دریائے سندھ کی ڈاکوؤں سے آزادی قریب

اپ ڈیٹ 30 ستمبر 2015
تونسہ بیراج پر کشتیوں میں انڈس بوٹ سفاری کروائی جاتی ہے۔ یہ علاقہ اب جرائم کی وجہ سے غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔  — Zahoor Salmi
تونسہ بیراج پر کشتیوں میں انڈس بوٹ سفاری کروائی جاتی ہے۔ یہ علاقہ اب جرائم کی وجہ سے غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ — Zahoor Salmi

جرائم کی بیخ کنی، سیلاب کے موسم میں امدادی کارروائیوں اور ریلیف کے کاموں کو مزید بہتر بنانے کے لیے اور دریائے سندھ میں پائی جانے والی نایاب انڈس ڈولفن کے تحفظ کے لیے پاکستان ایک خصوصی پولیس فورس تیار کر رہا ہے۔

اس ریورائن ایمفیبئس پولیس فورس کے پہلے 700 جوان اگلے سال فروری میں پاس آؤٹ ہوں گے، جو ابھی پاک فوج کے زیر تربیت ہیں۔ یہ پولیس فورس صوبہ پنجاب کے ان اضلاع میں تعینات کی جائے گی جہاں سے دریائے سندھ گزرتا ہے۔ ان اضلاع میں راجن پور، رحیم یار خان، مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان، لیہ، بھکر، میانوالی اور اٹک شامل ہیں۔

دریائے سندھ کا شمار ایشیا کے چند لمبے ترین دریاؤں میں ہوتا ہے۔ اس کی لمبائی تقریبا 3000 کلومیٹر ہے اور یہ تبت کے علاقے سے نکلتا ہوا، ہندوستان سے پاکستان میں داخل ہو جاتا ہے۔

دریائے سندھ پاکستان میں زراعت اور خوراک کے لیے وافر پانی مہیا کرتا ہے، لیکن اس کے کچھ علاقے جرائم پیشہ افراد کا گڑھ بھی بن گئے ہیں کیونکہ کچھ مسلح گروپوں نے دریا میں موجود جزیروں پر محفوظ پناہ گاہیں بنا لی ہیں۔

پولیس کے ڈپٹی انسپیکٹر جنرل سہیل حبیب تاجک کا کہنا ہے کہ ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ افراد نے دریائے سندھ کے اندر موجود جزائر پر اپنی محفوظ پناہ گاہیں بنا لی ہیں اور کئی سالوں سے ریاست کی عملداری کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسپیشل فورس دریا کے علاقے میں قانون کی عملداری کو یقینی بنانے میں مدد دے گی۔

تاجک جو سہالہ پولیس کالج کے کمانڈنٹ بھی ہیں، جہاں اس پولیس فورس کے جوان ابتدائی تربیت حاصل کر رہے ہیں، نے وضاحت سے بتایا کہ دریائے سندھ کے آس پاس کے کچھ علاقے اغواکاروں اور دوسرے جرائم پیشہ افراد کے لیے محفوظ پناہ گاہیں بن گئے ہیں کیونکہ عام پولیس ان کو پکڑنے کے لیے دریا کے اندر موجود جزیروں تک پہنچنے کی صلاحیت اور تربیت نہیں رکھتی۔

جولائی 2013 میں صوبہ پنجاب کے ضلع راجن پور کے ساتھ دریائے سندھ میں تقریباً 60 جرائم پیشہ افراد نے تین جزائر پر قبضہ کر لیا اور آٹھ پولیس اہلکاروں کو یرغمال بھی بنا لیا تھا، یہ سارا علاقہ قتل و غارت اور اغوا برائے تاوان جیسی وارداتوں کے حوالے سے بدنام ہے۔

تاجک کا کہنا ہے کہ روایتی پولیس نہ تو اتنی تربیت یافتہ ہے اور نہ ہی اس کے پاس ان مجرموں کو پکڑنے کے لیے ضروری اسلحہ اور دوسرا ساز و سامان ہوتا ہے، تاہم اس اسپیشل پولیس فورس کے پاس تمام ضروری آلات اور جدید ساز و سامان موجود ہوگا جس میں موٹر بوٹس، کمیونیکیشن سسٹم، نیویگیشن آلات اور ہتھیار شامل ہیں۔

دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ عسکریت پسندوں کی نقل وحمل کے ساتھ ساتھ ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں غیر قانونی اسلحے کی ترسیل پر بھی اسپیشل فورس نظر رکھے گی۔

اس اسپیشل فورس کے جوانوں کو تیراکی اور غوطہ خوری کی تربیت، اور جدید برق رفتار کشتیاں اور لائف جیکٹس بھی دی جائیں گی تاکہ سیلاب آنے کی صورت میں وہ فوری طور پر امدادی کارروائیوں میں حصہ لے سکیں۔ پاکستان میں ہر سال تباہ کن سیلاب آتے ہیں۔ 2010 کے بھیانک سیلاب میں تقریبا 2000 لوگ ہلاک ہوگئے تھے، جبکہ 12 لاکھ سے زیادہ گھروں کے تباہ ہونے کی وجہ سے 18 لاکھ لوگ بے گھر ہوگئے تھے۔

پاکستان واٹر پارٹنرشپ کے کنٹری ڈائریکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ اس اسپیشل فورس کے جوان پانچ سے دس منٹ میں کسی بھی سیلاب زدہ علاقے میں آسانی کے ساتھ پہنچ سکتے ہیں اور اس سے پاک فوج پر بھی امدادی کارروائیوں میں حصہ لینے کے حوالہ سے دباؤ میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ سیلاب کی امدادی کارروائیوں میں حصہ لینے کی وجہ سے پاک فوج کی عزت و احترام میں تو اضافہ ہوتا ہے لیکن انہیں سرحدوں کی حفاظت جیسے بنیادی کام تک ہی محدود رہنا چاہیے۔

پنجاب ایمرجنسی سروس کے پاس صرف 14 غوطہ خور اور 2 درجن کے قریب تیراک ہیں جو اکیلے کسی بھی امدادی کام میں حصہ لینے کے لیے ناکافی ہیں۔ امیر کا کہنا ہے کہ اسپیشل فورس سینکڑوں جانیں بچانے میں مدد دے گی۔

خصوصی فورس کو ماحولیات کے تحفظ کی بھی تربیت دی جائے گی، خاص طورپر انڈس ڈولفن کو بچانے کے لیے بھی انہیں خاص ہدایات دی جائیں گی۔ تقریباً 1400 ڈولفن جنہیں مقامی طور پر بلہن کے نام سے جانا جاتا ہے، پاکستان میں دریائے سندھ کے تقریبا 1500 کلومیٹر کے علاقے پر پائی جاتی ہیں۔ قدرت کے تحفظ کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر نے انڈس ڈولفن کو نایاب ہونے والی نسلوں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔

سسٹین ایبل ٹورازم فاؤنڈیشن پاکستان کے صدر آفتاب رانا کا کہنا ہے کہ اسپیشل فورس نہ صرف ڈولفن کے تحفظ میں مدد دے گی بلکہ دریائے سندھ سے جرائم پیشہ افراد کو بے دخل کرنے میں بھی مدد دے گی جس سے اس علاقے میں سیر و سیاحت کے مواقع میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر دریائے سندھ کے آس پاس کے علاقوں میں امن و امان کی صورت حال بہتر کر دی جائے تو اس سے پنجاب میں ڈولفن بوٹ سفاری کے ساتھ ساتھ مقامی معیشت اور کلچر کو بھی کافی فروغ ملے گا۔ جرائم پیشہ افراد کی موجودگی کی وجہ سے فی الحال یہ علاقہ سیرو سیاحت کے لیے غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔

خصوصی فورس سے دریائے سندھ میں موجود ڈولفن کی صحیح تعداد مرتب کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے کیونکہ موجودہ تعداد صرف اندازوں کی بنیاد پر اکٹھی کی گئی ہے۔

رانا کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ میں موجود جزیروں پر اغوا کاروں اور دوسرے جرائم پیشہ افراد کے خوف کی وجہ سے اب کوئی بھی ماہر زیادہ دیر تک دریا میں نہیں رکتا کیونکہ اسے قتل یا اغوا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 2011 میں تونسہ بیراج کے نزدیک انڈس ڈولفن کی مانیٹرنگ کرنے والی ایک 10 رکنی ٹیم اغوا ہو گئی تھی جسے بعد میں کچھ بااثر مقامی لوگوں کی مداخلت کے ساتھ رہا کروایا گیا تھا۔

مستقبل میں اس خصوصی فورس کو پاک چین اقتصادی راہداری اور چینی انجینیئروں کے تحفظ کے لیے بھی تعینات کیا جائے گا۔ توانائی اور انفراسٹرکچر کا 46 ارب ڈالر کا یہ معاہدہ اس سال ہی پاکستان اور چین کے درمیان طے پایا ہے۔

تاجک کا کہنا ہے کہ خصوصی فورس کے دستے اقتصادی راہداری کے تحفظ کے لیے تعینات کیے جائیں گے جس میں ریلوے ٹریکس، اس منصوبے پر کام کرنے والے لوگوں کا تحفظ یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ اس راہداری پر سفر کو بھی محفوظ بنایا جائے گا۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تقریباً تین سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔

بشکریہ تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ.

تبصرے (3) بند ہیں

LuvPak Sep 30, 2015 06:06pm
Bohat zabardast kaam kya heh janaab, General sahab! Yeh to kal terrorists kay lye bhi sanctuary ka kam kartay aur aslahay ki tarsil bhi pooray Pakistan men is daryai hiway say hoti. Dolphin aur flood victims ki jaan lag bachaygi!
Naveed Chaudhry Sep 30, 2015 08:24pm
Asalam O Alikum, Is it not shamefull for a police officer to say that there are some known places where crimnals are oprating and they did not stoped them. They need to do their job or step down from their posts. In reality these crimnals have backing of polititian and that is the issue.
MUHAMMAD AYUB KHAN Sep 30, 2015 08:33pm
دریائے سندھ کا شمار ایشیا کے چند لمبے ترین دریاؤں میں ہوتا ہے۔ اس کی لمبائی تقریبا 3000 کلومیٹر ہے اور یہ تبت کے علاقے سے نکلتا ہوا، بھارت سے پاکستان میں داخل ہو جاتا ıNDUS PASSES THROUGH KASHMIR BEFORE ENTERING PAKISTAN. ıT DOES NOT ENTER INDIA AT ANY PLACE.