO SPEAK IN URDU. HOWEVER, THE PEOPLE WHO SPEAK ENGLISH ARE NOT PERFECT. MOST OF THEM SPEAK WRONG. I CAN POINT OUT GRAMAR MISTAKES IN EVERY NEWS OF DAWN NO DOUBT IF IT IS WRITTEN URDU OR ENGLISH
احمد Sep 19, 2015 06:49pm
آپ سے متفق ہونے کا باوجود زمینی حقائق مجھے آپ سے اختلاف کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اگر اردو کو صحیح معنوں میں ۵۰ سال قبل اپنا لیا جاتا تو اور بات تھی اب دیر ہو چکی ہے۔ آپکیا کیا ترجمہ کر وائیں گے۔اس وقت آپ کا معیا ر تعلیم بنگلہ دیش اور نیپال سے کم تر ہو چکا ہے۔ اب نظام کو انگلش پر ہی چلنے دیں اور اسی کو معیار بنائیں۔ کیا جو اردو آجکل مستعمل ہے وہی کتابوں میں لکھی جارہی ہے؟
نجیب احمد سنگھیڑہ Sep 19, 2015 08:02pm
اردو کے نفاذ میں حقیقی مسئلہ اس زبان کا پاکستان کی علاقائی زبان نہ ہونا۔ اگر غیرعلاقائی زبان کو ہی نافذ کرنا ہے تو پھر انگریزی کو کیوں نہیں؟ اردو زبان کے نفاذ کو لازمی کی بجائے اختیاری شکل دینی چاہیے۔ علاقائی زبانوں کو علاقوں میں لازمی حیثیت دی جائے۔ نیشنل زبان کا یہ مطلب نہیں کہ اسے سرکاری سطح پر علاقائی زبانوں پر تھانیدار بنا دیا جائے۔ اگر قومی زبان سمجھتے ہوئے اسے اہمیت دی جا رہی ہے تو پھر ہاکی کو کیوں نہیں دی جاتی؟ کیوں کرکٹ کرکٹ کا ہی ہر طرف شور ہوتا ہے؟۔ زبانوں کے تحت پاکستان کی ثقافت کو تباہ کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Sep 19, 2015 08:07pm
@عائشہ بخش صاحبہ میرے پرس میں پانچ وزٹنگ کارڈ ہیں جو کہ سب انگریزی میں ہیں۔ گھر میں جو وزٹنگ کارڈ ڈائری ہے، اس میں تقریبآ ڈھائی سو کے قریب وزیٹنگ کارڈز ہیں اور ان میں دو چار ہی اردو میں ہیں باقی سب انگریزی میں۔ لیکن جب میرا ویاہ کا کارڈ تیار ہوا تھا تو اس پر نہ اردو تھی نہ انگریزی بلکہ پنجابی تھی :(
khan Sep 19, 2015 09:04pm
آپ سب (دونوں) کی رائے قابل قبول مگر اردو کو نافذ کردیں۔
یمین الاسلام زبیری Sep 19, 2015 10:31pm
بہت خوب، اس مضمون نے بہت سوں کو چھیڑ دیا ہے ۔ زبان کا معملہ یہ ہے کہ اسے جب بھی رائج کیا جائے تو دیر نہیں ہوگی۔ میں امریکہ میں امریکیوں کو اردو پڑھاتا ہوں، وہ ہنستے ہیں کہ پاکستانیوں کو اپنی زبان پر فخر نہیں۔ ایک امریکی سے ، جو اردو میں شاعری کرتاہے، کہا کہ بعض الفاظ ایسے ہیں کہ ان کی ایک خاص سمجھ بن گئی ہے، مثلا ساحل پر بنے ہٹ۔ اب ہٹ کا ترجمہ جھونپڑی ہےجو ایک الگ سمجھ دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ ہٹ کو جھونپڑی کہنے لگیں گے تو چند دن ہی میں سب سمجھنے لگیں گے۔ اردو کے نفاظ کا سب سے بڑا فائدہ ان غربا کا ہوگا جو انگریزی اسکولوں کو نہیں جا سکتے۔ جہاں تک مقامی زبانوں کا تعلق ہے تو ایک تو یہ کہ ہر مقامی زبان کا دعویٰ ہے کہ وہ اردو کی ماں ہے۔ دوسرے اردو اور مقامی زبانوں کی صرف و نحو ایک ہی ہے اور جملوں میں الفاظ کا مقام بھی ایک ہی ہے۔ تیسرے مقامی زبان بولنے والوں کو اپنی زبان میں علم و ادب پیدا کرنا ہوگا؛ اردو میں اعلیٰ ادب پاکستان کے بننےسے بہت پہلے سے موجود ہے۔ دوسری طرف بھارتی فلمیں جن کا تماشے کی دنیا پر راج ہے وہ سب سوائے چند الفاط کے اردو میں ہوتی ہیں۔
یمین الاسلام زبیری Sep 19, 2015 10:38pm
@عائشہ بخش کسی بھی زبان کو کبھی بھی گلے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کی مثال اسرائیل کی زبان کی ہے۔ اردو کی اہمیت اس وقت بڑھ جائے گی جب سی اس پی کا امتحان اردو میں ہونا شروع ہوجائے گا۔ آپ کے پاس انگریزی میں کارڈ اس لیے ہیں کیوں کہ اس وقت انگریزی وہ لوگ استعمال کرتے ہیں جن کی کچھ اہمیت ہے۔ جب اہم لوگ اردو استعمال کریں گے تو آپ کی جیب میں اردو میں لکھے کارڈ ہوں گے۔
یمین الاسلام زبیری Sep 19, 2015 10:44pm
چینی کہاوت ہے کہ ہزار میل کا سفر@احمد پہلے قدم سے شروع ہوتا ہے۔ ہماری حکومت اور ہم بہت سے بیکار کاموں پر خرچہ کرتے ہں کیا کچھ دارالترجمے نہیں بنا سکتے۔ آخر چینی، جاپانی، روسی، اور جرمن سب اسی معمورے پر بس رہے ہیں۔ علامہ کا شعر ہے: محروم رہا دولت دریا سے وہ غواص ۃ کرتا نہیں جو صحبت ساحل سے کنارہ۔
رمضان رفیق Sep 19, 2015 10:59pm
بہت خوبصورت لکھا آپ نے۔۔۔میں خود ایک پنجابی ہوں۔۔۔اور اردو کی محبت میں گرفتار۔۔۔۔جیسے ماں پنجابی ہو اور محبوبہ اردو۔۔۔۔اور انگلش کی حثیت بیوی کی سی ہے۔۔۔بنتی بھی نہیں اور اس کے بغیر گذارا بھی نہیں۔۔۔۔۔۔یعنی پاکستان میں جو بھی بالغ ہوا اسے انگریزی لاحق ہوئی۔۔۔۔ درمیانی راستہ بہترین راستہ ہوا کرتا ہے۔ قومی سطح پر اپنی زبان کو تقویت دی جانی چاہیے۔۔اور غیر ملکی زبانوں کو اضافی اور اختیاری کا درجہ ملنا چاہیے۔۔۔۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Sep 19, 2015 11:07pm
لینن نے اپنی کتاب “قومی مسئلے کا تنقیدی جائزہ“ میں لسانی مسئلہ پر یہ رائے دی تھی کہ “اگر ایک زبان کو زبردستی ٹھونسنے کا سلسلہ ختم ہو جائے تو تمام قومیں بہت جلد اور بڑی آسانی سے ایک دوسرے کو سمجھنے لگیں گی اور اس خوفناک خیال سے سراسیمہ نہیں ہوں گی کہ پارلیمنٹ میں انہیں مختلف زبانوں میں تقریریں سننا پڑیں گی۔ اقتصادی لین دین کے تقاضے خود ہی طے کر دیں گے کہ ایک خاص ملک میں تجارتی لین دین کے لیے کون سی زبان اکثریت کے لیے جاننا زیادہ مفید رہے گا اور اس کا تعین اور بھی زیادہ دو ٹوک اس حقیقت سے ہو گا کہ مختلف قوموں کے لوگ اس کو اپنی مرضی سے قبول کریں گے۔“۔ کیا پاکستان میں سب کچھ ایسا ہو رہا ہے؟ قطعآ نہیں۔ یہاں چودہ اگست سے ہی الٹی گنگا بہائی جا رہی ہے۔
usama alli Sep 19, 2015 11:57pm
just keep one thing in mind.. we cant deny the importance of english language in our lives... we r using English as our official language for more than 40 years,, now we r used to with it,, implementation of urdu as an official language means that all the keyboards nd other systems would transform in urdu, then those who r used to in typing english, how can they use urdu version keyboard, u`ll need some new typist nd much more,, lot of examples are present that falsify ur statement,, as urdu is our national language but English is international language.. it`s acceptable to take urdu as 2nd official language but to implement it as 1st language is really a foolish step that will take pakistan 5 steps forward nd 20 steps backward...
مونس طلحہ خان Sep 20, 2015 06:07am
بہت خوب لکھا ہے. اردو اپنانے سے کسی حد تک class difference ختم کرنے میں مدد ملے گی اور بہت سے لوگ رسوائی سے بھی بچ جائینگے. اس نیک کام میں جلدی کرنی چاہیے.
شیہک طاہر Sep 20, 2015 11:54am
@احمد واقعی آپ درست فرمارہے ہیں، اب بہت دیر ہو چکی ہے، عقل و دانش کا تقاضا یہی ہے کہ انگلش ہی کو چلنے دیا جائے۔ باوجود اسکے کہ میری اردو انگلش سے کئی گنا بہتر ہے مگر حقائق کے پیشِ نظر انگلش ہی ہماری ضرورت ہے۔
Sharminda Sep 20, 2015 01:18pm
Why are we discussing this matter after 6 decades of our independence. It seems we have no other issues to discuss? Instead of wasting our energies on this debate, why not resolve problem associated with this issue. Most importantly, single education system throughout the country. Doesn't really matter English or Urdu. As long as quality & affordable education available for everyone in Pakistan.
shander58422 Sep 20, 2015 02:11pm
اردو کے نافذ ھونے سے صرف امرا خوفززدھ ھیں۔
Akhtar Hafeez Sep 20, 2015 03:37pm
پہلے اس ملک کے ترانے کو تو مکمل اردو میں کیا جائے پھر اردو کے نفاز کی بات کرنی چاہیے۔ اور جو قومیں اس ملک میں صدیوں سے آباد ہیں ان کی بھی اپنی زبانیں ہیں ، ان کی ایک تاریخ ہے کیا ان کا یہ حق نہیں بنتا کہ ان کی زبانوں کو بھی اہم سمجھا جائے۔ پہلے ان قوموں پہ انگریزی مسلط تھی اب اردو کی جا رہی ہے۔
MUHAMMAD AYUB KHAN Sep 20, 2015 04:46pm
@Akhtar Hafeez please elaborate what do you mean?
MUHAMMAD AYUB KHAN Sep 20, 2015 04:48pm
@احمد ı suppose u know she is not a regulatory authority