مصباح، ابھی مت جائیے

08 نومبر 2015
آپ عزتِ نفس رکھنے والے شخص ہیں اور چاہتے ہیں کہ جب تک آپ مکمل فارم میں نہ ہو، آپ ٹیم کا حصہ نہ بنیں. - اے ایف پی
آپ عزتِ نفس رکھنے والے شخص ہیں اور چاہتے ہیں کہ جب تک آپ مکمل فارم میں نہ ہو، آپ ٹیم کا حصہ نہ بنیں. - اے ایف پی

میں آپ کو وہ دن بتا سکتا ہوں جس دن پاکستان کرکٹ پر سے میرا اعتبار اٹھ گیا تھا۔ یہ اگست 2010 میں پاکستان کے دورہء انگلینڈ کے دوران چوتھے ٹیسٹ کا تیسرا دن تھا۔

کپتان سلمان بٹ، سوئنگ باؤلر محمد آصف، اور فاسٹ باؤلر محمد آصف کو اپنا کھیل اور اپنی قوم کچھ پیسوں کے لیے بیچتے ہوئے رنگے ہاتھوں (یا رنگے پیروں کہیں) پکڑا گیا تھا۔ یہ پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا شرمناک ترین باب تھا۔

میں 80 کی دہائی کے اواخر سے کرکٹ کا دیوانہ ہوں، اور اس پورے عرصے کے دوران میں نے کئی دل توڑ دینے والے لمحات دیکھے ہیں۔ مگر یہ ایسا دھوکہ تھا کہ میرے لیے اس سے باہر آنا ناممکن تھا۔ اسی طرح اپنی ٹیم کے لیے میری محبت بالکل ختم ہوگئی۔

اور قسمت کی بات ہے کہ تبھی مصباح الحق، آپ کا دور شروع ہوا۔

بھلے ہی قومی ٹیم سے اعتبار ایک جھٹکے میں اٹھ گیا تھا، مگر یہ اعتبار واپس اتنی آسانی سے نہیں آیا۔ دل کے زخم بھرنے میں وقت لگا اور یہ صرف آپ کی قیادت کی وجہ سے ہوا۔

شاید ہی کوئی اس بات سے اختلاف کرے کہ پاکستان کرکٹ کو بچانے میں آپ نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔

آپ نے ایسے جنگجوؤں کی قیادت سنبھالی جنہیں ان کے اپنے ساتھیوں نے دھوکہ دیا تھا، جن پر میدانِ جنگ میں حریفوں نے اپنے پیشے سے غداری کے طعنے برسائے، جنہیں ہر موڑ پر شک کی نگاہوں سے دیکھا گیا، جنہیں ان کے اپنے حامیوں نے چھوڑ دیا، اور جنہیں ہوم میچز ایک صحرائی ملک میں کھیلنے پڑے۔

ایک بہادر سپاہی کی طرح آپ نے آہستہ آہستہ ہی سہی، پر اپنی ٹیم سے تمام منفی اثرات کا خاتمہ کر دیا۔

آپ کی قیادت میں کھیلی گئی پہلی ٹیسٹ سیریز میں جب آپ کے لڑکوں نے ساؤتھ افریقی ٹیم کو مزہ چکھایا، تو ٹیم میں خود اعتمادی واپس آنے لگی اور پاکستانی قوم کا ٹیم پر اعتماد بھی واپس آنے لگا۔

آپ کا عاجزانہ انداز، ایمانداری، اور پرانے طرز کا کرکٹ اسٹائل ہی وہ چیز تھی جس کی ٹیم کو ضرورت تھی۔

پاکستان کے عظیم ترین ٹیسٹ کپتان عمران خان اپنی ٹیم پر جارحیت اور ذرا سے خوف کے ساتھ قابو رکھتے تھے۔ دوسری جانب آپ نے ٹیم میں دوستانہ ماحول پیدا کیا۔

ایک یادگار فتح کے بعد جب ایک سابق کرکٹر نے آپ سے پوچھا کہ آپ اپنی ٹیم کی کامیابی کا جشن کس طرح منائیں گے، تو ان کو توقع تھی کہ آپ انہیں شاندار پارٹی کے منصوبے کے بارے میں بتائیں گے مگر آپ نے کہا کہ جشن میں ایک خاموش ٹیم ڈنر ہوگا جس میں سب لوگ ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے اور دوستانہ گفتگو کے ساتھ ایک دوسرے کی موجودگی کا مزہ لیں گے۔

قیادت کا یہ باذوق انداز ان کپتانوں سے ہر لحاظ سے اچھا تھا جو اخلاقیات سے عاری تھے، جنہیں گیند چبانے میں مزہ آتا تھا، اور ایک ایسا کپتان جسے یہ لگتا تھا کہ نماز کے لیے بہترین جگہ ڈریسنگ روم کے بجائے اسٹیڈیم کے بیچوں بیچ ہے۔

اسی لیے یہ حیران کن بات نہیں کہ کس طرح آپ نے پاکستان کو کسی بھی دوسرے کپتان سے زیادہ ٹیسٹ فتوحات دلوائی ہیں۔ کھیل کا آپ کا محتاط انداز محدود اوورز کے میچز کے لیے بہترین نہیں ہے مگر یہ ٹیسٹ میچز کے لیے موزوں ترین ہے۔

زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ *43 ٹیسٹ میچوں کی قیادت میں آپ نے اب تک صرف 11 میچ ڈرا کیے ہیں جبکہ عمران خان جو کافی جارحانہ قائد تھے، نے 26 ڈرا کیے۔

ظاہر ہے کہ یہ سب ماحول کی وجہ سے بھی ہے کیونکہ جدید ٹیسٹ کرکٹ میں جیت یا ہار میچ ڈرا ہونے سے زیادہ ممکن ہے، اور اس وجہ سے بھی ہے کہ عمران خان مشکل ترین حریفوں سے ان کے گراؤنڈز پر کھیلتے تھے جبکہ نسبتاً کمزور مہمان ٹیموں کے آنے پر خود کو آرام دیتے تھے۔

اسی طرح آپ کی 45 فیصد جیت کی شرح وسیم اکرم کی 48 فیصد اور وقار یونس کے زبردست 60 فیصد کے بالکل قریب ہی ہے۔

مگر ان تاریخی فاسٹ باؤلرز کے پاس میچ جیتنے کی اپنی قابلیتوں کے علاوہ پاکستان کے بہترین کھلاڑیوں کا ساتھ بھی تھا۔

دوسری جانب مصباح الحق آپ کے پاس آپ کے علاوہ صرف دو سپر اسٹار تھے، ایک یونس خان اور ایک سعید اجمل۔

اگر اس سب کو اور آپ کو زخمی شیر کس حالت میں ملے، اس کو مدِنظر رکھا جائے تو جو نتائج آپ نے حاصل کیے ہیں، وہ غیر معمولی سے ذرا کم نہیں ہیں۔

اور اب بات آتی ہے آپ کی ریٹائرمنٹ کی۔

مصباح، عمران خان کے علاوہ بہت ہی کم پاکستانی لیجنڈز نے کھیل اس وقت چھوڑا ہے جب وہ اپنے کریئر کے عروج پر تھے اور ٹیم کا حصہ خودکار انداز میں بن سکتے تھے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کیوں اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کرنا چاہتے ہیں، جس کا اشارہ بھی آپ نے دیا ہے۔

یہ واضح ہے کہ آپ عزتِ نفس رکھنے والے شخص ہیں اور چاہتے ہیں کہ جب تک آپ اور آپ کی کارکردگی مکمل فارم میں نہ ہو، آپ ٹیم کا حصہ نہ بنیں. جب 2010 میں آپ کو کپتان بنایا گیا، تو اس وقت آپ کرکٹ کو خیرباد کہنے والے تھے۔ اور اب پانچ سال بعد آپ ایک بار پھر پردہ گرانے پر غور کر رہے ہیں۔

آپ نے ہمارے لیے جو کچھ بھی کیا ہے، اس کے بعد آپ کو اپنا بلا اپنی شرائط پر ہی رکھنا چاہیے۔ مگر اگر میں بہت زیادہ خود غرضی سے کام لوں تو میں کہوں گا کہ آپ کو ایک اور ٹور کے لیے ٹیم میں رکنا چاہیے۔ 2016 میں ایک چار ٹیسٹ میچز کی سیریز ہے جس میں آپ اپنا کریئر ایک مکمل دائرے میں ختم کر سکتے ہیں، یعنی دورہ انگلینڈ میں ٹوٹ کر بکھرنے والی ایک ٹیم کی قیادت سنبھالنا، اور چھ سال بعد اسی ملک دوبارہ لوٹنا۔

اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ٹور جون میں ہے جب ہمارے بلے باز کھیلنا اور موسم سے ہم آہنگ ہونا آسان سمجھتے ہیں۔

مگر مصباح، آپ جو بھی فیصلہ کریں، میں تمام پاکستانی کرکٹ شائقین کی طرف سے آپ کا تہہِ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔

کیونکہ آپ کی وجہ سے ہی ہم کرکٹ ایونٹس میں ایک بار پھر سر اٹھانے کے قابل ہوئے، اور یہ ہم پر آپ کا بہت بڑا قرض ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Naveed Chaudhry Nov 09, 2015 12:08am
Asalam o alikum, I voted in favour of writer. However there are few reservations I will mention only one. Our players were fought for accepting bribe. This too bad. They betrayed Nation and game and did some thing against the religion also which is big deal. However most games a specialty cricket work around Bettina's. This why I do not trust the game any more. I wish I am wrong.