شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

اپ ڈیٹ 02 اکتوبر 2015
لکھاری ماہرِ سیاسی و ترقیاتی اقتصادیات ہیں،
لکھاری ماہرِ سیاسی و ترقیاتی اقتصادیات ہیں،

کریڈٹ ریٹنگ کمپنیوں اور واشنگٹن پوسٹ کی جانب سے سالہاسال پاکستان کے مستقبل کے بارے میں تاریک پیشگوئیاں اب اچانک اچھے مستقبل کی پیشگوئیوں میں بدل گئی ہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان کو ان 11 ممالک کے کلب نیکسٹ 11 میں بھی شامل کر لیا گیا ہے جن کے بارے میں توقع ہے کہ وہ معاشی ترقی کی بلندیوں کو چھوئیں گے۔

ویسے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ پاکستان کے بارے میں بین الاقوامی پیشگوئیاں کبھی بھی سچ ثابت نہیں ہوئیں، پھر چاہے وہ مثبت ہوں یا منفی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پیشگوئیوں کی بنیاد سنجیدہ سماجی سائنس کے بجائے سرسری جائزے پر ہوتی ہے۔ 1947 سے پہلے کی برطانوی اور کانگریسی پیشگوئیاں، اور 2007 سے 2011 کے بیچ میں ملک کے دیوالیہ ہوجانے کی پیشگوئیاں کبھی بھی سچ ثابت نہیں ہوئیں۔

لیکن 1960 کی دہائی اور 2000 کی دہائی کے وسط میں کی گئی بے پناہ اقتصادی ترقی کی پیشگوئیاں بھی کبھی سچ ثابت نہیں ہوئیں۔ اس لیے ہمیں ان خوش کن پیشگوئیوں کو سماجی سائنس کے معیارات پر پرکھ کر ہی کچھ فیصلہ کرنا چاہیے۔

جب 2010 میں میں نے ڈان کے لیے لکھنا شروع کیا تھا، تو اس وقت کی بدترین صورتحال کے باوجود انہی معیارات کے ذریعے میں نے پیشگوئی کی تھی کہ حالات تین سے پانچ سال میں بہتر ہونا شروع ہوں گے۔ یہ پیشگوئی اب بھی درست ہے۔ اور آگے کی پیشگوئی کرنے کے لیے ہمیں ایسا ہی تجزیہ چاہیے۔

اب دیکھا جا رہا ہے کہ پاکستان دہشتگردی پر قابو پانے میں بے پناہ کامیابی حاصل کر رہا ہے۔ حقیقت میں پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف کامیابی حاصل کرنی 2008 میں جمہوریت کی واپسی کے ساتھ ہی شروع کر دی تھی، جبکہ مشرف دور میں فاٹا اور خیبر پختونخواہ کے بڑے حصے دہشتگردوں کے قبضے میں تھے۔

2009 میں سوات کی دہشتگردوں سے خلاصی، 2010 میں جنوبی وزیرستان کی خلاصی، اور شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کے خلاف جاری آپریشن، سب ہی اس جمہوری دور میں ہوئے ہیں۔ جو لوگ پوچھتے ہیں کہ جمہوریت نے کیا دیا ہے، ان کے لیے سادہ جواب یہ ہے کہ جمہوریت نے دہشتگردی کے خلاف بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ یہ دعویٰ اس ناقابلِ تردید حقیقت سے متصادم ہے کہ فوج یہ سخت لڑائی لڑ رہی ہے جبکہ صرف بوجھل دل کے ساتھ ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ لیکن اگر یہ درست ہے تو پھر فوج نے اس وقت کیوں دہشتگردوں کا خاتمہ نہیں کیا جب اس کی اپنی حکومت تھی، اس کے پاس مکمل طاقت تھی، اور مسئلہ بہت چھوٹا تھا؟ جواب یہ ہے کہ سیاستدانوں کی طرح فوج بھی جب اقتدار میں ہو تو اس کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ اور متحدہ مجلسِ عمل کو خوش رکھنے کے لیے پرویز مشرف کراچی اور شمال میں قدم اٹھانے سے ہچکچاتے رہے۔ مگر جیسے ہی جمہوریت نے فوج کو ان سیاسی بندشوں سے آزاد کروایا، تو فوج نے فوراً اقدامات شروع کر دیے۔

اب آپریشن کی سیاسی قیمت فوج کو نہیں بلکہ سیاستدانوں کو چکانی ہے، جس کی وجہ سے فوج کی مقبولیت میں مصنوعی طور پر اضافہ ہو رہا ہے۔

جنگ کے لیے تیار آرمی چیف کی تقرری کا کریڈٹ بلاشبہ سیاستدانوں کو جاتا ہے۔ ان کے تقرر سے پہلے لکھے گئے کئی مضامین میں اس بات کا انکشاف کیا گیا تھا کہ حکومت اس وقت جنرل راحیل شریف کو ہی فوج کے سربراہی کے لیے موزوں ترین سمجھتی تھی، کیونکہ وہ فوج کی انسدادِ دہشتگردی حکمتِ عملی کے معمار ہیں۔

اب حالات کی مزید بہتری کے لیے فوجی حکومت یا جنرل راحیل شریف کی مدتِ ملازمت میں توسیع ضروری نہیں، بلکہ سیاستدانوں کی جانب سے اسی ذہن کے ایک اور آرمی چیف کی تقرری ضروری ہے۔

دہشتگرد کافی حد تک کمزور ہو چکے ہیں مگر مستقبل قریب میں ان کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔ وقتاً فوقتاً حملے جاری رہیں گے اور اس کی وجہ سیاستدانوں اور فوج کی خوش فہمی ہوگی۔

افغان طالبان کی مبینہ طور پر حمایت جاری رکھنے سے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ افغانستان کے عدم استحکام میں کردار ادا کر رہی ہے۔ اس سے پاکستانی دہشتگردوں کو افغانستان میں پناہ حاصل کرنے میں آسانی ہوگی۔ سیاستدان معاشرتی انتہاپسندی پر قابو نہ پا کر بھی حالات کی بہتری میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔

اقتصادی سطح پر بھی کچھ بہتری تو ہو رہی ہے مگر یہ بہتری صرف رسک فیکٹرز، یعنی مہنگائی کی بلند شرح اور گرتے ہوئے زرِ مبادلہ کے ذخائر تک ہی محدود ہے۔ اس کی وجہ بنیادی طور پر تیل کی گرتی ہوئی قیمتیں اور حکومت کی مشتبہ پالیسیاں ہیں جنہوں نے براہِ راست ٹیکسوں کے بجائے بالواسطہ ٹیکسوں کی مد میں حکومت کی آمدنی بڑھائی ہے۔

ترقی کے حقیقی اشاریے، جیسے صنعتوں اور برآمدات کی بات کی جائے تو وہ وہیں کے وہیں ہیں۔ اس سے حکومت کے "جادوئی چھڑی گھما دینے" کے دعووں اور آئی ایم ایف کے اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پلان کی قدر و قیمت دونوں ہی کی نفی ہوتی ہے۔

جب ملک میں اقتصادی سرگرمیوں کا مقصد بلند اور منافع بخش پیداوار ہو جبکہ یہ جدید ٹیکنالوجی پر مبنی ہوں، تو ملک تیزی سے ترقی کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں پانچ مختلف طرح کی اقتصادی سرگرمیاں مختلف مقاصد و منطق کے تحت ہوتی ہیں۔

سب سے پہلے تو فوج ہے، جو غیر منافع بخش دفاعی مقاصد کے لیے بے پناہ وسائل کا استعمال کرتی ہے۔

اس کے بعد سیاستدان ہیں، جو ووٹ خریدنے کے لیے مشتبہ و سوال طلب منصوبوں پر بے دریغ پیسہ بہاتے ہیں (جیسے کہ حالیہ کسان اسکیم)۔

تیسرے نمبر پر روایتی کاروباری طبقہ ہے جو کم معیار کی مصنوعات تیار کرتا ہے، اور ٹیکس، مزدوری اور ماحولیاتی قوانین کو پامال کر کے اپنے منافع میں اضافہ کرتا ہے۔ فوج کی بھی اپنی کئی بڑی کارپوریشنز ہیں جو معاشی میدان میں مقابلہ کرنے کے بجائے سرکاری مدد پر زیادہ منحصر ہیں۔

پھر اس کے بعد دو آپس میں جڑے ہوئے پیداواری ذرائع ہیں جنہیں دہشتگرد اور جرائم پیشہ افراد استعمال کرتے ہیں۔

اقتصادی سرگرمیوں کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے جو اونچی پیداوار اور جدید ٹیکنالوجی پر منحصر ہے۔ اس پیداواری ذریعے کو طاقتور بنانے کے لیے پاک چین اقتصادی راہداری سے بھی زیادہ بڑی بیرونی سرمایہ کاری کی لہر کی ضرورت ہوگی۔

اس کے علاوہ اس کی کامیابی کے لیے اچھی حکمرانی کی ضرورت ہوگی جس کی ضمانت فی الوقت نہ ہی جمہوریت فراہم کر سکتی ہے اور نہ دوسری طرح کی حکومت۔ اس طرح پاکستان کی اقتصادی ترقی کا سفر سست اور مشقت بھرا ہوگا۔

صاف الفاظ میں کہیں تو درمیانی مدت میں پاکستان نہ ہی دیوالیہ ہوگا اور نہ ہی فوراً ترقی حاصل کر لے گا۔ اس لیے پاکستان زندگی کی غالب کی ویسی ہی تشریح کی مانند ہے کہ شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک۔

انگلش میں پڑھیں.

لکھاری ماہرِ سیاسی و ترقیاتی اقتصادیات ہیں،

یہ مضمون ڈان اخبار میں 1 اکتوبر 2015 کو شائع ہوا.

تبصرے (0) بند ہیں