اسلام آباد: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے لندن میں 5 سال قبل قتل ہونے والے رہنماء عمران فاروق کو مارنے کی سازش تیار کرنے والے تین مبینہ ملزمان معظم علی ، سید محسن اور خالد شمیم کو ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے حوالے کر دیا۔

خیال رہے کہ عمران فاروق کے قتل کی ایف آئی آر گزشتہ روز اسلام آباد میں ایف آئی نے درج کیا تھا، مقدمے میں الطاف حسین سمت 7 افراد کو ملزم نامزد کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں : عمران فاروق قتل کا مقدمہ پاکستان میں درج
فوٹو: اسکرین گریب
فوٹو: اسکرین گریب

عمران فاروق قتل کیس میں نامزد تین ملزمان معظم علی ، سید محسن اور خالد شمیم کو ڈیوٹی مجسٹریٹ اسلام آباد سید حیدر شاہ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

ملزمان کو رینجرز کی سخت سکیورٹی میں عدالت لایا گیا، اس موقع پر اسلام آباد کچہری میں بھی سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

کاشف کامران اور سید محسن... فائل فوٹو
کاشف کامران اور سید محسن... فائل فوٹو

ایف آئی کی جانب سے ملزمان کے راہداری ریمانڈ کی درخواست کی گئی، عدالت نے درخواست منظور کرتے ہوئے تینوں ملزمان کو ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا۔

ملزمان ایک روزہ راہداری ریمانڈ کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کو پانچ سال سے زائد ہوگئے۔

لندن عمران فاروق کے قتل کے کیس کی برطانیہ میں بھی تفتیش جاری ہے۔

ایم کیو ایم کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے ایج ویئر کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا۔

فوٹو: اسکرین گریب
فوٹو: اسکرین گریب

برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے تھے ، اسی چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاؤنڈ ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی۔

برطانوی پولیس کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی تصاویر کے مطابق 29 سالہ محسن علی سید فروری سے ستمبر 2010 تک برطانیہ میں مقیم رہا جبکہ 34 سالہ محمد کاشف خان کامران ستمبر 2010 کے اوائل میں برطانیہ پہنچا تھا۔

دونوں افراد شمالی لندن کے علاقے سٹینمور میں مقیم تھے اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی شام ہی برطانیہ چھوڑ گئے تھے۔

جون 2015 میں 2 ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کی چمن سے گرفتاری ظاہر کی گئی جبکہ معظم علی کو کراچی میں نائن زیر کے قریب ایک گھر سے گرفتار کیا گیا۔

تینوں ملزمان کو گرفتاری کے بعد اسلام آباد منتقل کیا گیا جہاں وہ ایف آئی اے کی تحویل میں تھے۔

فوٹو : اسکرین گریب
فوٹو : اسکرین گریب

ان ملزمان سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے تفتیش کی۔

میں پاکستان نے برطانوی پولیس کو ملزمان تک رسائی بھی دی، ملزمان سے تفتیش کے لیے اسکاٹ لینڈ یارڈکی ٹیم بھی پاکستان آئی لیکن دونوں ممالک میں تحویل ملزمان کا معاہدہ نہ ہونے کے باعث پاکستان میں پکڑے جانے والے تینوں افراد برطانیہ کے حوالے نہیں کئے جاسکے۔

یکم دسمبر 2015 کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عمران فاروق قتل کیس کا مقدمہ پاکستان میں درج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں لندن پولیس اب تک 7697 دستاویزات کی چھان بین اور 4556 افراد سے پوچھ گچھ کر چکی ہے جبکہ 4323 اشیاء قبضے میں لی گئیں۔

لندن پولیس نے قاتلوں تک رسائی کے لیے عوام سے مدد کی اپیل کی جبکہ قاتل تک پہنچنے والی معلومات فراہم کرنے پر 20 ہزار پونڈ انعام کا اعلان بھی کیا گیا۔

مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھے جانے سے متحدہ قومی موومنٹ کے سفر تک کے ہر لمحہ کا حصہ رہنے والے ایم کیو ایم کے رہنماء ڈاکٹر عمران فاروق پارٹی کے واحد جنرل سیکریٹری رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں