فلم انڈسٹری میں جدید دور کے ایکشن ہیروز جیسن بورن اور ایتھان ہنٹ کے آنے سے جیمز بونڈ کے لیے شائقین کے دلوں میں اپنی جگہ بنائے رکھنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔


(ذیل میں فلم کی کہانی کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے.)


53 سال پرانی فلم سیریز جیمز بونڈ کی 24 ویں فلم اسپیکٹر میں اس پرانے جاسوس کو ایک اور سخت لڑائی لڑنی پڑی ہے کیونکہ برطانوی انٹیلیجنس ڈبل او پروگرام ختم کر کے دنیا بھر میں ڈرونز اور بگ ڈیٹا پر مبنی جاسوسی کا ایک نیا جال بچھانا چاہتی ہے۔

ڈینیئل کریگ، جنہوں نے متاثر کن کسینو رویال، بمشکل سمجھ آنے والی کوانٹم آف سولیس، اور اسٹائلش مگر موڈی فلم اسکائی فال میں بونڈ کا کردار ادا کیا، اب اسپیکٹر میں اپنے روایتی کردار میں نظر آتے ہیں، جو مشکل ترین حالات میں بھی اپنے اعصاب پر قابو رکھنے کی حیران کن صلاحیت رکھتا ہے۔

فلم کی شروعات میکسیکو سٹی میں مُردوں کے دن کی پریڈ کے زبردست طریقے سے فلمائے گئے ٹریکنگ منظر سے ہوتی ہے جس کے بعد فلم اپنی متوقع شکل لینی شروع کرتی ہے، جس میں بونڈ کی ٹائمنگ ہمیشہ درست، نشانہ بالکل پختہ، اور سوٹ انتہائی نفاست سے استری کیا ہوا ہوتا ہے۔

جب شروعاتی منظر گولیوں، عمارت میں دھماکے، اور بے قابو ہیلی کاپٹر میں مکے بازی کے بعد ختم ہوتا ہے اور کریڈٹس کے منظر میں گلوکار سیم اسمتھ خود کو توجہ سے سنتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، تو ایسا لگتا ہے کہ ایکشن میں رہنے کی بونڈ کی خواہش اسپیکٹر میں ضرور پوری ہوگی۔

مگر یہ خواہش اس وقت ادھوری رہ جاتی ہے جب بونڈ میکسیکو سے لندن واپس آتا ہے، جہاں نئے ایم (رالف فائنیس) سی (اینڈریو اسکاٹ) کے ساتھ ایم آئی 6 کے ایم آئی 5 میں ضم ہونے پر بحث کر رہے ہوتے ہیں۔ بونڈ کو فرائض سے سبکدوش قرار دیا جاتا ہے مگر وہ کیو (بین وہیشا) سے کچھ چیزیں لے کر روم، آسٹریا، طنجہ (مراکش) اور دیگر جگہوں کے سفر پر نکل پڑتا ہے تاکہ ایک پراسرار شخصیت دی پیل کنگ کا پتہ چلا سکے۔ اس دوران وہ رومانس کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور دباؤ کے باوجود پرسکون نظر آتا ہے۔

اسپیکٹر، جس کی ہدایتکاری سیم مینڈیز نے کی ہے اور جس کا اسکرپٹ کئی لوگوں نے لکھا ہے، جانتی ہے کہ شائقین کب کیا دیکھنا چاہتے ہیں مگر اس میں سیریز کی انہی روایتی چیزوں کی اس قدر پاسداری کی گئی ہے کہ یہ پچھلی بونڈ فلموں کی نقل سی لگتی ہے۔

اسکائی فال میں نفسیاتی گہرائی تھی اور مناظر کو خوبصورتی سے فلمایا گیا تھا، مگر یہاں پر فلم کی کہانی لمبی وضاحتی تقریروں کے ذریعے بیان کی گئی جس سے کہانی آسانی سے سمجھ آئی، اور اسٹنٹس میں نہ صرف تفصیلات اور باریکیوں کو نظرانداز کیا گیا، بلکہ کچھ اسٹنٹس انتہائی مضحکہ خیز بھی تھے۔

اسپیکٹر میں حقیقت کی جو کمی ہے، اسے جنسی سیاست اور گھٹیا ڈیجیٹل فوٹوگرافی کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے (خاص طور پر کم روشنی والے مناظر میں)۔ لیا سیڈو، جنہوں نے بونڈ کی محبت کا کردار ادا کیا ہے، انہیں شاید مشن امپاسبل کی ربیکا فرگوسن سے مدد لینی چاہیے کہ ایک فی میل سپورٹنگ کردار کو اپنی کشش کم کیے بغیر کس طرح اکیسویں صدی میں کے کردار میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ ہمیں جوڈی ڈینچ کی غیر موجودگی پر بھی افسوس کرنا چاہیے جن کی زبردست ذہانت نے بونڈ کی حالیہ فلموں کو وہ معیار دلوایا جس کی شاید وہ ان کے بغیر مستحق نہیں تھیں۔

ڈینیئل کریگ نے میڈیا میں کہا ہے کہ وہ دوبارہ بونڈ کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیں گے، اور اگر اسپیکٹر کو دیکھا جائے تو یہ واضح ہے کہ انہوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ڈھائی گھنٹے کی فلم میں زبردستی کردار ادا کر رہے ہیں۔

کرسٹوفر والٹز نے بونڈ کے دشمن کے طور پر اپنا کردار بہت اچھی طرح نبھایا ہے۔ مگر فلم کے ایک بڑے حصے کے بعد ان کے بارے میں ایک انکشاف ہوتا ہے جو شاید تھوڑا پہلے ہونا چاہیے تھا۔

جیمز بونڈ کی فلموں نے ہمیشہ نفاست اور چند مواقع پر شوخی کے درمیان ایک توازن قائم رکھا ہے، مگر اسپیکٹر نے اس توازن کو متاثر کیا ہے۔ ہم بونڈ کی فلموں سے گہرائی کی توقع نہیں کرتے، مگر کم از کم ہمیں یہ سطحی طور پر تو بہتر نظر آنی چاہیئں۔ زبردست شروعاتی سیکوئنس کو چھوڑ کر ایسا محسوس ہوا کہ پوری فلم صرف ایک ذمہ داری نبھاتے ہوئے بنائی گئی ہے۔

پھر آخرکار جیمز بونڈ پوری کہانی کو ایک ڈرامائی کلائمیکس کے ذریعے انجام تک پہنچاتا ہے جو ایک طے شدہ کہانی کی طرح لگتا ہے۔ مگر بونڈ سیریز کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس نے ہمیشہ جدت کو قبول کیا ہے۔

انگلش میں پڑھیں.

— بشکریہ واشنگٹن پوسٹ۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 6 نومبر 2015 کو شائع ہوا.

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں