الیکشن مہم کے دوران روزمرہ کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ وفا کرنےمیں ناکام وفاقی حکومت نے حکمت عملی بدلتے ہوئے توانائی کے بڑے منصوبوں کو پس پشت رکھتے ہوئے نئے ٹرانسمیشن سسٹم، نج کاری اور بہتر انتظام سمیت دوسری اصلاحات پر توجہ مرکوز کر لی۔

وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے 2013 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد بجلی پیدا کرنے کے بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان کیا تھا، تاہم یہ کثیر لاگت منصوبے توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے۔

ایک طرف جہاں کوئلہ سے چھ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ خاموشی سے پس پشت رکھ دیا گیا، وہیں ایک ہزار میگا واٹ کی صلاحیت رکھنے والا شمسی پارک اب تک صرف سو میگا واٹ پیدا کر پا رہا ہے۔

اسی طرح، 425 میگا واٹ کا نندی پور پلانٹ وزیر اعظم کی جانب سے افتتاح کے کچھ دنوں بعد ہی مینجمنٹ اور قیمتوں کے تنازعات کی وجہ سے بند کر دیا گیا۔ حال ہی میں اسے دوبارہ متحرک کیا گیا ہے۔

وزارت منصوبہ بندی کے مطابق، پاکستان سولہ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے جبکہ اسے تقریباً چھ ہزار میگا واٹ کی کمی کا سامنا ہے۔

پاکستان کے شعبہ توانائی میں سب سے بڑے غیر ملکی سرمایہ کار ایشین ترقیاتی بینک کے کنٹری مینیجر ورنر لی پیک نے بتایا’ یہاں جنریشن سے متعلق اعداد و شمار بڑھا چڑھا کر پیش کیے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں غیر حقیقی ڈیڈ لائنز مایوسی کا سبب بنتی ہیں‘۔

تاہم ، ماہرین کے مطابق حکام خاموشی سے تسلیم کرنے لگے ہیں کہ صرف اضافی پیداوار سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔اب حکام نے انتہائی سنگین مسائل مثلاً بد انتظامی، پرانے ٹرانسمیشن سسٹم اور سست روی کی شکار نج کاری پر کام شروع کر دیا ہے۔

وارنر کا کہنا ہے پاکستان نے کچھ نا دکھائی دینے والی اصلاحات شروع کر دی ہیں۔ اگر یہ مناسب ڈھنگ سے مکمل ہو گئیں تو اگلے ایک دو سال میں نمایاں تبدیلی نظر آنے لگے گی۔

حکومت کے پاس کم وقت رہ گیا ہے کیونکہ 2018 میں اگلے عام الیکشن میں عوام اپنا فیصلہ سنائیں گے۔ ایسے میں بجلی بحران کی وجہ سے کمزور معیشت اور اس کے نتیجے میں بڑھتی بے روزگاری پرتقریباً 20 کروڑ عوام غصے میں آسکتی ہے۔

حکومتی وعدے

نواز حکومت نے اس اہم شعبے میں پیش رفت کی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی کم قیمت اور ملک میں بارشوں کی وجہ سے ہائیڈرو منصوبوں کو تقویت ملی اور لوڈشیڈنگ میں ایک تہائی کمی آ گئی۔

اسی طرح، پیر کو حکومت نے قطر کے ساتھ 16 ارب ڈالرز کی لاگت سے ایل پی جی درآمد کرنے کا معاہدہ کر لیا ، جس کی وجہ سے توانائی کی فراہمی میں یقینی استحکام آئے گا۔

رواں سال چین کے ساتھ طے پانے والے 46 ارب ڈالرز کے معاہدوں میں متعدد توانائی کے بڑے منصوبے بھی شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ پر ترقیاتی کام جاری ہے تو کچھ کاغذوں پر موجو د ہیں۔

ان منصوبوں کے متحرک ہونے کی صورت میں ملک کا بوسیدہ ٹرانسمیشن نظام بیٹھ جانے کاخدشہ ہے، لہذا اس نظام پر سرمایہ کاری ضروری ہے۔

حکومت نے دو ہائی وولٹیج ٹرانسمیشن لائنز کا منصوبہ بنا رکھا ہے اور وہ سرمایہ کاری کیلئے تقسیم کار کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔

اے ڈی بی کے مطابق، چار ہزار میگا واٹ کی صلاحیت رکھنے والی ان لائنز پر تقریباً 1.2 ارب ڈالرز لاگت آئی گی۔ دیگر اصلاحات میں بجلی تقسیم کرنے والی پانچ کمپنیوں کی مارچ سے متوقع نجکاری شامل ہے۔

سب سے پہلے انڈسٹریل حب قرار دیے جانے والے شہر فیصل آباد کی تقسیم کار کمپنی فیسکو کی نجکاری ہو گی۔ اس کمپنی کی ابتدائی قیمت 110 ملین ڈالرز رکھی گئی ہے۔

ایک اور مسئلہ تین ارب ڈالرز سے زائد کا گردشی قرضہ ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ صورتحال میں بہتری آرہی ہے، لیکن زیادہ پیداوار کی ابتدائی حکمت عملی پر پوری توجہ مرکوز ہونے کی وجہ سے دوسری اصلاحات میں تاخیر ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Yousafzai of Shewa Nov 10, 2015 11:26pm
توانائی کا بحران شدید ھے اسلئے ترجیحات میں توانائی ترجیح ھونی چاہئے عوام کو اس سے غرض نہیں کہ حکومت کی توانائی بحران سے نمٹنے کیلئے کیا کرتی ھے عوام کو 24 گھنٹے بجلی چاہئے اور سستی چاہئے نجکاری ضروری ھے لیکن کراچی کی طرح نہیں جہاں کے الیکٹرک نے لوگوں کا جینا حرام کردیا ھے پنجاب سندھ بلوچستان میں اگر نجکاری ضروری ھے لیکن کے پی کے اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرتا ھے اسلئے یہاں مزید ڈیم بنانے کی کوئی ضرورت نہیں البتہ سسٹم کو جدید بنانا پختونخوا میں بھی ضروری ھے پنجاب سندھ ودیگر علاقوں جہاں توانائی کی کمی ھے وہاں بڑے چھوٹے منصوبے بنائے جانے چاہیے. یہ بات سچ ھے کہ پاکستان میں بہت زیادہ توانائی پرانی سسٹم کی وجہ سے ضائع ھوجاتی ھے ورنہ پیداور اتنی زیادہ کم نہیں جتنی لوڈشیڈنگ ھوتی ھے
Naveed Chaudhry Nov 11, 2015 05:03am
Asalam O Alikum, The prolam of energy ( Electrucity and gas ) is not one sided. We talk everyday about how to increase capicity which is fine . We need to increase our capicity. One side of this problam is theft and wastage. For abnormal wastage we need to upgrade distribution syste. Theft is another big factor. All over the country you see unauthrized connections but no body is bothered. I was stunt to read in this newspaper that there are many new devolopments which are using stolen ggs. The authorities have to some thing about it. On the other hand genral public need to understand that a theft is theft. It does not mater that XYZ is also doing it what mater most is that I should not do it Political leaders do not have courage to conforont thiefs . We call ourselves muslims but are we behaving lime muslims Let us start from I and hope things will change and even if not atleast I will not be counted in thiefs. Ameen
Haider Shah Nov 11, 2015 08:58am
کے پی کے اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرتا ھے اسلئے یہاں مزید ڈیم بنانے کی کوئی ضرورت نہیں Israr Muhammad Khan Yousafzai of Shewa Not sure, from where (Israr Muhammad Khan Yousafzai of Shewa) have this conclusion not to BUILD DAM. Expert Professional people's has put ample time,efforts and millions of US dollar in feasibility study to given Professional advise Just review https://en.wikipedia.org/wiki/Kalabagh_Dam